Inquilab Logo Happiest Places to Work

معاشرہ کی اصلاح سے پہلے فرد کی اصلاح ضروری ہے

Updated: February 23, 2024, 12:02 PM IST | Abdul Hameed Siddiqui | Mumbai

افراد جن اعمال و اخلاق اور جس سیرت و کردار کے حامل ہوں گے معاشرہ میں بھی وہی روح جاری و ساری ہوگی اس لئے کہ معاشرہ افراد کے مجموعہ ہی کا نام ہے۔

The most prominent quality of a good society is mutual respect, mutual respect and concern for each other. Photo: INN
ایک اچھے معاشرہ کی سب سے نمایاں خوبی افراد کا باہمی ربط ضبط ، باہمی اُنس و محبت اور ایک دوسرے کی خیرخواہی اور فکر ہوتی ہے۔ تصویر : آئی این این

فرد اور معاشرہ کے مابین تعلق کی نوعیت خاصی پیچیدہ ہے۔ اور کسی ایسی حدّ فاصل کا تعین آسان نہیں جو فرد اور معاشرہ کے حدودِ عمل کو واضح کرسکے۔ اس لئے کہ جو چیز فرد پر اثرانداز ہوتی ہے وہی معاشرہ پر بھی اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔ اور پھر معاشرہ ہے کیا؟ افراد کے مجموعہ ہی کا تو نام ہے۔ افراد جن اعمال و اخلاق اور جس سیرت و کردار کے حامل ہوں گے معاشرہ میں بھی وہی روح جاری و ساری ہوگی۔ اس تعلق کو ہم ایک مثال کے ذریعہ واضح کرتے ہیں۔ دیوار، اینٹیں چُن کر تعمیر کی جاتی ہے۔ اینٹیں اگر کچی ہوں گی تو دیوار ناپختہ ہو گی اور اگر اینٹیں پختہ ہوں اور انہیں ایک دوسرے سے پیوست کرنے والا مواد یعنی ریت اور سیمنٹ کی مناسب مقدار سے مرکب ہو تو دیوار بھی یقیناً پختہ ہوگی۔ 
پس ایک بنیان مرصوص کی تعمیر کا خواب اُس وقت تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک خوب مستحکم اور مضبوط اینٹیں موجود نہ ہوں۔ کسی معاشرہ کی تعمیر میں افراد اینٹوں کا کام دیتے ہیں۔ معاشرہ کی اصلاح سے پہلے فرد کی اصلاح کا سامان کیا جائے۔ اگر کوئی فرد انفرادی طور پر سکونِ قلب، نعمت ِ ایمان اور محبت و استقامت کے اوصاف سے متصف ہو بھی جائے تو سعادت کے مرتبۂ کمال سے محروم ہی رہتا ہے۔ یہ مقامِ بلند ایک فرد کو حقیقتاً اُسی وقت نصیب ہوتا ہے جب پورا اجتماعی ماحول نہ صرف ان صفات کے لئے سازگار ہو بلکہ انہیں پروان چڑھانے میں ممد و معاون ہو۔ 
  ایک اچھے معاشرہ کی سب سے نمایاں خوبی افراد کا باہمی ربط و ضبط ہے۔ اسی کے ذریعے افراد کے مابین محبت و یگانگت کے رشتے استوار ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کے دمساز بن کر رہتے ہیں۔ نہ کوئی کسی پر زیادتی کرتا ہے اور نہ سنگدلانہ برتاؤ۔ بہترین اور سعادتمند معاشرہ میں دولت سے بہرہ ور لوگ، محروم طبقہ کو فراموش نہیں کرتے، اثر و رسوخ اور قدرت و طاقت کے مالک کمزوروں کو نظرانداز نہیں کرتے بلکہ ان کی معاونت اور دستگیری کرتے ہیں۔ 
  بدترین چیز جو کسی معاشرہ کو لاحق ہوتی ہے وہ انتشار و تشتت (پریشانی، بے اطمینانی، اضطراب) اور باہمی روابط کا فقدان ہے۔ اور یہ صورت اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب افراد خودغرضی میں مبتلا ہوجائیں۔ وہ اپنی ذات اور اپنے مفادات کو تو یاد رکھیں مگر اپنے بھائی کا مطلق خیال نہ کریں بلکہ اُسے اپنی اغراض کی بھینٹ چڑھانے سے بھی دریغ نہ کریں۔ اسی طرح وہ وقت بھی کسی معاشرہ کے لئے بہت برا ہوتا ہے جب افراد اپنے حقوق کے لئے لڑیں مگر اپنے فرائض سے غافل ہوں نیز اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھیں اور دوسری مخلوقِ خداکو بہ نظر حقارت دیکھیں۔ اس کے برعکس دوسری چیز جو اپنی قباحت میں متذکرۃ الصدر سے کسی طرح بھی کم نہیں، یہ ہے کہ انسان اپنی ذات کے احساس سے ہی محروم ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے جو اسے شرف عطا کیا ہو، جو قوت و طاقت اُسے تفویض کی ہو اور جن انعامات سے اسے نوازا ہو وہ ان کا شعور و ادراک ہی نہ رکھتا ہو یا ان صلاحیتوں کو مہمل اور معطل کرکے بیٹھ جائے تو یہ چیز بھی انسان کی شخصیت کو نقصان پہنچاتی ہے اور انسان مستقل طور پر کمزوری و دوں ہمتی کا شکار ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اِس بات کی ہے کہ افراد معاشرہ کے مذکورہ بالا دونوں انتہاپسند نظریات کے درمیان ایک ایسی حد وسط تلاش کی جائے تاکہ افراد اپنی ذات کا احساس بھی رکھیں اور اس کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کے حقوق و واجبات بھی تلف نہ ہوں، یعنی معاشرہ بھی مستحکم بنیادوں پر قائم رہے اور فرد کی شخصیت کی نشوونما بھی صحیح انداز سے ہوسکے۔ 

یہ بھی پڑھئے: اخلاقی انحطاط: وجوہات اور نتائج

 ایسی حدّ وسط کا تعین کچھ اصول و ضوابط کا مقتضی ہے جن کے بغیر تعلقات و معاملات میں استحکام پیدا نہیں ہوسکتا، جن کے بغیر انسانی جبلت عقل کے خلاف اور قوت و طاقت حق و صداقت کے خلاف اقدام کرنے سے باز نہیں رہ سکتی اور جن کے بغیر ذاتی منفعت کا جنون اجتماعی مصالح کے پیش نظر اپنی حدود سے تجاوز کرسکتا ہے۔ ایسے اصول و ضوابط یکسر اخلاقی بنیادیں رکھتے ہیں۔ ان کا مصدر و ماخذ انسان کا قلب و ضمیر ہوتا ہے۔ 
 جہاں تک دین و مذہب کے بیان کردہ محاسن ِ اخلاق کا تعلق ہے، وہ ترقی یافتہ فرد کی بنیاد اور مہذب معاشرے کی جان ہوتے ہیں۔ ان کے بغیر زندگی، زندگی نہیں رہتی۔ قرآن کریم میں نبی آخرالزماں ﷺ کی زیادہ سے زیادہ جو تعریف کی گئی ہے اس کی بنیاد یہی اخلاق ہے: ’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں۔ ‘‘ (القلم:۴) اور خود نبیؐ کریم نے اپنے پیغامِ ہدایت کو چند الفاظ میں یوں سمویا ہے:
’’میرا مقصد ِ بعثت یہ ہے کہ مکارم اخلاق کی تکمیل کروں۔ ‘‘
 ایک اور حدیث نبویؐ میں ہے:
 ’’اہل ایمان میں سب سے زیادہ مکمل ایمان اُس کا ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔ ‘‘
  ان آیات و احادیث سے دین میں اخلاق کی اہمیت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے۔ 
  دین، اخلاق کی طرف محض دعوت دینے پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ وہ اخلاق کی بنیاد پر اصول و ضوابط وضع کرتا ہے، حدودِ اخلاق کی نشاندہی کرتا ہے، زندگی کی جزئیات تک کیلئے اخلاقی نمونوں کے انبار لگا دیتا ہے اور ان پر مستقل مزاجی کے ساتھ قائم رہنے کی زوردار تلقین کرتا ہے۔ اسے اصولِ اخلاق سے انحراف قطعاً گوارا نہیں ہوتا۔ وہ واضح طور پر بتاتا ہے کہ انحراف کروگے تو دنیا و آخرت میں یہ سزا ملے گی اور اصولِ اخلاق کی پاسداری پر دونوں جہانوں میں یہ جزا ملے گی۔ اس سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ دین کے بغیر تکمیل اخلاق ممکن نہیں اور اخلاق کے بغیر کسی قانون کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ 
 معاشرتی و اجتماعی زندگی کے لئے جن اصولِ اخلاق کی ضرورت ہوتی ہے وہ نہ تو انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین میں ملتے ہیں اور نہ فلاسفہ کی پُرپیچ بحثیں ان تک رہنمائی کرتی ہیں۔ ان کا سراغ اگر کہیں ملتا ہے تو دامنِ ایمان میں ملتا ہے۔ ایمان اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ حیات ِ دنیا کا مقصود خواہشات ِ نفس کی تکمیل نہیں، نہ شکم پروری اور لذت ِ کام و دہن کا اصول انسانی زندگی کی غایت ہے۔ کسی قسم کے تعصب کو بھی وہ انسان کا نصب العین نہیں بننے دیتا اور مکر و فریب اور فتنہ و فساد کی آلائشوں سے بھی انسانی زندگی کو پاک دیکھنا چاہتا ہے۔ ایمان جو مقصد ِ حیات سامنے رکھتا ہے وہ نہایت ارفع و اعلیٰ مقصد ہے یعنی اللہ سے قریب ہونا، اُس کے ضابطوں کی پابندی کرنا اور اس کی خوشنودی کے لئے تگ و دو کرنا۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں :
 ’’لوگوں کے لئے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں ) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشان کئے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں )، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اﷲ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے، (اے حبیب!) آپ فرما دیں : کیا میں تمہیں ان سب سے بہترین چیز کی خبر دوں ؟ (ہاں ) پرہیزگاروں کیلئے ان کے رب کے پاس (ایسی) جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے (ان کیلئے) پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور (سب سے بڑی بات یہ کہ) اﷲ کی طرف سے خوشنودی نصیب ہوگی، اور اﷲ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے، (یہ وہ لوگ ہیں ) جو کہتے ہیں : اے ہمارے رب! ہم یقینا ایمان لے آئے ہیں سو ہمارے گناہ معاف فرما دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے، (یہ لوگ) صبر کرنے والے ہیں اور قول و عمل میں سچائی والے ہیں اور ادب و اطاعت میں جھکنے والے ہیں اور اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں اور رات کے پچھلے پہر (اٹھ کر) اﷲ سے معافی مانگنے والے ہیں۔ ‘‘ (آل عمران: ۱۴؍تا ۱۷)
  مذکورہ آیات میں جن اوصاف کی نشاندہی کی گئی ہے وہ دراصل ثمرات ہیں اُس اخلاق کے جو ایمان کے زیراثر نشوونما پاتا ہے اور جس سے مسلم معاشرہ کا ہر فرد متصف ہوتا ہے۔ پس محاسنِ اخلاق سے ہر فرد کا مزین ہونا گویا بہترین معاشرہ کی بنیادوں کا مضبوط و مستحکم ہونا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK