Inquilab Logo

جے این یو اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کی روشنی

Updated: June 19, 2020, 9:48 AM IST | Shamim Tariq

فروغ انسانی وسائل کی وزارت نے یونیورسٹیوں کی وہ فہرست جاری کردی ہے جس سے ان کے رینک یا یورنیوسٹیوں میں ان کی حیثیت کا پتہ چلتا ہے ، خوشی ہوئی کہ دونوں یونیورسٹیوں نے اپنے رینک یا اپنی حیثیت کو برقرار رکھا ہے۔

Jamia Millia Islamia - Pic : INN
جامعہ ملیہ اسلامیہ ۔ تصویر : آئی این این

جے این یو اور جامعہ ملیہ اسلامیہ مسلسل کئی مہینے تک جن حالات کا شکار رہے اس سے ان کی نیک نامی ہی نہیں ان کے طلبا کا مستقبل بھی دائو پر لگا ہوا تھا مگر اب فروغ انسانی وسائل کی وزارت نے یونیورسٹیوں کی وہ فہرست جاری کردی ہے جس سے ان کے رینک یا یورنیوسٹیوں میں ان کی حیثیت کا پتہ چلتا ہے تو خوشی ہوئی کہ دونوں یونیورسٹیوں نے اپنے رینک یا اپنی حیثیت کو برقرار رکھا ہے۔ اس میں سبق ہے ان تعلیمی اداروں کے لئے جہاں کے ارباب اختیار اپنے اقتدر کو مضبوط کرنے کے لئے ’’ مافیا ‘‘ سے تعلق رکھنے والے عناصر یا مافیا کے ’’ سوشل ورکر قسم کے چہروں ‘‘ کو اپنے ادارے میں دخل دینے کی اجازت دے کر تعلیمی ماحول کو غارت کردیتے ہیں۔ تعلیمی ماحول کا غارت ہونا یا تعلیمی ادارے پر قبضہ کرکے سیاست میں پیش رفت کیا جانا تعلیمی ادارے کو اس کی روح سے محروم کردیے جانے کا پیش خیمہ ہے۔
 فروغ انسانی وسائل کی وزارت کی جاری کی ہوئی فہرست میں ایک بات حیرت و افسوس کی اور ایک بات غور و فکر کی بھی ہے۔ حیرت و افسوس کی بات یہ ہے کہ اس فہرست میں علیگڈھ مسلم یونیورسٹی کو وہ درجہ نہیں دیا گیا ہے جس کے لئے وہ مشہور ہے یا ماضی میں جس کا جو درجہ تسلیم کیا جاتا تھا۔ اس سلسلے میں قیاس آرائی کرنے کے بجائے میں نے مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے میڈیا ایڈوائزر پروفیسر شافع قدوائی سے استفسار کیا تو انھوں نے بتایا کہ گزشتہ سال یونیورسٹی نے ۳۸۳؍ طلبا کو مختلف شعبوں کے مضامین میں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی تھی مگر صرف ۸؍ کو شمار کیا گیا۔ اسی طرح اس سال یونیورسٹی کے مختلف شعبوں میں ۲۹۱۱؍ ریسرچ اسکالرز ہیں مگر صرف ۳۳؍ کو شمار میں لیا گیا ہے ایسے میں وہی نتیجہ سامنے آنا تھا جو سامنے آیا ہے۔ وائس چانسلر نے یو جی سی وغیرہ کو خطوط لکھے ہیں اور اگر صحیح اعداد و شمار کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کیاگیا تو علیگڈھ مسلم یونیورسٹی بھی ملک کی دس ٹاپ یونیورسٹیوں میں شامل کرلی جائے گی۔
 غور و فکر کی بات یہ ہے کہ اپنے ملک میں کی جانے والی این آئی آر ایف رینکنگ میں اچھی حیثیت کی حامل قرار دی جانے والی یونیورسٹیاں بھی عالمی سطح پر کی جانے والی رینکنگ میں اچھا مقام حاصل نہیں کرسکی ہیں۔ مثلاً این آئی آر ایف رینکنگ کی اوور آل کیٹیگری میں پہلا مقام حاصل کرنے والی آئی آئی ٹی مدراس گلوبل رینکنگ میں ۲۷۵؍ ویں مقام پر ہے جبکہ آئی آئی ٹی دہلی سے بھی نچلے مقام پر رہنے والی آئی آئی ٹی بامبے گلوبل رینکنگ میں ۱۷۲؍ ویں مقام پر ہے۔ اس الجھی ہوئی گتھی کو سلجھانے کا الگ الگ لوگوں کا الگ الگ پیمانہ ہے۔ ایک صاحب نے تو یہ بھی کہا کہ اگر عالمی سطح کی رینکنگ میں ہندوستان کا کوئی تعلیمی ادارہ ایک ہزار تعلیمی اداروں میں بھی شامل ہوتا ہے تو یہ بڑی بات ہے۔ کچھ لوگوں نے اس سے اختلاف کیا۔ مزید پوچھ گچھ سے جو بات سامنے آئی وہ یہ ہے۔
 این آئی آر ایف رینکنگ طے کرنے کے لئے Teaching (پڑھائی، تعلیم)، Learning (معلومات)، Resources (وسائل، ذرائع)، Research (علمی تحقیق)، Inclusivity (شمولیت)، Professional Practices (پیشہ وارانہ مشق و مہارت) اور Perception (شعور و ادراک) کو معیار یا بنیاد بنایا جاتا ہے جبکہ کیو ایس گلوبل یعنی عالمی سطح کی رینکنگ میں Academic Reputation (تعلیمی شہرت، ساکھ)، Faculty Student Ratio (استاذ اور طلبا کا تناسب)، International Faculty (غیر ملکی اساتذہ)، International Students (غیر ملکی طلبا) اور Per Faculty Citation (یعنی ہر استاد کو کتنی جگہ مدعو کیا جاتا ہے یا اس کی تحقیق کا حوالہ دیا جاتا ہے) جیسے پہلوئوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔
 عالمی سطح پر تعلیمی ادارے کے معیار کا تعین کئے جاتے وقت پہلی بات تو یہ سامنے آتی ہے کہ ساکھ یا شہرت کا تعین کس طرح یا کن بنیادوں پر کیا جاتا ہے اس کی وضاحت نہیں ہوتی۔ ایک مشکل یہ بھی ہوتی ہے کہ اگر ہندوستان کے تعلیمی ادارے زیادہ اساتذہ کا تقرر کرکے استاذ اور طلبا کا تناسب سدھارنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو Per Faculty Citation کے محاذ پر کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ نئے اساتذہ کی تحقیقات راتوں رات تو نقل نہیں کی جائیں گی نہ ہی ان کے تحقیقی مقالوں کے اقتباسات حوالے کے طور پر استعمال کئے جاسکیں گے۔ یہاں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ عالمی سطح کی رینکنگ اور قومی سطح کی رینکنگ میں فرق اتنا زیادہ کیوں ہے؟
 ایسی ہی دشواریوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے فروغ  انسانی وسائل کی وزارت نے طے کیا تھا کہ وہ گلوبل رینکنگ کے بجائے قومی رینکنگ این آئی آر ایف رینکنگ کو ہی عالمی سطح پر قابل قبول بنانے کی کوشش کرے گی۔ وزارت کا یہ فیصلہ یقیناً بہت قابل قدر ہے مگر اس قابل قدر فیصلے یا کوشش کے سبب اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ عالمی سطح کی رینکنگ میں ہندوستان نیچے کیوں ہے۔ اسی طرح قومی سطح کی رینکنگ میں اس سوال کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے یا ریسرچ کے لئے رجسٹریشن کرانے والوں کی صحیح تعداد کو شمار میں کیوں نہیں لیا گیا؟ جیسا کہ علیگڈھ مسلم یونیورسٹی کے معاملے میں ہوا ہے۔ آئی آئی ایس سی (بنگلورو)، جے این یو اور بی ایچ یو کا مسلسل چار سال سے پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر برقرار ہونا یقیناً اچھی بات ہے مگر جامعہ ملیہ اسلامیہ کا گزشتہ مہینوں کی شورش کے باوجود اپنا شمار ٹاپ ۱۰؍ یونیورسٹیوں میں کرانا بہت بڑی بات ہے۔ یہی معاملہ جے این یو کا بھی ہے۔ یہاں یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ بانیان جامعہ نے پہلے ہی دن طے کرلیا تھا کہ جامعہ دوسری یونیورسٹیوں سے مختلف ہوگی۔ اسی طرح مونس رضا جنہوں نے جے این یو کے خواب کو تعبیر عطا کی اور اس کے پہلے ریکٹر بھی بنے، پہلے ہی دن یہ طے کرلیا تھا کہ یہاں فیکلٹی کے تقرر یا طلبا کے داخلے میں معیار سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ جامعہ اور جے این یو کا شورش کے دور سے گزر کر بھی اپنی حیثیت کو نہ صرف برقرار رکھنا بلکہ اس میں بہتری لانا قومی تاریخ کا اہم واقعہ ہے اس پر ہمیں فخر ہے۔ اس سے انھیں سبق لینا چاہئے جو غنڈوں اور خوش آمد کرنے والوں کے سہارے تعلیمی ادارہ چلانا چاہتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK