Inquilab Logo

جھارکھنڈ کا پیغام

Updated: December 24, 2019, 7:43 PM IST | Editorial

جھارکھنڈ نے فیصلہ کن ووٹ دیا ہے جو گزشتہ روز کے نتائج سے ظاہر ہے۔ اب یہ طے ہے کہ ریاست میں جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) اور کانگریس اتحاد کی حکومت بنے گی۔ اس اتحاد میں راشٹریہ جنتا دل بھی شامل ہے۔ سن ۲۰۰۰ء میں بہار کے ایک حصے کو نئی ریاست میں تبدیل کیا گیا اور اسے جھارکھنڈ نام دیا گیا تھا۔ یہاں قائم ہونے والی پہلی حکومت بی جے پی کی اور اولین وزیر اعلیٰ بابولال مرانڈی تھے۔

جے ایم ایم لیڈر ہیمنت سورین ۔ تصویر : آئی این این
جے ایم ایم لیڈر ہیمنت سورین ۔ تصویر : آئی این این

 جھارکھنڈ نے فیصلہ کن ووٹ دیا ہے جو گزشتہ روز کے نتائج سے ظاہر ہے۔ اب یہ طے ہے کہ ریاست میں جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) اور کانگریس اتحاد کی حکومت بنے گی۔ اس اتحاد میں راشٹریہ جنتا دل بھی شامل ہے۔ سن ۲۰۰۰ء میں بہار کے ایک حصے کو نئی ریاست میں تبدیل کیا گیا اور اسے جھارکھنڈ نام دیا گیا تھا۔ یہاں قائم ہونے والی پہلی حکومت بی جے پی کی اور اولین وزیر اعلیٰ بابو لال مرانڈی تھے۔ مگر نوتشکیل شدہ اس ریاست کو جیسا سیاسی استحکام حاصل ہونا چاہئے تھا، نہیں ہوا چنانچہ کبھی بی جے پی کی حکومت بنی، کبھی جے ایم ایم کی، کبھی صدر راج نافذ ہوا اور کبھی مدھو کوڑا (آزاد) کو وزیر اعلیٰ بننے کا موقع ملا۔ اب جو حکومت تشکیل پائے گی اُس کے سربراہ یقینی طور پر ہیمنت سورین ہونگے جو ۱۴۔۲۰۱۳ء میں ۱۷؍ ماہ تک وزارت اعلیٰ کی ذمہ داری سنبھال چکے ہیں۔
  سن ۲۰۰۰ء سے لے کر اب تک جھارکھنڈ کا اقتدار زیادہ تر بی جے پی کے قبضے میں رہا مگر حالیہ الیکشن میں جھارکھنڈ کے عوام بی جے پی کے اُن دعوؤں کے خلاف ووٹ دینے پر مجبور ہوئے جو زمین پر اپنی حقیقت قائم نہیں رکھ پاتے اور عوام کی مایوسی کا سبب بن جاتے ہیں۔ ۲۰۱۴ء میں بی جے پی نے ریاست کیلئے زیادہ سرمایہ کاری کا نظم کرنے اور اس کے نتیجے میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کا پُرجوش وعدہ کیا تھا مگر پانچ سال گزر جانے کے باوجود رگھوبر داس کی سربراہی میں بی جے پی حکومت عوام کی اُمیدوں پر پورا نہیں اُترسکی۔
  اس کے برخلاف ہوا یہ کہ ریاست میں نہ تو نئی سرمایہ کاری ہوئی نہ ہی جاری پروجیکٹ پایہ ٔتکمیل کو پہنچے۔ دستیاب اعدادوشمار کے مطابق ریاست کے ۴۴؍ فیصد پروجیکٹوں پر کام رُکا ہوا رہا۔ کان کنی، جو کہ اس ریاست کی اہم معاشی سرگرمی ہے، سست روی کا شکار ہے۔ صنعت اورخدمات کا شعبہ بھی بُری طرح متاثر ہے جس کے سبب بے روزگاری کافی بڑھی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پورے ملک کو اپنی گرفت میں لینے والی معاشی سست روی نے جھارکھنڈ کو دیگر ریاستوں کے مقابلے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ظاہر ہے کہ انہی حالات کی وجہ سے عوام بی جے پی کی حکومت سے بدظن اور اسے سبق سکھانے پر مجبور ہوئے۔ 
 موٹے طور پر بی جے پی کو صرف ۲۵؍ حلقو ں میں کامیابی ملی اور اسے ۱۲؍ سیٹوں نیز اقتدار سے برطرفی کا نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ کانگریس کو ۱۰؍ سیٹوں کا فائدہ ہوا جبکہ پورے اتحاد کو ۲۲؍ سیٹوں کا فائدہ اور اقتدار تک رسائی میسر آئی ہے۔ بی جے پی کی شکست اس کی انتظامی ناکامیوں، وعدوں کے پورا نہ کئے جانے کی حقیقت، لیڈران کی رعونت بالخصوص ریاستی وزیراعلیٰ رگھوبرداس کی حد سے اونچی اَنا اورہر خاص و عام کے ساتھ اُن کے طرز عمل کا نتیجہ ہے۔ ’’فرنٹ لائن‘‘ نے اپنے تازہ شمارہ میں لکھا ہے کہ رگھوبر داس سے عوام کی بے دلی ہی کے پیش نظر بی جے پی کو ’’گھر گھر رگھوبر ‘‘ سے بدل کر نیا نعرہ ’’جھارکھنڈ پکارا، بھاجپا دوبارہ‘‘ لگانا  پڑا تھا۔ امیت شاہ کا نعرہ’’اب کی بار، ۵۶؍ پار‘‘ بھی چاروں شانے چت ہوا ہے۔ 
 بی جے پی کو زیادہ اُمید اپنی ’’بی ٹیم‘‘ آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹس یونین ( اے جے ایس یو) سے تھی جس نے الیکشن سے پہلے بی جے پی سے اپنا ناطہ توڑ لیا تھا اس کے باوجود بی جے پی کے لیڈروں کو اُمید تھی کہ اکثریت ملنے میں چند سیٹوں کی کمی پائی گئی تو اے جے ایس یو کو منا لیا جائیگا۔ اس اتحاد کے تئیں بی جے پی کافی پُریقین تھی مگر نہ تو اس کی اپنی کارکردگی قابل ذکر رہی نہ ہی اے جے ایس یو کی، جسے سابقہ الیکشن کے مقابلے میں اس بار ایک سیٹ گنوانی پڑی ہے۔ 
 اس الیکشن میں یقیناً مقامی مسائل کا بڑا دخل ہے جو بی جے پی حل نہیں کرسکی مگر اس کیلئے ’’ہندوتوا‘‘ بھی ذمہ دار ہے جسے مودی اور شاہ کامیابی کی کلید سمجھتے ہیں۔ مہاراشٹر کے بعد جھارکھنڈ نے سمجھا دیا کہ یہ جعلی کلید ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK