• Tue, 15 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کوہ فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہونے والے مہر ِعالمتاب نے بلادِ عالم کو منّور کردیا

Updated: September 13, 2024, 4:24 PM IST | Professor Mohammad Akram Raza | Mumbai

پرامن شہری کی حیثیت سے، فوج کے سالارِ اعلیٰ کی حیثیت سے، لاکھوں مربع میل پر مشتمل عظیم سلطنت کے مقتدرِ اعلیٰ کی حیثیت سے، عدل و انصاف کا پرچم سربلند رکھنے والے منصف کی حیثیت سے، اعجاز نطق سے بہرہ ور رہنما، صاحبِ تدبیر سیاستداں اور معجزانہ صلاحیتیں رکھنے والے دانشور کی حیثیت سے آپ ﷺ نے اپنی سیرت و کردار اور ارشادات و فرمودات کا جو انمول خزانہ چھوڑا ہے ، وہ تا ابد اقوامِ عالم کیلئے حکمت و موعظت اور راہنمایانہ بصیرت افروزی کا باعث بنا رہے گا۔

Reaching the Prophet`s Mosque is not only love for him, but it is also important to include every moment of his life. Photo: INN
مسجد نبویؐ تک پہنچ جانا ہی آپؐ سے محبت نہیں بلکہ سیرت ِ طیبہ کے ہر ایک لمحے کو اپنی زندگی میں شامل کرنا بھی ضروری ہے۔ تصویر : آئی این این

کہتے ہیں  کہ بارانِ رحمت کی سب سے زیادہ ضرورت وہاں  محسوس کی جاتی ہے جہاں  زمین خشک سالی کی بنا پر اناج کی کونپلوں  کی جگہ ببول اگلنے لگے۔  حضور نبی اکرم ﷺ بھی اس ریگزارِ عرب میں  سحابِ رحمت بن کر تشریف لائے تھے کہ جہاں  انسانی تہذیب و تمدن اور اخلاق و کردار کے سوتے خشک ہوچکے تھے اور جہاں  صلح و خیر کے گلہائے تازہ کی جگہ ظلم و تعدی اور کفر و شرک کے جھاڑ جھنکاڑ اُگ رہے تھے۔  جہاں  تپتے ہوئے صحراؤں  اور ظلم و ستم کی بادِ سموم سے جھلستے ریگستانوں  میں  خدا کی عظمت و تقدیس اور انسانی عظمتِ کردار کے منکر انسانوں  کی آنکھوں  سے شرم و حیا کے پانی کی ایک ایک بوند خشک ہوچکی تھی۔  ایسے وقت میں  جب حضور پر نور محمد رسول اللہ ﷺ مجسم رحمت و برکت بن کر آئے تو یکا یک ہی کشتِ ایمان و یقین لہلہا اٹھی۔  شاعر نے اسی احساس کی ترجمانی یوں  کی ہے:
سلام اے آمنہ کے لال،  اے محبوبِ سبحانی
سلام اے فخرِ موجودات،  فخرِ نوعِ انسانی
ترے آنے سے رونق آگئی گلزارِ ہستی میں 
شریکِ حالِ قسمت ہوگیا پھر فضلِ ربانی
حضور سرورِ عالمؐ  کیا آئے،  عالمِ انسانیت کے قلوبِ مردہ کو حیاتِ نو کی نوید ملی۔  آپؐ کیا آئے،  مایوس دل زندگی کی حرارت سے بھرپور ہوگئے اور مردہ نفس جی اٹھے۔  آپؐ  کوہِ فاران کی چوٹیوں  سے ایک ایسا مہرِ عالم تاب بن کر طلوع ہوئے کہ جس کی کرنیں  حیرت انگیز تیزی کے ساتھ بلادِ عالم کو منور کرنے والی تھیں۔  آپؐ  دعائے خلیل علیہ السلام اور نویدِ مسیحا علیہ السلام بن کر پہلوئے آمنہ سے یوں  ہویدا ہوئے کہ کاروانِ انسانیت جو صدیوں  سے اپنی منزلِ ایمان و یقین سے بھٹکا ہوا تھا،  پھر سے اپنی منزلِ مقصود کی جانب رواں  دواں  ہونے کیلئے دلوں  کو ولولۂ تازہ سے سرشار کرنے لگا۔ 
 سرکارِ دو عالم فخرِ بنی آدم حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی تشریف آوری سے قبل عالمِ عرب بے شمار خباثتوں  اور جہالتوں  کا شکار ہوچکا تھا۔  کفر و شرک کے علاوہ انسانی حقوق کی بے دردی سے پامالی اور اخلاقی اقدار کی بے حرمتی کی بدولت عرب معاشرہ شرمناک حد تک قعرِ مذلت میں  غرق ہوچکا تھا۔  اس دور کا انسان اخلاق و شرافت کا نام تک سننے کا روادار نہ تھا۔  شراب ان کی گھٹی میں  پڑی ہوئی تھی۔  جوا،  قمار بازی اور زناکاری قطعاً مذموم فعل تصور نہیں  کئے جاتے تھے بلکہ ان کو جوانی کا اعزاز اور مردانگی کا افتخار سمجھا جاتا تھا۔  کوئی شخص بیٹی کا باپ کہلانا پسند نہیں  کرتا تھا اور اگر کسی کے ہاں  بیٹی جنم لے لیتی تو اسے زندہ زمین میں  گاڑ دیا جاتا تھا۔  وہ لوگ انسانی عظمت ِ کردار کے نہیں  بلکہ ذاتی حسب و نسب کی برتری اور خاندانی تفاخر کے اسیر تھے۔  لڑائی جھگڑا اور قتل و غارت گری ان کی قبائلی زندگی کا لازمی جزو بن چکے تھے۔  معمولی معمولی باتوں  پر تلواریں  نیاموں  سے باہر آجاتیں  اور پیاسے ریگستانوں  کی پیاس بجھنے لگتی۔  عکاظ کا میلہ قبائلی تعصبات اور فخر و مباہات کے نعروں  سے شروع ہوکر برسوں  تک جاری رہنے والی لڑائیوں  کیلئے موزوں  ترین مقام پاچکا تھا۔  بعض معمولی لڑائیوں  سے طویل جنگ کی ایک ایسی بھٹی سلگ اٹھتی کہ ہزاروں  عرب اپنے بھائیوں  کی تلواروں  کا شکار بن کر اس کا ایندھن بن جاتے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ۷۵۰؍ آیات ایمان والوں کو ترغیب و تلقین کرتی ہیں کہ وہ اللہ کی قدرت پر غور کریں

کس نے ذروں  کو اٹھایا اور صحرا کر دیا
 لیکن جب جناب نبی کریمؐ  انسانی حقوق کے محافظ بن کر جلوہ افروزِ عالم ہوئے تو حالات نہایت تیزی سے بدلنے لگے۔  آپؐ  کے فیوض و برکات کی بدولت انسانی حقوق کو پامال کرنے والے،  انسانی اقدار کی محافظت کا فریضہ انجام دینے لگے،  راہزن،  راہبر بن گئے،   بت پرست،  بت شکن بن گئے،  بے حیاؤں  کو شرم و غیرت کا شعور میسر آگیا،  دشمن،  دوست بن گئے،  اخلاق و شرافت کی دھجیاں  بکھیرنے والے،   رفعت ِ کردار کا نمونہ بن گئے۔  ذرا ذرا سی بات پر قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والے،  انسانیت کی عظمت اور تقدیس پر ایمان لے آئے اور اپنی ذات سے بڑھ کر دوسروں  کے حقوق کی پاسداری کرنے لگے:
کس نے قطروں  کو ملایا اور دریا کردیا
کس نے ذرّوں  کو اٹھایا اور صحرا کردیا
کس کی حکمت نے یتیموں  کو کیا دُرِّ یتیم
اور غلاموں  کو زمانے بھر کا مولا کردیا
آدمیت کا غرض ساماں  مہیا کردیا
اک عرب نے آدمی کا بول بالا کردیا
 یہ حیرت انگیز انقلاب کہ چشم ِ فلک جس کا صدیوں  سے انتظارکررہی تھی،  آپؐ   کے بے مثال کردار اور اخلاقی تربیت اور تبلیغ کی بدولت وجود میں  آیا تھا۔  آپؐ  معلمِ مکارمِ اخلاق تھے،  قرآن نے: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ کی روشنی میں  آپؐ کے اخلاق و کردار کو ملت ِ اسلامیہ کے لئے نمونہ قرار دیا ہے۔  آپؐ  کی حیاتِ طیبہ کا ایک لمحہ بھی منشائے ربانی کے خلاف بسر نہیں  ہوا۔  آپؐ  قرآنِ ناطق تھے کہ آپؐ  کا ایک ایک عمل آیاتِ قرآنی کی عملی تفسیر تھا۔  
 حضور صاحبِ لولاکؐ کی سیرتِ مطہرہ انسانی زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہے۔  آپؐ  نے شاہراہِ حیات پر جو تابندہ نقوش ثبت کئے ہیں،  وہ کائنات کے ہر منشور سے زیادہ قابلِ عمل ہیں۔  پرامن شہری کی حیثیت سے،  فتح ِ عظیم کے شادیانے بجانے والی فوج کے سالارِ اعلیٰ کی حیثیت سے،  لاکھوں  مربع میل پر مشتمل عظیم سلطنت کے مقتدرِ اعلیٰ کی حیثیت سے،  عدل و انصاف کا پرچم سربلند رکھنے والے منصف کی حیثیت سے،  اعجاز نطق سے بہرہ وَر راہنما،  صاحبِ تدبیر سیاستداں  اور معجزانہ صلاحیتیں  رکھنے والے دانشور کی حیثیت سے آپؐ  نے اپنی سیرت و کردار اور ارشادات و فرمودات کا جو انمول خزانہ چھوڑا ہے،  وہ تا ابد اقوامِ عالم کیلئے حکمت و موعظت اور راہنمایانہ بصیرت افروزی کا باعث بنا  رہے گا۔  شاعر مشرق علامہ اقبال نے آپؐ کی شان کو کس طرح اللہ کے وعدہ سے جوڑا ہے دیکھئے:
چشمِ اقوام یہ نظارا ابد تک دیکھے
رفعت ِ شانِ رفعنا لک ذکرک دیکھے
مسخر اس طرح دنیا شہ ِ ابرارؐنے کرلی
 عام شہری کی حیثیت سے اخلاقی و تمدنی اور انسانی و روحانی اقدار کا درس دینا جس قدر آسان ہے،  فاتح اور کشور کشا بن کر ان اقدار پر عمل کرنا اتنا ہی دشوار ہوتا ہے۔  جنابِ رسالتمآب ؐ کی والا مرتبت شخصیت اس معیار پر بھی پوری اترتی ہے۔  ایک عام شہری کی حیثیت سے آپؐ عالم ِ انسانیت کے مصلح و راہنما تو تھے ہی لیکن جب عالم ِ عرب کا اقتدار آپ ؐ کے قبضہ و اختیار میں  آچکا تھا تو آپؐ نے اس وقت بھی انسانی اقدار کی سربلندی اور انسانیت کی فوز و فلاح کو لحظہ بھر کیلئے بھی فراموش نہ کیا۔ 
 تاریخ نے بڑے بڑے جرنیلوں  اور کشور کشاؤں  کو دیکھا ہے،  جو عام زندگی میں  انسانی اقدار کے کتنے بڑے مبلغ تھے لیکن جب حالت ِ جنگ کا اعلان ہوا تو انہوں  نے ہر قیمت پر کامیابی حاصل کرنے کیلئے تمام اخلاقی قوانین اور تہذیبی ضوابط اپنے ہی قدموں  تلے پامال کردیئے۔ 
 محسنِ کائنات حضرت محمد مصطفی ؐ کی انسانیت نوازی دیکھنی ہو تو تاریخ کے دھارے کو چودہ صدیاں  قبل موڑ دیجئے اور اس وقت کا تصور کیجئے جب آپؐ  اپنے خدائے جلیل کی عظمت و برتری کے مظہر بن کر تاریخ کے عظیم ترین فاتح کی حیثیت سے اپنے آبائی شہر مکہ میں  قدم رنجہ فرمارہے تھے۔  اس وقت آپ ؐ کے دشمنوں  کی ہر تحریکِ مزاحمت دم توڑ چکی تھی۔  آپؐ کے حکم سے بیت اللہ کے صدہا اصنام توحید کی ہیبت سے زمین پر گر کر ٹکڑوں  کی صورت بکھر چکے تھے۔  یہ وہی شہر تھا جہاں  سے آپ ؐ کو ہجرت کرنے پر مجبورکیا گیا تھا۔  بزمِ ہستی دم بخود تھی اور وقت کی رفتار تھم چلی تھی۔  آپؐ  کے تمام اعداء،  آپؐ کے خون کے پیاسے،  آپؐ کے جسمِ اطہر پر غلاظت پھینکنے والے،  آپؐ کو پتھر مارنے والے،  آپؐ  کی راہوں  میں  کانٹے بچھانے والے،  جنت کے گلزاروں  کی بشارت دینے والے پر عرصۂ حیات تنگ کرنے والے،  پیکر ِ انوارِ خداوندی کو اپنی ناپاک سازشوں  سے نقصان پہنچانے کے عزائم باندھنے والے،  تہذیب و تمدن سے ناآشنا،  اقدارِ انسانی سے بے بہرہ،  جذباتِ محبت و شفقت سے محروم اور وحشت و بربریت کے رسیا،  یہ سب کے سب جنابِ رحمت للعالمین ؐ کے حضور لرزہ براندام کھڑے تھے اور اپنے بدترین ماضی کی خباثتوں  کو یاد کرکے اپنے آپ کو سخت سے سخت سزا کے مستحق بناچکے تھے۔  ان سب کے دل آنے والے لمحوں  کی ہولناکی سے لرزاں  تھے۔  ان کی نگاہیں  شرم و ندامت کے مارے زمین میں  گڑی جارہی تھیں  لیکن اپنے تمام لرزیدہ احساسات کے ساتھ ساتھ وہ اپنے دلوں  میں  آپؐ کی رحمت للعالمینی سے خوشگوار توقعات بھی وابستہ کئے ہوئے تھے۔  اچانک آپؐ کے لب ہائے جاں  نواز سے زندگی بخش صدائے عام ابھرتی ہے:
 ’’جاؤ آج تم سے کوئی باز پرس نہیں۔ ‘‘
 آپ ؐ کے مقدس لبوں  سے زندگی کی نوید کیا ملی،  عالم ِ عرب میں  گلشن ِ انسانیت یکا یک ہی رنگ لے آیا۔  کائنات نے یہ منظر پہلے کب دیکھا ہوگا۔  آپ ؐ کا یہ آوازۂ بخشش قافلۂ انسانیت کو منزلِ مقصود تک لے جانے کا باعث بن گیا۔  آپؐ کے خلقِ عظیم کے تصور سے یہ کہنا غلط تو نہیں  کہ:
کچھ اُن کے خلق نے کرلی،  کچھ ان کے پیار نے کرلی
مسخر اس طرح دنیا شہِ ؐ ابرار نے کرلی
 حضور نبی پاک ؐ تو وَ مَا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْنَ  بن کر کائنات میں  جلوہ گر ہوئے تھے۔  آپؐ  جب دشمن کے مقابلے کیلئے نکلتے تو تمام اخلاقی اقدار اور انسانی ضوابط کی سربلندی کا اہتمام فرماتے۔  جب کسی علاقہ کو فتح کرنے کیلئے کوئی فوج روانہ کرتے تو اس کے امیر عسکر اور جملہ مجاہدین ِ اسلام کو دشمنوں  کے بچوں،  عورتوں،  بوڑھوں  اور لاچاروں  پر ترس کھانے کی تلقین فرماتے۔  جہاں  خلق اور محبت سے کام نکلتا ہو وہاں  بلاوجہ خون بہانے سے گریز کرنے کا مشور دیتے تھے۔ 
 احادیث ِ مصطفیٰؐ  کے مختلف مجموعوں  میں  درج احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اس سے آپؐ  کا مقصد دشمن کے مقابلہ میں  نرمی یا کمزوری کا مظاہرہ نہیں  تھا بلکہ آپؐ  کی شانِ رحمت قدم قدم پر بقائے انسانیت کا پرچم لہراتی محسوس ہوتی تھی۔ 
 حضور سید عالم تو رحمت للعالمین تھے،  شفیع المذنبین تھے۔  گناہگاروں  کی ڈھارس،  ستمِ رسیدگانِ ہستی کے آلام کا مداوا اور دنیا بھر کے مصائب کے ستائے ہوئے انسانوں  کے زخموں  کا مرہم تھے۔  محکوم اقوام کیلئے صبحِ آزادی کی نوید اور مجبور و بے بس مخلوقِ خدا کیلئے مجسم پیغامِ زندگی تھے۔  آپؐ   کا روشن کردار وقت کے فرعونوں  کیلئے  ضربِ کلیمی اور آپ کا اسوہ زمانے بھر کے حق پرستوں  کی بے پناہ قوتِ ایمانی کا باعث تھا۔  آپؐ  نے دشمنانِ اسلام کے تمام تر مظالم برداشت کئے مگر اپنی شانِ رحمت للعالمینی کے تقاضوں  کو ایک لحظہ کیلئے بھی فراموش نہ کیا۔  زندگی کے کسی موڑ پر آپؐ نے اپنے بدترین دشمن کیلئے بھی بددعا نہیں  کی۔  یہ الگ بات ہے کہ اعدائے اسلام کی طرف سے آپؐ کے ساتھ روا رکھی جانے والی بدسلوکیاں رب العالمین کو پسند نہ آئیں  اور آپؐ  کے تمام مخالفین اپنے ناپاک عزائم کو سینوں  میں  لئے خدا کے قہرو غضب کا نشانہ بن گئے۔  

یہ بھی پڑھئے:وہی انسان، انسان ہے جو صراط مستقیم پر ہو

عظمت و تقدیسِ نسواں کے محافظ: عورت کو مرد کے برابر حقوق دینے کا نعرہ بلند کرنے والے موجودہ دور کے لوگ اِس عہد کو عورت کی عظمت کا زمانہ قرار دیتے ہیں لیکن ذرا تاریخ کے ایوانوں میں جھانک کر دیکھیں تو صاف ظاہر ہوگا کہ یہ صرف نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے عورت کو نہ صرف اس کے غصب شدہ حقوق واپس دلائے بلکہ اسے مرد کے سامنے عفت و عصمت اور تقدیس و حیا کی صورت میں پیش کیا۔ آپ ﷺ سے قبل عرب معاشرے میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں عورت اس کرۂ ارضی کی سب سے مظلوم ہستی تھی اور اسے پاؤں کی جوتی سے بھی حقیر سمجھا جاتا تھا۔ 
 حضور سرورِ عالم ﷺ پوری کائنات کے لئے رحمت و شفقت کا پیغام لے کر آئے، اس لئے آپؐ نے عورت کو مرد کے برابر حقوق عطا کرتے ہوئے مردوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے اہل و عیال کا مکمل خیال رکھیں کہ یہی اچھی زندگی کی نوید ہے۔ اس حوالے سے نبی اکرمؐ کا یہ ارشادِ مبارک اسلامی طرزِ حیات کو ایک قابلِ فخر اعزاز بخش رہا ہے:
 ’’عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طور پر اپنے ماتحت کیا ہے اور اللہ کے کلمہ (نکاح) سے انہیں اپنے لئے حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ کسی آدمی کو تمہارا بستر نہ روندنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم اُن کو ایسی سزا دو جس سے چوٹ نہ لگے اور ان کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ تم انہیں دستور (شرعی) کے موافق خوراک اور لباس فراہم کرو۔ ‘‘(مسلم، الصحيح، کتاب الحج)
 آپ ﷺ نے مردوں کو عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین کرتے ہوئے انہیں عورت کی عفت و عصمت کا پاسباں قرار دیا تو یکا یک عرب معاشرے میں ہی نہیں بلکہ پورے عالمِ انسانیت میں حیرت انگیز حد تک خوشگوار انقلاب برپا ہوگیا۔ آپ ﷺ کے ارشاد کے مطابق عورت اگر ماں بنی تو اولاد پر واضح کردیا گیا کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ اگر عورت بیوی بنی تو خاوند کو بیوی کے حقوق کا بھرپور احساس دلاتے ہوئے ان کی ادائیگی کی سخت تلقین کی۔ اگر عورت بیٹی کے روپ میں سامنے آئی تو باپ کے لئے بیٹی کی روحانی و اخلاقی تعلیم لازمی قرار دے دی گئی۔ جہاں آپ ﷺ نے عورت کو پستی و ذلت کی گہرائیوں سے نکال کر اس کو روحانی و اخلاقی اور تہذیبی و معاشرتی حقوق عطا کیے، وہاں اسے اس کے خاندانی اور معاشرتی فرائض کا احساس بھی دلایا۔ 
ترے در کے سوا آسودگی ٔ دل کہاں ملتی :  حضور فخرِ موجودات ﷺ خطۂ عرب میں ہی انسانی اقدار کو سربلندی عطا کرنے کے لئے تشریف نہیں لائے تھے، بلکہ آپ ﷺ تو پوری کائناتِ انسانی کے چارہ ساز اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے انسانی کائنات کو زندگی کی تابانیوں سے ہمکنار کرنے کے لئے تشریف لائے تھے۔ آپ ﷺ خاتم النبیین تھے۔ آپؐ کا پیغام خدا کا آخری اور جامع ترین دین تھا۔ آپؐ جملہ تہذیبی و تمدنی خصائص اور علمی و عملی اوصاف کا مجموعہ تھے اور پوری انسانی کائنات کو انسانیت نوازی کی بشارت دینے کے لئے بزمِ عالم میں جلوہ گر ہوئے تھے۔ خطۂ عرب تو آپ ﷺ کا مقامِ اولین تھا۔ ایک دن اسی خطے سے دنیا کو انسانیت کی سرفرازی کے آداب سیکھنا تھا۔ آپ ﷺ کا کردار انسانی اوصاف کا مکمل ترین نمونہ تھا۔ آپ ﷺ نے خطۂ عرب میں انسانی سیرت و کردار کی رفعت طرازیوں کا جو تاریخ ساز نمونہ پیش کیا، جلد ہی اس کی بدولت آپ ﷺ کے پیغامِ انسانیت کی مہک چاروں طرف پھیلنے لگی۔ 
 آپؐ کو یہ عظیم الشان کامیابیاں راتوں رات نصیب نہیں ہوگئی تھیں۔ آپؐ نے رہِ حق و صداقت میں انسانیت کی بقا کیلئے ہر قسم کے آلام و مصائب کو سینے سے لگایا۔ آپؐ کو یہاں تک مجبور کردیا گیا کہ مکہ کی گلیوں میں پل کر جوان ہونے والی ہستی وطن ِ عزیز سے ہی نکل جائے اور جب مدینہ والوں نے آپؐ پر اپنا دامانِ محبت کشادہ کرکے آپؐ کو جانِ عقیدت سمجھ کر ہدیۂ جان و دل آپؐ کے قدموں پر نثار کردیا تو آپؐ کو وہاں بھی چین سے نہ رہنے دیا گیا اوریکے بعد دیگرے کئی جنگیں آپؐ پر مسلط کی گئیں۔ مگر نتیجہ یہی نکلا:
 ’’ جب کہ اللہ اپنے نور کو پورا فرمانے والا ہے اگرچہ کافر کتنا ہی ناپسند کریں۔ ‘‘ (الصف:۸)
 آپ ﷺ کا پیغام ستم رسیدگانِ ہستی کے آلام کا مداوا بن کر دلوں میں یوں گھر کرگیا کہ ظالم و سرکش لوگ خدا سے ڈرنے لگے اور مظلوم و بے کس انسان باوقار زندگی کے آداب سے آشنا ہوگئے۔ نبی ٔ امی کی یہ چارہ سازی آدمیت کے آداب کی سرفرازی اور اخلاقی ضوابط کی دائمی برتری کا باعث بن گئی۔ 
 حضور نبی اکرم ﷺ کی جلیل القدر شخصیت ہر دور اور ہر زمانہ میں مشعلِ راہ ہے۔ ہر عہد اورہر صدی نے آپ ﷺ سے فیض اٹھایا ہے۔ اگر دلوں سے تعصبات کی آلائش دور کردی جائے تو ہر دل نبی کریم ﷺ کی مسلمہ عظمت کا معترف اور ہر زبان آپ کی ثنا خوانی پر مجبور نظر آئے گی۔ 

یہ بھی پڑھئے:حُسن ِ نیت اور اسکے تقاضے

عالم ِ انسانیت کے لئے آپ ﷺ کے احسانات 
مساواتِ انسانی کے علمبردار: حضور یوم النشور ﷺ کا خطبہ حجۃ الوداع انسانی حقوق و فرائض کے تعین کی سب سے اہم دستاویز ہے۔ آپ ﷺ نے عالمِ اسلام کو مساوات و اخوت اور محبت و شفقت کا پیغام دیتے ہوئے فرمایا :
 ’’بے شک تمہارا رب ایک ہے، عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت ہے، نہ کالی رنگت والے کو سرخ رنگت والے پر فضیلت ہے اور نہ سرخ رنگت والے کو کالی رنگت والے پر کوئی فضیلت ہے۔ بجز تقویٰ کے۔ ‘‘(المعجم الاوسط)
 آپ ﷺ نے اصلاحی معاشرے کے خطوط وضع فرماتے ہوئے صرف اور صرف تقویٰ اور پرہیزگاری کو ہی معیارِ فضیلت قرار دیا۔ یہ حقیقت ہے جب انسان کے فکرو عمل میں تقویٰ کی سر بلندیاں سماجائیں تو پھر وہ اپنی عملی زندگی میں ہر گام پر ہر آن تعلیماتِ قرآنی اور ارشادات نبوی ﷺ کو پیشِ نظر رکھتا ہے اور اس طور اس کی زندگی عظمت ِ کردار کا نمونہ اور پاکیزگی ٔ اطوار کا مظہر بن جاتی ہے۔ مساوات کا درس اتنا ہمہ گیر تھا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو غلاموں کے ساتھ بہترین سلوک کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:
 ’’ تمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت کیا ہے، سو جو تم خود کھاتے ہو اُنہیں بھی وہی کھلاؤ اور جو خود پہنتے ہو اُنہیں بھی وہی پہناؤ۔ اُنہیں اُن کی طاقت سے بڑھ کر کسی کام کا مکلف نہ ٹھہراؤ اور اگر ایسا کوئی کام اُن کے ذمہ لگاؤ تو اُس کام میں خود بھی اُن کی مدد کرو۔ ‘‘ (بخاری، الصحيح، کتاب الايمان)
 آپ ﷺ نے اپنے ارشادات کی عملی تفسیر پیش کرتے ہوئے اپنے جانثار اور وفادار غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو نہ صرف غلامی سے آزاد کردیا بلکہ اپنا منہ بولا بیٹا بھی بنالیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے غلام آزاد کردیئے اور چشمِ عالم نے پہلی بار غلاموں کو اپنے سابقہ آقاؤں کے شانہ بشانہ زندگی کی جدوجہد میں مصروف دیکھا۔ سیاہ فام حضرت بلال رضی اللہ عنہ جب حلقہ بگوش اسلام ہوئے تو یکایک جلیل القدر اصحابِ رسول ؐ کی صف میں شامل ہوگئے اور انہیں آقائے دو عالم ؐ کی نگاہ فیض رساں نے یوں فیضیاب فرمایا کہ ان کی زندگی عشاق رسول ﷺ کے لئے قابلِ رشک بن گئی۔ 
 آج دنیا مساوات کے نعرے لگا رہی ہے۔ پسماندہ اور کچلے ہوئے انسان رنگ و نسل اور ذات پات کی زنجیروں کو توڑ کر ابھرنا چاہتے ہیں۔ وہ انسانی حقوق کی بالادستی کے نام پر اپنی پسماندگی اور سماجی زبوں حالی کا مداوا چاہتے ہیں لیکن باوجود اپنی انتہائی کوشش کے وہ اس سماجی اونچ نیچ، طبقاتی حد بندی اور معاشرتی عدمِ مساوات کی دیواروں میں شگاف پیدا نہیں کرسکے۔ مساوات کے نام پر عدم مساوات کو فروغ دینے والے لوگ نچلے طبقے کے انسان کو اپنے برابر بمھانے کی فراخدلی اپنے اندر پیدا نہیں کرسکے۔ لیکن اسلام کی آغوش میں جو بھی آتا ہے، وہ رنگ و نسل کے امتیازات اور ذات برادری کی تفریق کو بھول کر ایک ملتِ مسلمہ میں گم ہوجاتا ہے۔ 
معاشی عدل و انصاف:جناب محمد مصطفی ﷺ جس خطۂ عرب میں مبعوث کئے گئے تھے وہاں زندگی بے بندگی بلکہ شرمندگی کا نمونہ تھی۔ اس معاشرے میں شرافت، کمزوری اور نیکی، مجبوری سمجھی جاتی تھی۔ طاقتور کو لامتناہی حقوق حاصل تھے جبکہ غربت اور مفلسی کو ناقابلِ معافی جرم تصور کیا جاتا تھا۔ کمزوروں اور بے نواؤں کے حقوق غصب کرنے کو باعث ِ افتخار سمجھا جاتا تھا۔ غرباء یا تو غلام بنالئے جاتے یا ان کو ’’ سود در سود‘‘ کی چکی میں یوں پیس دیا جاتا تھا کہ ان کی زندگی موت سے بدتر ہوجاتی تھی۔ اس معاشرے میں خیرات یا صدقہ اور رحمدلی کا احساس تک بھی نہیں تھا۔ لیکن حضور نبی اکرم ﷺ نے انسانی کردار کو وہ رفعت بخشی کہ دوسروں کا حق چھیننے والے اقوامِ عالم کے حقوق کے نگہدار اور بے نواؤں کے ترجمان بن گئے۔ آپ ﷺ کی بخشی ہوئی تعلیماتِ ایمانی کی بدولت صاحبِ ثروت مسلمانوں کو یہ احساس سونے نہیں دیتا تھا کہ کہیں ان کا پڑوسی بھوکا نہ سوگیا ہو۔ یہ آپ ﷺ کا ہی فیضانِ نبوت تھا کہ مفلس و گداگر ہاتھ پھیلاتے ہوئے اور منعم وتونگر حاجت مند کی غیرتِ نفس کے احساس کے تحت اعلانیہ بھیک دیتے ہوئے جھجکتے تھے۔ 
 اسلام نے معاشی عدل و انصاف کے دائمی اصول وضع فرمائے۔ یورپ کے نام نہاد دانشور آج اپنے آپ کو مزدوروں کے حقوق کا علمبردار کہتے نہیں تھکتے لیکن چودہ صدیاں قبل انسانی اصولوں سے بے بہرہ تاریک معاشرہ مزدوروں اور غلاموں سے صرف بیگار لینے کا قائل تھا اور تنخواہ اور معاوضہ کا تصور بھی نہیں تھا۔ اس وقت شارحِ اسلامؐ نے یہ فرماکر مزدور کا رتبہ سربلند فرمادیا کہ: 
 ’’مزدور کو مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔ ‘‘ (ابن ماجہ، السنن، ج۲)
 روزِ ازل سے لے کر آج تک کسی بھی قائد ِ انسانیت کے بارے میں دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ محفوظ ہے۔ فقط رسول مقبول ﷺ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپؐ کی حیاتِ پاکیزہ کی ایک ایک ساعت تاریخ کے ایوانِ ابد میں جگمگارہی ہے۔ قرآن حکیم آپؐ کی سیرت کی عظمتوں کا مظہر ہے، احادیث نبویؐ اور تاریخ و سیرت کی کتب آپ کی رفعتوں کی آئینہ دارہیں اور احادیث نبوی اور تاریخ و سیرت کی بے شمار کتابوں میں آپؐ کی اک اک ادا محفوظ ہے۔ آپ ﷺ کے معمولات و مشاغل، اقوال و افعال، مجلس آرائی وخلوت گزینی، زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت، شعائر اسلامی کی ترویج اور ادائیگی، غرض یہ کہ جزوی امور حیات سے لے کر کلی رموزِ کائنات تک آپ کی عملی زندگی کا ایک ایک پہلو اور فکری و نظری لمحہ افشانیوں کی ایک ایک کرن تاریخی دستاویز بن کر مادیت کی تاریکیوں کو حیات آفریں اجالے بخش رہی ہے۔ آپؐ کے اوصافِ حسنہ اور کمالاتِ مقدسہ پر لاتعداد کتب تصنیف ہو جانے کے باوجود ذہن و فکر کو اپنی کم مائیگی اور عجز بیانی کا احساس ہورہا ہے کہ :سفینہ چاہئے اس بحرِ بے کراں کے لئے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK