Inquilab Logo

ببلو کےنام خط

Updated: January 31, 2022, 1:05 PM IST | Muhammad Rafi Ansari | Bhiwandi

جُگ جُگ جیو ببلو،تمہارا ،۳۱دسمبر ۲۰۲۱ ء کا لکھا ہوا خط مجھے ایک سال بعد یعنی یکم جنوری۲۰۲۲ءشنبہ کو ملا۔ کمال ہو گیا۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

جُگ جُگ جیو ببلو،تمہارا ،۳۱دسمبر ۲۰۲۱ ء کا لکھا ہوا خط مجھے ایک سال بعد یعنی یکم جنوری۲۰۲۲ءشنبہ کو ملا۔ کمال ہو گیا۔عہدِ غالب میں تاخیر کے ساتھ ’باعثِ تاخیر ‘کی بھی سہولت تھی۔آج کے برق رفتار دور میں اس سست روی کی پاداش میں ’نامہ بر‘ پر مقدمہ بھی دائر ہوسکتا ہے۔ایک مزے کی بات بتاؤں۔ زیادہ دن نہیں ہوئے جب بیلگام بھیجا جانے والا خط محکمۂ ڈاک کی خوش معاملگی کے طفیل بلجیم پہنچ گیا تھا۔بلجیم کے اس سے بھی فعال پیغام رسانی کے محکمہ نے خط کو بحفاطت یہ لکھ کر واپس کردیا کہ’ مکتوب اِلیہ کا پتہ درست نہیں ہے،ازراہِ کرم پتہ ٹھیک ٹھیک تحریر کریں... بارے تمہیں نیا سال مبارک ہو۔ افسوس! ابھی تک لوگ پرانے سال کے زخموں کو سہلانے میں لگے ہیں۔وہ سال جو گزر گیا، اُس کے رگ و ریشے میں شرارت تھی۔ اس کی سرشت میں جارحیت تھی ۔ اخیر تک اس کی نیت میں کھوٹ رہی۔وہ جب رخصت ہوا تو بھی لوگ خوفناک اندیشے میں مبتلا رہے کہ کہیںجاتے جاتے بھی کوئی فتنہ نہ اُٹھادے۔ یہ بہت اچھا ہوا کہ سال کے آخر میں مالیگاؤں میں اردو کتاب میلے کا انعقاد ہوگیا۔لوگ ’کتاب ‘ کی خوشی میں سالِ گزشتہ کا’حساب و کتاب ‘ بھول گئے۔کتاب میلہ نے کلفتوں، مصیبتوں کے ساتھ اندیشوں اور وسوسوں کا سارا ’حساب‘ بیباق کردیا۔  میرے عزیز! سالِ نو کے پہلے خط میں حسبِ سابق تم نے مجھ سے کچھ سوال پوچھے ہیں۔تم جاننا چاہتے ہو کہ ’میلہ کیا ہوتا ہے؟ کتاب میلہ کسے کہتے ہیں؟اور حالیہ کتاب میلے پر میری کیا رائے ہے؟ تمہارا پہلا سوال ہے’میلہ کسے کہتے ہیں؟یعنی تم یہ پوچھ رہے ہو کہ یہ میلہ کیا ہوتا ہے؟پیارے!خریدو فروخت اور تفریحات کے لئے لوگوں کا جمع ہونا’میلہ‘کہلاتا ہے۔دنیا کی ترقی کے ساتھ ساتھ میلوں ٹھیلوں کے رنگ و روپ بھی بدلے ہیں۔کل کے مقابلے میں آج میلوں کی تعداد بھی بڑھی ہے اور اس کا معیار بھی بلند ہوا ہے۔میلے کی دو خوبیاں بہت مشہور ہیں۔ پوچھو کیا؟ ایک میلے میں گھومنا اور دوسرے میلے میں گُم ہوجانا۔ پُرانے زمانے میں ہر سو میں سے ایک بچّہ میلے میں گُم ہونے کا تجربہ رکھتا تھا۔گمشدہ بچّے مل جاتے تھے۔ جو نہیں ملتے تھے اُن کے ملنے کی اُمید باقی رہتی تھی۔کبھی کبھی یوں بھی ہوتا تھا کہ میلے کے بچھڑے میلے ہی میں مل جاتے تھے۔میلے میں اکیلے ہونے کی باتیں بھی سنی جاتی ہیں۔یہ بھی کہتے ہیں کہ اکیلا روتا بھلا نہ ہنستا بھلا۔تنہا آدمی کی زندگی بے لطف ہوتی ہے۔ اس لئے شرفاء میلے میں کبھی اکیلے نہیں جاتے۔  تم یہ بھی جاننا چاہتے ہو کہ یہ کتاب میلہ کیا ہوتا ہے....؟ تو سنومیاں،جہاں کتابوں کی خرید و فروخت کے لئے لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے اُسے ’کتاب میلہ‘ کہتے ہیں۔ یہاں کتابوں کا لین دین بڑے پُرخلوص انداز میں کیا جاتا ہے۔یہاںمیلے کے اوقات اور ایام بڑھانے کے علاوہ کسی بات پر تکرار نہیں ہوتی۔ کتاب میلے کتابوں سے دور رہنے والوں اور کتابوں سے قربت رکھنے والوں کے لئے یکساں مفید ہوتے ہیں کیونکہ یہاں اکثر کتابیں رعایتی داموں پر فروخت کے لئے رکھی جاتی ہیں۔کتاب میلے میدان میں منعقد ہوتے ہیں۔ اس کی برکت سے ’لڑائی کے میدان ‘ دیکھتے ہی دیکھتے ’پڑھائی کے میدان ‘ میں بدل جاتے ہیں۔یہاں چوری نہیں ہوتی۔ کتاب چُرا کر پڑھنے والوں کے لئے یہاں بہتر مواقع ہوتے ہیں لیکن وہ میلے کے تقدس کے سبب موقع سے فائدہ اٹھانے کو کسرِ شان خیال کرتے ہیں۔کتاب لکھنے والے بھی میلے میں نظر آتے ہیں۔ یہاں انھیں پہچانا بھی جاتا ہے اور نوازا بھی جاتا ہے۔لوگ ان سے مل کر خوش ہوتے ہیں اور وہ لوگوں سے مل کر اور بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں۔  جو کتابیں چَھپ کر چُھپی رہتی ہیں،کتاب میلوں میں ان کا دیدارِ عام(خاص طور پر) ہوتا ہے۔کتاب میلے میں قیمتی اور اچھی کتابیں کم قیمت پر مل جاتی ہیں۔غریب طلبہ اور غریب(یعنی انوکھے) قاری اس کا فائدہ اُٹھا کر مالا مال ہو جاتے ہیں۔کتاب میلے میںبہت سے مالدار(کتابوں سے لدے پھندے) نظر آتے ہیں۔جہاں جہاں کتاب میلہ لگتا ہے وہاں قدرتی طور پر مطالعہ کا شوق پروان چڑھنے لگتا ہے اور اس بات کو تسلیم کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا ہے کہ ’ کتاب سے بڑھ کر کوئی رفیق نہیں۔‘  ببلو ! میں موسم کی خرابی اور سردو گرم حالات کے سبب میلہ نہ جاسکا مگرمیں نے اسے اپنے موبائل پر از اول تا آخر ملاحظہ کیا۔کسی کتاب میلہ کی اتنی اچھی فلم میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ تم نے پوچھا ہے کہ مجھے اس میلے میں کیا اچھا لگا؟ پیارے!اس صدی کے بارے میں جب میں سنتا تھا کہ’’ یہ صدی دشمنِ اربابِ ہنر ہے، اور یہ کتابوں سے عشق کی آخری صدی ہے....‘‘تو طبیعت مکدّر ہوجاتی تھی۔ لیکن جب اِس کتاب میلے کو دیکھا تو لگا کہ یہ دونوں باتیں شاید درست نہیں ہیں۔   اس میلے میں شاداب کے آداب،عمران راشد کی کھٹی میٹھی اور فرنود رومی کی رس بھری باتوں نے میرا من موہ لیا۔ ۱۶۳ ؍بُک اسٹال والے اس کتاب میلے میں نوے سالہ دادی کو اپنے پوتے کے لئے کتاب تلاش کرتے دیکھا تو مجھے اپنا پوتا یاد آیا جو کھلونوں کی دکان پر کتاب اور کتاب کی دکانوں پر کھلونا تلاش کرتا ہے۔سائیکل والے چاچا کا اندازِ کتب فروشی دل میں اُتر گیا۔مجھے اُس خاتون نے بھی متاثر کیا جو کتب بینی کے شوق میں اپنے معصوم بچّے کو گود میں لئے میلہ گھوم رہی تھی....گھوم کیا رہی تھی ،ننھے فرشتے کو کتابوں کی مہک سے آشنا کر رہی تھی کہ مشک و عنبر میں بھی ایسی خوشو نہیں، میرے نورِ نظر اسے اپنی مشامِ جاں میں بسالو۔ببلو، میری جان ، جان ہے تو جہان ہے۔تمہارے شہر میں کتاب میلہ لگے تو اس میں سیر کے لئے ضرور جانا۔ ایک بار سیری نہیں ہوگی تو بار بار جانا... خدا حافظ ،تمہارا  سدّو انکل۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK