Inquilab Logo

مجھے اپنی سی کوشش میں لگا رہنے دو پھر دیکھو

Updated: September 26, 2020, 10:50 AM IST | Shahid Latif | Mumbai

گزشتہ دو دہائیوں میں جن لوگوں نے تکنالوجی کے حوالے سے عالمی شہرت پائی اُن میں ایک اہم نام ’جیک ما‘ کا ہے۔ چین کے ایک قصبے میں سیاحوں کی مددکرنے والا یہ شخص آج بااثر عالمی شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔ ای کامرس سے وابستہ کمپنیوں کی عالمیفہرست میں اس کمپنی (علی بابا) کو ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ اپریل ۱۹۹۹ء میں قائم ہونے والی یہ کمپنی چین کی اقتصادی کامیابی کی اہم علامت کے طور پر جانی جاتی ہے۔

Jack Ma with Donald Trump. Photo: INN
جیک ما، ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ۔ تصویر: آئی این این

اہل اُردو داستان الف لیلہ سے خوب واقف ہیں ۔ جن لوگوں نے کتابوں کامطالعہ ترک کردیا تھا، اُن کیلئے اس نام سے نشر ہونے والا ٹی وی سیریل نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا، یہ الگ بات کہ ناظرین کسی سیریل سے وہ لطف نہیں لے سکتے جو قارئین مطالعہ ٔ کتب سے حاصل کرتے ہیں ۔ یہ داستان پہلے عربی میں لکھی گئی تھی (اسی لئے ا س کی شہرت الف لیلہ سے ہوئی یعنی ہزار راتیں )۔ بعد میں اس کا انگریزی ترجمہ کیا گیا۔ مگر اس کے ایک اہم کردار ’’علی بابا‘‘ کو نئی زندگی یا یوں کہئے کہ نئے دور میں شہرت نہ تو عرب میں ملی نہ ہی کسی مغربی ملک میں جہاں انگریزی بولی جاتی ہے۔ یہ کام چین میں ہوا جہاں ایک انگریزی معلم نے، جس کے انگریزی سیکھنے کی بھی اپنی داستان ہے، ایک ایسی کمپنی قائم کی جس کا دارومدار کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر تھا۔ 
 ای کامرس سے وابستہ کمپنیوں کی عالمیفہرست میں اس کمپنی (علی بابا) کو ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ اپریل ۱۹۹۹ء میں قائم ہونے والی یہ کمپنی چین کی اقتصادی کامیابی کی اہم علامت کے طور پر جانی جاتی ہے۔ آج اس کمپنی کی مالیت اربوں ڈالر ہے جبکہ اس کے گاہک، جن کی مجموعی تعداد ۶۰؍ کروڑ بتائی جاتی ہے، پوری دُنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ اس کا شمار دُنیا کی پانچ بڑی کلاؤڈ کمپیوٹنگ کمپنیوں میں بھی ہوتا ہے جو ستمبر ۲۰۰۹ء میں ہانگژو ، بیجنگ میں قائم کی گئی تھی اور جس کا دفتر سلیکون ویلی میں بھی ہے۔ 
 سوال یہ ہے کہ اس مضمون میں ’’علی بابا‘‘ کا تذکرہ کیوں ؟ اس کے جواب میں یہ مضمون نگار اپنے ایک سابقہ مضمون کا حوالہ دینا چاہے گا جس میں ’’آئیڈیاز‘‘ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ دُنیا پر حکمرانی اُن آئیڈیاز کی ہے جن سے معاشی حکمرانی کے دروازے کھلتے ہیں اور جن کے آگے سیاسی حکمرانی کو بھی سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ ’’علی بابا‘‘ کے بانی اور مالک جیک ما (Jack Ma) آج دُنیا کے با اثر ترین افراد میں شمار کئے جاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ امیر ترین افراد میں بھی۔ ابھی گزشتہ ہفتے پہلے تک اُن کا شمار چین کے سب سے مالدار شخص کے طور پر ہوتا تھا، اب وہ دوسرے نمبر پر آگئے ہیں مگر ان کی عالمی شہرت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ آ بھی نہیں سکتا۔ 
 جیک ما کی اپنی داستان بھی بڑی دلچسپ ہے جس سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں وہ اچھے طالب علم نہیں تھے اسی لئے یونیورسٹی تک نہیں پہنچ سکے۔ مگر اُنہیں انگریزی سیکھنے کا شوق تھا۔ اس کیلئے انہوں نے یہ کیا کہ سیاحوں کی مدد کرنے لگے تاکہ جب وہ انگریزی بولیں تو جیک ما اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی کے نقائص کو سمجھیں اور ضروری اصلاح کریں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں انگریزی پر تھوڑی بہت قدرت حاصل ہوگئی اور اسی کی بنیاد پر اُنہیں انگریزی معلم کی حیثیت سے ملازمت مل گئی۔ یہ بات ان کی سوانح حیات میں تو لکھی جاسکتی ہے مگر بزنس پروفائل میں نہیں کیونکہ اُن کے بزنس پروفائل کا قد اتنا اونچا ہے کہ اب یہ ساری چیزیں بہت پیچھے چھوٹ گئی ہیں ۔
 آج آپ کسی نوجوان سے جو زیادہ پڑھا لکھا نہ ہو، گفتگو کرتے ہوئے اگر اُسے یہ بتائیں کہ ای کامرس میں بڑے مواقع ہیں تو یہ جاننے کے بعد کہ ای کامرس کیا ہے اس کا جواب ہوگا کہ مَیں تو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے ناواقف ہوں ! جیسا کہ بتایا گیا، جیک ما کا بھی یہی حال تھا۔ جب ایک دوست نے اُنہیں تکنالوجی کی اس نئی دُنیاسے متعارف کرنا چاہا تو وہ کمپیوٹر کو ہاتھ لگانے سے بھی ڈر رہے تھے۔ مگر اس پہلی نشست نے اُن پر کئی حقائق آشکار کئے اورایک ایسی کمپنی کا خیال عطا کیا جو انٹرنیٹ پر موجود ہو اور اشیاء کی فروخت کا بیڑا نہ اُٹھائے بلکہ اشیاء کی خریداری کیلئے ایک ورچوئل مارکیٹ (عکسی بازار) کے طور پر کام کرے۔ وہ دِن اور آج کا دن ’’علی بابا‘‘ کی مالیت، شہرت اور اہمیت پر صفحات کے صفحات لکھے جاچکے ہیں اور جیک ما کی کامیابی مثالی کامیابی تسلیم کی جاتی ہے جبکہ ۵۶۔۵۷؍ سالہ جیک ما نے پچھلے سال اپنی کمپنی کو قابل اعتماد ہاتھوں میں سونپ کر خود کو فروغ تعلیم کیلئے وقف کرنے کا فیصلہ کیا اور سبکدوشی اختیار کرلی۔ 
 جیک ما، جو اَب فروغ تعلیم پر توجہ دینا چاہتے ہیں ، تعلیم کے تئیں قابل قدر خیالات کے حامل ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ نظام تعلیم کی اصلاح اس طرح ہو کہ وہ تمام وسائل جو یونیورسٹی کی تعلیم پر صرف کئے جاتے ہیں ، وہ بنیادی تعلیم پر صرف کئے جائیں کیونکہ یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جس میں طالب علم کی ہمہ جہت نشوونما ممکن ہے جبکہ اعلیٰ تعلیم کےمرحلے تک طالب علم کا ذہن پختہ ہوچکا ہوتا ہے اور وہ قدریں بڑی حد تک راسخ ہوچکی ہوتی ہیں جو اُسے اپنے ماحول سے مل جاتی ہیں ۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ دُنیا بدل رہی ہے مگر تعلیم ساکت و جامد ہے، اس میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہورہی ہے۔ وہ طلبہ کو ذہنی طور پر پختہ اورقلبی سطح پر دردمند دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اسی لئے اُن کے ’’تھری کیو‘‘ فارمولے میں ایک کوشنٹ محبت ہے جسے انہو ں نےایل کیو یعنی لَو کوشنٹ قرار دیا ہے۔ جیک ما کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ دُنیا تیزی سے مصنوعی ذہانت کی طرف جارہی ہے، وہ مصنوعی ذہانت کے مخالف نہیں ہیں مگر چاہتے ہیں کہ تعلیم ایسے افراد پیدا کرے جن کے سینوں میں دل ہو۔ اسی لئے اُن کا یہ جملہ دامن دل کھینچتا ہے کہ ’’مشین دماغ کی جگہ لے لے گی مگر دل کی جگہ نہیں لے سکتی۔‘‘آج صدرِ امریکہ کو چین سے بڑی اُلجھن ہے۔ انہوں نے چین کے تجارتی مفادات کی تحدید کیلئے امریکہ میں چینی درآمدات کی حوصلہ شکنی کی ہے مگر جیک ما سے اُن کی دوستی ہے (دیکھئے تصویر)۔ یہی آئیڈیا کا کمال ہے۔ یہی معاشی ترقی کا کمال ہے۔ جیک ما نے خود کو دُنیا کیلئے قابل قبول نہ بنایا ہوتا تو آج بھی چین کے اپنے قصبے میں گمنام زندگی گزار رہے ہوتے۔ اُنہیں جو طاقت ملی وہ اُس خیال اور آئیڈیا سے ملی جس نے ’’علی بابا‘‘ کو جنم دیا اور عالمی شہرت عطا کی۔ تب دُنیا نے ایک ایسے شخص کو جانا جو چین میں سیاحوں کے سامنے ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولتا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK