Inquilab Logo

کیا چین امریکہ کا نیا دشمن ہے؟

Updated: June 23, 2021, 11:11 PM IST | Parvez Hafeez

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے جو جی سیون کے اجلاس میں بائیڈن کی اطاعت کرتے ہوئے چین کے خلاف محاذ آرائی کیلئے تال ٹھوک رہے تھے،اچانک سر بدل دیا۔ انہوں نے اب اصرار کیا ہے کہ برطانیہ چین کے خلاف کوئی سرد جنگ نہیں چاہتا ہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔تصویر :آئی این این

سامراجی طاقتوں کو دنیا پر اپنی بالا دستی مسلط کرنے کے لئے ہمیشہ ایک ایسے دشمن کی تلاش رہتی ہے جس کا ڈر دکھاکر وہ عالمی قیادت کا سہرا اپنے سر باندھ    سکیں۔پچھلی صدی میں امریکہ نے اسی طرح سوویت یونین میں اپنا عالمی دشمن ڈھونڈ لیا تھا۔ اشتراکیت اور سوشلزم کو امریکہ نے مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سب سے بڑا خطرہ  قرار دے کر تقریباً نصف صدی تک سوویت یونین کے خلاف ایک بے معنی اور بے حد مہنگی سر د جنگ لڑی۔  تیس سال قبل سوویت یونین کاشیرازہ بکھرنے کے بعد امریکہ کو ایک نئے دشمن کی ضرورت پڑی تو اس نے اسلامی دہشت گردی نام کی ایک نئی مخلوق ایجاد کرلی۔ نائن الیون کے بعد war on terror  کے نام پر افغانستان،عراق، لیبیا، سیریا، صومالیہ اور یمن کو تاراج کیا گیا۔ سپر پاور ہونے کا یہ فائدہ تو ہے کہ آپ نہ صرف اپنے دوست اور دشمن کا انتخاب کرسکتے ہیں بلکہ آپ اپنی ضرورت اور سہولت کے مطابق دشمن تخلیق بھی کرسکتے ہیں۔موجودہ عالمی تناظر میں چین کے علاوہ کسی اور ملک میں امریکہ کی دادا گیری کو چیلنج کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اس لئے جوبائیڈن پورے زور شور سے چین کو مہذب دنیا کا مشترکہ دشمن ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔برطانیہ میں منعقدہ حالیہ جی۔ سیون کانفرنس کا اصل ایجنڈا بھی چین کے خلاف مغربی ممالک کا ایک مشترکہ اتحاد قائم کرنا اور بیجنگ کیخلاف مجوزہ عالمی محاذ آرئی کیلئے ایک مضبوط اور مربوط لائحہ عمل تیار کرنا تھا۔ جی سیون کے جو دنیا کی سات سب سے بڑی معیشتوں (امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، فرانس، جرمنی،  اٹلی اور جاپان) پر مشتمل گروپ ہے، اجلاس کے اختتام پر جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں خلاف معمول چین کیخلاف جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے عالمی تجارت اور معیشت کو ضرب پہنچانے اور ہانگ کانگ اور سنکیانگ جیسے علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے کیلئے بیجنگ کی سخت مذمت کی گئی۔ چینی حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ چین میں کورونا وائرس کی پیدائش کی مکمل تحقیقات کرائے۔
 جی سیون کے اجلاس سے چین کو للکارنے کے پیچھے بائیڈن کا مقصد یہ تھا کہ وہ دنیا کو یہ پیغام دے سکیں کہ امریکہ ایک بار پھر اقوام عالم کی قیادت کے لئے تیار ہے۔ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی ’’ امریکہ فرسٹ‘‘ پالیسی کے تحت اپنے ملک کے مفادات کو ترجیح دینے اور بین الاقوامی معاملات میں ملوث ہونے سے دامن بچانے کا راستہ اختیار کیا تھا۔ ٹرمپ نے نہ صرف اقوام متحدہ اور نیٹو جیسے اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کی بلکہ انہوں نےWHO  او ر پیرس ماحولیاتی معاہدہ سے علاحدگی بھی کرلی تھی اور یورپین یونین جیسے دیرینہ اتحادیوں کے ساتھ بھی ان کا رویہ مخاصمانہ رہا۔اہم بین الاقوامی امور سے امریکہ کی کنارہ کشی سے عالمی قیادت کا خلا پیدا ہوگیا تھا۔ اپنی معاشی، تجارتی، تکنیکی اور عسکری صلاحیتوں میں ہوئی بے پناہ ترقی کے باعث پچھلے چند برسوں میں چین ایک بہت بڑی عالمی طاقت بن کر ابھرا ہے، اور وہ اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کررہا  ہے۔
  بائیڈن نے وہائٹ ہاؤس میں قدم رکھتے ہی اپنے پیش رو کی ’’امریکہ فرسٹ ‘‘ پالیسی جس نے امریکہ کو عالمی اسٹیج پر الگ تھلگ کردیا تھا کو مسترد کرکے یہ اعلان کردیا کہ  "America is back"۔ انہوں نے بلا تاخیر پیرس معاہدہ اورWHO   سے ٹوٹے رشتے جوڑ لئے اور یورپی اتحادیوں کے ساتھ امریکہ کے التفات کی تجدیدکردی۔ بائیڈن اقوام عالم کی قیادت کے لئے بے قرار ہیں اور  چین کو اپنی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ امریکی کانگریس میں اپنی پہلی صدارتی تقریر میں بائیڈن نے اعلان کیا کہ ’’ اکیسویں صدی کو فتح کرنے کے لئے امریکہ چین کے ساتھ مقابلہ کررہاہے۔‘‘  بائیڈن نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کے ہوتے ہوئے چین کا ’’دنیا کا سب سے برتر، سب سے دولتمند اور سب سے طاقتور ملک ‘‘بننے کا منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔
  چین نے دس سال سے کم عرصے میں ایشیا، افریقہ یہاں تک یورپ میں بھی اپنے اثر و رسوخ میں کافی ا ضافہ کرلیا ہے۔چین کے بیلٹ اینڈروڈ پروجیکٹ میں سوممالک شامل ہوچکے ہیں۔ چین اپنی دولت اور تکنیکی مہارت کے سبب ان ممالک میں ریلوے، ہوائی اڈے، بندرگاہیں اور ہائی وے کی تعمیر میں مصروف ہے۔یہ ترقی پذیر ممالک میں سرمایہ کاری، انفرااسٹرکچر کی تعمیر اور اقتصادی ترقی کا ایک انوکھاپروگرام ہے جس کے ذریعہ چین عالمی اسٹیج کا بڑا کھلاڑی بن گیا ہے۔ استعماری طاقتیں چین کے ان عزائم سے پریشان ہیں۔
  جی سیون کانفرنس میں چین کے اس پروجیکٹ کو ٹکر دینے کے لئے بائیڈن نےBuild Back Better World  (B3W) نام کے ایک بڑے اور بہتر متبادل منصوبے کا اعلان کیا۔امریکی خارجہ پالیسی کی یہ پرانی روایت رہی ہے کہ جب جب انکل ٹام کا سامنا کسی بے حد طاقتور حریف سے ہوتا ہے تو وہ تنہا لڑنے کے بجائے اپنے اتحادیوں کا لشکر لے کر میدان جنگ میں اترتا ہے۔ وہ اپنے حریف پر پہلے جمہوریت، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے دشمن کا لیبل تھوپ دیتا ہے اور پھر اسے خطے بلکہ دنیا کے لئے بڑا خطرہ بناکر پیش کرتا ہے۔ جس طرح امریکہ نے سوویت روس کے ساتھ نصف صدی تک لڑی جانے والی سرد جنگ کو جمہوریت اور تاناشاہی کے خلاف ایک نظریاتی جنگ بنارکھا تھا، بائیڈن چین کے خلاف بھی وہی حربہ اپنارہے ہیں۔لیکن وہ یہ بھول رہے ہیں کہ چین اور روس میں بہت فرق ہے۔چین کی اکانومی کا دنیا پر خاصا اثر ہے۔باقی یورپ کی بات تو چھوڑیں خود جی سیون کے اراکین بھی امریکہ بہادر کے چین مخالف مہم کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ کینیڈا اور برطانیہ کے علاوہ بقیہ تمام رکن ممالک نے چین کے تئیں بائیڈن کے جارحانہ لب و لہجے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ایک سیشن میں اختلافات میں اس قدر شدت آگئی اور بحث میں اتنی گرما گرمی ہوگئی کہ سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کانفرنس ہال کی انٹر نیٹ لائن کاٹ دی گئی جہاں اجلاس ہورہا تھا تاکہ اجلاس کی کارروائی پر پردہ پڑا رہے۔جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے کہہ دیا کہ کئی معاملوں میں چین ہمارا حریف ہوسکتا ہے تاہم وہ بہت سے معاملوں میں ہمارا پارٹنر بھی ہے۔ فرانس کے ایمینوئل میکروں نے یاد دلا یا کہ جی سیون ماحولیات، تجارت اور ترقیاتی پروجیکٹس پر چین کیساتھ مل کر کام کرنا چاہتاہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات صاف ہو جانی چاہئے کہ جی سیون چین مخالف کلب نہیں ہے ۔     
 چینی حکومت کے ترجمان نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو دو ٹوک کہہ  دیا ہے کہ چین کو بدنام کرنا اور ہمارے اندرونی معاملات میں  مداخلت کرنا بند کرو۔بیجنگ نے مغرب کو انتباہ کیا ہے کہ وہ دن لد گئے جب مٹھی بھر ممالک کے چھوٹے موٹے گروپ اقوام عالم کی تقدیر وں کا فیصلہ کیا کرتے تھے۔چین کے اس ردعمل کا فوری اثر نظر آیا۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے جو جی سیون کے اجلاس میں بائیڈن کی اطاعت کرتے ہوئے چین کے خلاف محاذ آرائی کیلئے تال ٹھوک رہے تھے،اچانک سر بدل دیا۔ انہوں نے اب اصرار کیا ہے کہ برطانیہ چین کے خلاف کوئی سرد جنگ نہیں چاہتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK