Inquilab Logo

جی ایس ٹی میں ریاستوں کے ساتھ انصاف ضروری

Updated: October 19, 2020, 2:43 PM IST | Bharat Jhunjhunwala

جی ایس ٹی نے ، سیلس ٹیکس سے متعلق ریاستوں کی خود محتاری چھین لی چنانچہ اُنہیں دشواریوں کا سامنا ہے۔ مرکز نے اس کی بھرپائی کا وعدہ کیا ہے مگر سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے!

Shopping - Pic : INN
شاپنگ ۔ تصویر : آئی این این

ایک ریاست سے دوسری ریاست میں مال کا نقل و حمل تکلیف دہ تھا جس کے پیش نظر مرکزی حکومت نے جی ایس ٹی کا نظام قائم کیا جس کے تحت ہر قسم کا مال ایک ہی زمرے میں شامل کیا گیا اور پورے ملک میں ٹیکس کی ایک ہی شرح نافذ کی گئی۔ اس کا نتیجہ ہے کہ آج ممبئی میں بیٹھے ہوئے ایک تاجر کو کٹک اور دہلی بھیجے جانے والے مال کا الگ الگ شرح سے ٹیکس جوڑنا نہیں پڑتا۔
  لیکن ریاستیں چاہتی ہیں کہ حسب ضرورت سیلس ٹیکس عائد کرنے کا اُن کا اختیار باقی رہے۔ ریاستوں کی جانب سے ہونے والی اس مزاحمت سے نمٹنے کیلئے مرکزی حکومت نے اُنہیں یقین دلایا تھا کہ جی ایس ٹی میں جو کمی بیشی ہوگی اس کی بھرپائی آئندہ پانچ سال تک مرکز کرے گا۔ بھرپائی کی رقم جی ایس ٹی میں ہر سال ۱۴؍ فیصد کے اضافے کے ساتھ جوڑنا بھی طے پایا تھا۔ اب دقت یہ ہے کہ جی ایس ٹی نافذ کئے جانے کے بعد سے اب چار سال ہونے کو آئے ہیں، معیشت سست رفتاری کا شکار ہے۔ یہ صورت حال تشویش کا باعث تھی، اس پر کووڈ کی وباء نے مزید ستم ڈھایا جس کے نتیجے میں مرکزی حکومت اس قابل نہیں ہے کہ حسب وعدہ ریاستوں کے نقصان کی بھرپائی کرے۔
 واضح رہنا چاہئے کہ اس مد میں مرکزی حکومت پر ریاستوں کی واجب الادا رقم ۲ء۳۵؍ لاکھ کروڑ روپے ہے۔ یہ خطیر رقم ہے جن کی ادائیگی مرکز کے لئے، کم از کم موجودہ حالات میں تو ممکن نہیں ہے۔  اسی دشواری کے پیش نظر مرکزی حکومت نے ایک اسکیم بنائی کہ وہ ۱ء۱؍ لاکھ کروڑ روپے قرض لے گی اور حاصل شدہ رقم کو ریاستوں میں تقسیم کرے گی تاکہ وہ بھرپائی میں تاخیر کے سبب قلت زر کا مقابلہ کرسکیں۔ ا س کیلئے مرکز نے یہ شرط رکھی کہ قرض کی اس رقم کا سود ریاستیں برداشت کریں۔ 
 جی ایس ٹی نے ریاستوں سے ٹیکس سے متعلق اُن کی خود مختاری چھین لی جبکہ اس نئے ٹیکس نظام کے نفاذ سے پہلے ریاستوں کو سیلس ٹیکس کی شرح میں ترمیم کا اختیار تھا۔ مثال کے طور پر ہماچل پردیش کمرہ کے ہیٹر اور تمل ناڈو ایئر کنڈیشنر پر اضافی ٹیکس وصول کرتے تھے کیونکہ ان دو ریاستوں میں علی الترتیب انہی پروڈکٹس کی زیادہ مانگ ہے۔ جی ایس ٹی نافذ ہونے کے بعد سے ان کے ہاتھ بندھ گئے۔ اگر یہ ریاستیں اپنی آمدنی بڑھانے کیلئے، خواہ وہ ہائی وے یا میٹرو کی تعمیر کے خاص مقصد کے تحت ہو، زیادہ ٹیکس وصول کرنا چاہیں تو ایسا نہیں کرسکتیں کیونکہ جی ایس ٹی کی شرحیں طے شدہ ہیں۔ ابھی چونکہ مرکز نے ان کے نقصان کی تلافی کا وعدہ کیا ہے اس لئے غنیمت ہے مگر پانچ سال بعد جب تلافی کی میعاد مکمل ہوجائے گی تب کیا صورتحال ہوگی، یہ کہنا مشکل ہے۔ ظاہر ہے کہ کچھ ریاستوں کو آمدنی میں ۴۰؍ فیصد تخفیف کا سامنا ہوگا۔ اُن کے پاس سرکاری ملازمین مثلاً پولیس اور محکمۂ محصولات کے کارکنان کی ماہانہ تنخواہ ادا کرنے کیلئے بھی پیسے نہیں ہوں گے۔ ایسی صورت میں ممکن ہے کہ ریاستوں کا نظم و نسق ہی بگڑ جائے۔ 
 اس پس منظر میں راقم السطور کی رائے یہ ہے کہ ریاستوں کو جی ایس ٹی کی شرح طے کرنے کا اختیار دیا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ صرف ہمارے ملک میں نہیں ہوگا۔ کناڈا میں جی ایس ٹی کی تین قسمیں ہیں۔ وہاں البرٹا میں صرف ۵؍ فیصد ’’فیڈرل‘‘ جی ایس ٹی وصول کیا جاتا ہے۔ برٹش کولمبیا میں ۵؍ فیصد جی ایس ٹی اور ۷؍ فیصد ’’پروونشیل سیلس ٹیکس‘‘ (پی ایس ٹی) وصول کیا جاتا ہے۔ ان دو ٹیکسوں کو ملانے کے بعد ۱۳؍فیصد ’’ہارمونائزڈ‘‘ سیلس ٹیکس (ایچ ایس ٹی) اونٹاریو میں وصول کیا جاتا ہے جس کے ۵؍ فیصد پر وفاقی (مرکزی) حکومت کا حق ہوتا ہے۔ اس طرح جی ایس ٹی کی الگ الگ شرحوں کے باوجود ایک ریاست سے دوسری ریاست میں مال کی نقل و حمل رواں دواں رہتی ہے اور اس میں کوئی دقت نہیں آتی۔ مال کی نقل و حمل کے دوران ریاستی سرحدوں پر کوئی معائنہ یا جانچ نہیں ہوتی۔مال فروخت کرنے والا تاجر خریدار کی ریاست میں جی ایس ٹی وصول کرتا ہے۔ اسے ایک مثال کے ذریعہ سمجھئے:
  البرٹا میں تاجر الف اگر اپنی ہی ریاست میں مال فروحت کرتا ہے تو وہ ۵؍ فیصد فیڈرل جی ایس ٹی وصول کرے گا۔ یہی تاجر الف جو کہ البرٹا میں ہے، جب برٹش کولمبیا کے کسی گاہک، فرض کرلیجئے ب، کو مال فروخت کرے گا تو ۵؍ فیصد فیڈرل جی ایس ٹی اور ۷؍ فیصد پی ایس ٹی وصول کرے گا یعنی ۱۲؍ فیصد ٹیکس۔ اب اگر یہی گاہک ب، جو برٹش کولمبیا میں ہے، اسی مال کو اونٹاریو میں گاہک ج کو فروخت کرتا ہے تو ۱۲؍ فیصد جی ایس ٹی کی واپسی کا طلبگار ہوگا یعنی سیٹ آف کلیم کرے گا اور اونٹاریو کے گاہک ج سے ۱۳؍ فیصد ایچ ایس ٹی وصول کرے گا۔ جی ایس ٹی، پی ایس ٹی اور ایچ ایس ٹی نامی ٹیکسوں کی یہ تمام رقومات فیڈرل گورنمنٹ وصول کرتی ہے اور پھر ریاستوں کو اُن کے ذریعہ بھیجے گئے بلوں کے لحاظ سے تقسیم کرتی ہے، بہ الفاظ دیگر ریاستیں اپنے حصے کی جی ایس ٹی کا دعویٰ کرتی ہیں اور اُنہیں اس دعوے کے مطابق اپنا حصہ مل جاتا ہے۔
  ٹیکس کا یہ نظام پیچیدہ معلوم ہوتا ہے مگر پیچیدہ نہیں ہے۔ یہ بہت سہل اور قابل عمل ہے۔ اس سے ریاستوں کا اختیار بھی متاثر نہیں ہوتا اور اُن کے نیز ریاستوں کے درمیان کوئی دراڑ بھی نہیں پڑتی۔ ہمارے ملک کیلئے بھی ضروری ہے کہ ریاستوں کو ٹیکسوں کے معاملے میں آزادی اور خود مختاری عطا کی جائے جو کہ ’’ایک ملک ایک ٹیکس‘‘ کے بعد سے حاصل نہیں ہے۔ اگر انہیں اپنی ترجیحات کے مطابق ٹیکس وصول کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا تو وہ کم آمدنی اور زیادہ اخراجات کے درمیان پریشان اور مرکزی حکومت سے کبیدہ خاطر رہیں گی۔ خدا نہ کرے کہ ایسی نوبت آئے مگر اس  کے نتیجے میں ملک کے اتحاد کو خطرہ لاحق ہوگا جبکہ اس اتحاد کا تحفظ ملک اور اس کے عوام کے بہترین مفاد میں ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK