Inquilab Logo

بائیڈن کی تقریر

Updated: January 22, 2021, 11:29 AM IST | Editorial

اہل امریکہ ہی نہیں، امریکی اُمور سے دلچسپی رکھنے والے دُنیا بھر کے لوگ بھی ٹرمپ کے چار سالہ پُرآشوب او رہیجان پرور دورِ اقتدار کو بھلا تو نہیں سکیںگے مگر بھولنے کی کوشش ضرور کریں گے۔

Joe Biden - Pic : PTI
جو بائیڈن ۔ تصویر : پی ٹی آئی

 اہل امریکہ ہی نہیں، امریکی اُمور سے دلچسپی رکھنے والے دُنیا بھر کے لوگ بھی ٹرمپ کے چار سالہ پُرآشوب او رہیجان پرور دورِ اقتدار کو بھلا تو نہیں سکیںگے مگر بھولنے کی کوشش ضرور کریں گے۔ اس کوشش کے آغاز کیلئے نئے صدر جو بائیڈن کی افتتاحی تقریر میں اُن کیلئے تسلی بھی تھی اُمید بھی۔ اس میں حوصلہ کا سامان بھی تھا اور بحیثیت قوم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کا پیغام بھی۔ ایک تجربہ کار اور پُرعزم قیادت کی جانب سے تسلی اور اُمید کے یہ وہی الفاظ تھے جن کی اِس موقع پر ضرورت تھی۔ بائیڈن نے اس موقع کو رائیگا ںنہیں جانے دیا۔ اُن کی تقریر کے الفاظ زخموں پر مرہم ہی کا کام نہیں کریں گے، تالیف قلب کا بھی باعث ہوں گے۔ امریکی قوم ایک مخبوط الحواس سابق صدر ٹرمپ کی بداعمالی سے پریشان تھی۔ اس پر ہلاکت خیز کورونا کی وباء ستم بالائے ستم ثابت ہوئی۔ بائیڈن نے ۲۲۔۲۱؍ منٹ کی تقریر میں وبائی حالات، تشویشناک تعدادِ اموات، وباء کی وجہ سے کاروبار اور روزگار کا بڑے پیمانے پر اتلاف، نسلی امتیاز کی لعنت، سیاہ فاموں کے منفی احساس ِ تفاخرو بالادستی، اس سے وابستہ تشدد اور دہشت گردی، اندرون ملک سیاسی انتہا پسندی اور ایسے ہی دیگر تشویشناک مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے اُمید،اتحاد اور جمہوریت کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا اور عوام کو بین السطور یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ جس دور سے گزر رہے تھے، کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھا، مگر اَب ختم ہوچکا ہے، اب اُمید کا دامن تھاما جاسکتا ہے، ملک کو نئے سرے سے جوڑا جاسکتا ہے، ایک ایک شہری کی ترقی اور خوشحالی کا خواب دیکھا جاسکتا ہے اور عالمی نقشے پر اپنا کردار نبھانے کی جانب توجہ دی جاسکتی ہے۔ دوران تقریر بائیڈن نے بڑے پتے کی بات کہی کہ اتحاد کے بغیر امن قائم نہیں رہ سکتا اور امن کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ یہ ایسا حرف دانش ہے جس سے ہر خاص و عام واقف ہے،اس کے باوجود اس کے اعادہ کی ضرورت تھی جسے بائیڈن نے محسوس کیا اور اس ضرورت کو پورا کیا  مگر حکمت کےاس موتی کو نہ صرف بائیڈن اور امریکی عوام بلکہ دُنیا کے ہر حکمراں اور اُس کے عوام کو اپنی گرہ میں باندھ لینا چاہئے۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اکثر لوگ اتحاد کو اس کے حقیقی معنوں میں سمجھنے اور برتنے سے انکار کرتے ہیں۔ وہ اتحاد کا نعرہ تو لگاتے ہیں مگر تفرقہ کی سیاست کو پروان چڑھاتے ہیں۔ ٹرمپ نے یہ عاقبت نااندیشی کھلم کھلا کی۔ اس پر ہونے والی قومی و عالمی تنقید سے اُنہیں متنبہ ہوجانا چاہئے تھا مگر نہیں ہوئے۔ اُنہیں اندازہ نہیں تھا کہ امریکی عوام خود متنبہ ہوگئے ہیں اور ۲۰۱۶ء کی غلطی دوبارہ نہیں کرینگے۔ بائیڈن نے اُن لوگوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے، جو اتحاد کے تذکرہ و عزم کو دیوانے کی بڑ سمجھتے ہیں، اتحاد کی برکات پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اس سے سابقہ غلطیوں کی اصلاح کی جاسکتی ہے، عوام کو بہتر روزگار اور بچوں کو بہتر تعلیم دی جاسکتی ہے، وباء کو زیر کیا جاسکتا ہے اور متوسط طبقے کی از سرنو تشکیل ہوسکتی ہے۔ بائیڈن کی تقریر ویسی ہی تھی جیسی کہ موجودہ حالات میں ہونی چاہئے تھی۔ اس سے اُن کی سیاسی بصیرت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ بہرکیف، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ اس بصیرت کو بروئے کار لا کر کس طرح تبدیلیٔ اقتدار کا احساس دلاتے ہیں۔ وبائی حالات اور دیگر اُمور میں ٹرمپ کی بدعملی کو خوش عملی سے تبدیل کرنا، دیگر ملکوں سے سفارتی تعلقات میں بہتری لانا، عالمی نقشے پر امریکہ کے کردار کو مثبت بنانا، حق و انصاف کا ساتھ دینا اور ٹرمپ کی خود غرضانہ پالیسیوں پر خط تنسیخ کھینچنا اُن کی اولین ترجیح ہونا چاہئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK