Inquilab Logo

ممکن نہیں کہ شام الم کی سحر نہ ہو

Updated: December 19, 2020, 5:20 AM IST | Shahid Latif | Mumbai

ایسا لگتا ہے کورونا کی وباء قریب الختم ہے۔ اگر یہ آج دفع ہوجائے تب بھی مسائل اور مایوسی کا وہ دور جلد ختم نہیں ہوگا جو اس کے ساتھ ہی شروع ہوا تھا۔ ایسے میں اُمید کا دامن تھامے رہنا اور نا اُمیدی سے بچنا ہی اُن روشن ستاروں کی جانب بڑھنا ہے جو حوصلہ دیتے ہیں ۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

وبائی دور ختم نہیں ہوا مگر اس کے خاتمے کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں ۔ وباء کا زور بھی ٹوٹ رہا ہے اور ٹیکہ بھی بازار میں آچکا ہے۔ دونوں ہی باتیں وباء کا خوف کم کرنے میں معاون ثابت ہورہی ہیں ۔ اس کے باوجود بالخصوص تجارت پیشہ افراد کی گفتگو اُس جوش، جذبہ اور جولانی سے عاری ہے جو ہر قسم کی تجارت کو جاری رکھنے اور فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ حال صرف ممبئی یا وطن عزیز کے کاروباری لوگوں کا نہیں ہے بلکہ دُنیا کے اکثر ملکوں سے یہی رپورٹیں مل رہی ہیں ۔ ہر جگہ کچھ لوگ ضرور ایسے ہیں جو مستقبل کے افق پر روشن لکیریں دیکھ رہے ہیں مگر اکثر ایسے ہیں جن کو آئندہ دو تین سال تک مستقبل کا اُفق تاریک ہی نظر آرہا ہے۔ اِس طرح کہیں اُمید ہے تو کہیں نااُمیدی۔ یہ دونوں فطری کیفیات ہیں ۔ ان میں کوئی ایک شے بھی بازار سے خریدی جاسکتی ہے نہ ہی فروخت کی جاسکتی ہے۔ خرید و فروخت ممکن ہوتی تو ہر شخص اُمید (خوشی) خریدنے اور نا اُمیدی (غم و اندوہ) کو بیچنے یا ٹھکانے لگانے کیلئے دوڑ پڑتا خواہ اُمید نہایت مہنگے داموں خریدنی پڑتی اور نا اُمیدی کو اونے پونے داموں بیچنا پڑتا۔ انسان کو بھلے ہی اپنے قائم کردہ نظاموں پر فخر ہو مگر قدرت کے نظام کے آگے اس کا ہر نظام اور ہر نظریہ ہیچ ہے۔ اُمید اور نا اُمیدی یا خوشی اور غم کا نظام انسان کا بنایا ہوا ہوتا تو وہ خرقہ پوش ہزار درجہ پُراُمید، مطمئن اور خوش نہ رہتا جسے علم نہیں ہے کہ دوسرے وقت کی غذا کب اور کہاں سے میسر ہوگی۔ اس کے برخلاف وہ زردار کبھی نا اُمید یا غم و اندوہ کا شکار نہ ہوتا جو دُنیا کی اگر ہر چیز نہیں تو ہزارہا چیزیں خریدنے پر قادر ہے۔ 
 سالہا سال کی انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ کامیاب وہی ہوتا ہے جو اُمید کا دامن تھامے رہتا ہے۔ ایک خسارے کے بعد دوسرے خسارے تک پہنچنے کے بعد نفع کے مرحلے میں داخل ہونا اُسی وقت ممکن ہوتا ہے جب پہلے خسارے کے باوجود اُمید قائم رہے اور دوسرے خسارے کے باوجود مایوسی دامن گیر نہ ہو اور جدوجہد کی راہ ہموار ہی رہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہر کامیابی وہ سمندر ہے جس سے ناکامیوں کی کئی ندیاں آکر ملتی ہیں ۔ 
 اُمید ازخود بھی پیدا ہوتی ہے اور پیدا کرنے کی کوشش سے بھی۔ اِس وقت جبکہ وباء پوری طرح ختم نہیں ہوئی ہے، اکثر خاندانوں کو اپنی آمدنی اور معاش کی فکر ہے۔ ’’سیو دی چلڈرن‘‘ نامی ایک غیر سماجی تنظیم کا کہنا ہے کہ اُسے اپنے ایک سروے میں ۸۰؍ فیصد وہ لوگ ملے جنہیں روزمرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں بھی ہزار دشواریوں کا سامنا ہے۔ اس سروے میں شہری اور دیہی آبادی سے ہزاروں لوگوں کو شامل کیا گیا تھا۔ ویسے، اس حالت زار کو سمجھنے کیلئے کسی سروے کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اظہر من الشمس ہے۔ 
 ہم میں سے ہر شخص بچپن سے سنتا آیا ہے کہ خوشی بانٹنے سے بڑھتی ہے، غم بانٹنے سے گھٹتا ہے۔ یہ اُصول اُمید اور نا اُمیدی پر بھی منطبق کیا جاسکتا ہے۔ اُمیدانسان کی اپنی خوش فکری اور خوش گمانی سے پیدا ہوتی ہے اور نا اُمیدی اُس کے حوصلہ کھونے کی عادت سے پرورش پاتی ہے۔ غالب کے ایک برہمن مداح کا ذکر اس کالم میں پہلے کبھی ہوچکا ہے جس سے مَیں نے یہ جاننے کیلئے کہ وہ غالب کے مداح کیوں ہیں ، سوال کیا تھا کہ غالب آپ کو کیا دیتا ہے؟ اس کے جواب میں انہوں نے اپنے دورِ طالب علمی کا ایک واقعہ سنایا تھا کہ وہ اپنے استاد کے ایک حکم کی تعمیل نہیں کرپائے تھے اس لئے اسکول جانے کا خیال ہی اُنہیں کافی ڈراؤنا معلوم ہورہا تھا۔ جس دن اسکول جانا تھا اس سے پہلے کی رات وہ نہایت بے چین تھے۔ اسی بے چینی میں کروٹ بدلتے بدلتے غالب کا مصرعہ اُن کے ذہن میں گونجنے لگا کہ ’’ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا!‘‘ (پہلا مصرعہ: رات دن گردش میں ہیں سات آسماں ) ۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس مصرعے نے اُنہیں بڑا حوصلہ دیااور اُنہیں معمول کے مطابق نیند آگئی۔ معلوم ہوا کہ کوئی خوف یا تشویش انسان کی اپنی خوش فکری پر غلبہ حاصل کرلے تب بھی وابستہ ٔ اُمید رہنا ممکن ہے چنانچہ انسان چاہے تو اپنے اہل خانہ، متعلقین، دوستوں اور کتابوں تک رسائی حاصل کرسکتا ہے تاکہ اُمید کا کوئی سرا اُس کے ہاتھ لگ جائے۔ آپ بھی اس تجربے سے گزرے ہوں گے کہ کسی دوست کو فون کیا، کچھ اپنے حالات بیان کئے اور کچھ اس کے حالات سنے اور پھر یہ کہتے ہوئے فون کی لائن منقطع کی کہ آپ سے گفتگو کرکے بڑا حوصلہ ملا۔ بہ الفاظ دیگر، اُمید کا دامن ہاتھ سے چھو‘ٹا جارہا ہو تو ’’اک ذرا آپ کو زحمت ہوگی، آپ کے پاؤں کے نیچے دل ہے‘‘ کے مصداق آس پاس ہی تلاش کی جائے تو کہیں نہ کہیں ٹہلتی ہوئی مل ہی جاتی ہے۔ گلاس آدھا خالی ہے اور گلاس آدھا بھرا ہوا ہے کی مثال یہ سمجھاتی ہے کہ انسان جس طرح کے نظریہ کو تقویت دینا چاہے زندگی اُس کے ساتھ ویسا سلوک کرنے کیلئے بے تاب رہتی ہے۔ اگر وہ خود کو یقین دلائے کہ گلاس آدھا خالی ہے تو دھیرے دھیرے اُسے پانی کی سطح کم ہوتی دکھائی دے گی اور پھر وہ وقت آئے گا جب اسے گلاس پورا خالی دکھائی دے گا۔ اس کے برخلاف اگر وہ گلاس کے آدھا بھرا ہونے کی حقیقت کے ساتھ ہوجائے اور اسی مثبت خیالی کےساتھ پانی کی سطح کا معائنہ کرے تو رفتہ رفتہ پانی کی سطح میں اضافہ ہوتا ہوا دکھائی دے گا۔ 
 حاصل کلام یہ ہے کہ اُمید کی نفسیات کو اپنایا جائے تو اُمیدوں کی فصلیں لہلہاسکتی ہیں اور نا اُمیدی کی نفسیات کو اختیار کیا جائے تو صبر وشکر کی طاقت بھی داغ مفارقت دے جاتی ہے، ایسی صورت میں کوئی سہارا کام آتا ہے نہ بہتر حالات سے نئی اُمیدوں کی کونپلیں پھوٹتی ہیں ۔آپ جانتے ہیں ڈپریشن دور حاضر کا اہم نفسیاتی مسئلہ ہے۔ غور فرمائیے یہ اب سے دس سال پہلے تک نہیں تھا۔ اب خاص طور پر شہری آبادی کا بڑا عارضہ ہے۔ یہ کیا ہے؟ یہ نا اُمیدی اختیار کرکے آگے بڑھتے چلے جانے کا حتمی نتیجہ ہے جیسے کوئی مسافر ایسی سڑک پر چلتا چلا جائے جو آگے سے بند (ڈیڈ اینڈ) ہو۔ اس مرحلے تک پہنچ جانے کے بعد اسے یاد بھی نہیں رہتا کہ یہاں سے پہلے تک کئی راستے بالکل کھلے تھے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK