Inquilab Logo

لاک ڈائون کی لاگت کو کم کرنے کی ضرورت

Updated: May 25, 2020, 9:07 AM IST | Bharat Jhunjhunwala

معیشت کی بحالی اور کورونا پر قابو پانے کے اقدامات دونوںکیلئے کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں کو قدم بہ قدم آگے بڑھانے کیلئے ان کے نظام میں کچھ تبدیلیاں لانا ناگزیر ہوگیا ہے۔

Indian Economy - Pic : INN
ہندوستانی معیشت ۔ تصویر : آئی این این

نیوزی لینڈ اور ہندوستان میں کیرالا نے سوشل ڈسٹینسنگ کو کامیابی کے ساتھ نافذ کیا ہے۔حالانکہ اس پر لاگت بہت زیادہ آئی ہے۔عوام طویل عرصے کیلئے بے روزگار ہوگئے ہیں۔معیشت رک سی گئی ہے۔ اس سے بھی بڑا خطرہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ معاشی سرگرمیاں شروع کی گئیں تو انفیکشن کی دوسری لہر بھی آسکتی ہے۔
 اس سے بچنے کیلئےآئندہ کا لائحہ عمل بہت ہی سوچ سمجھ کر تیار کرنا ہوگاکہ معاشی سرگرمیاں بھی اپنی پوری رفتار سے چلتی رہیں اور اس نئےکورونا وائرس یعنی کووڈ ۱۹؍ کی وباپر قابو پانے کیلئے ضروری چیز یعنی سوشل ڈسٹینسنگ کے اصولوں پر بھی پوری طرح عمل درآمد کیا جاتا رہے۔اس کا ممکنہ اور سب سے اچھا حل یہ ہوسکتا ہے کہ  تمام پیداواری سرگرمیاں جیسے کہ صنعتی، تعمیراتی،یہاں تک کہ تعلیمی سرگرمیاں بھی شروع کردی جائیں۔یہ ایسی سرگرمیاں ہیں جہاں  محض ایک مخصوص طبقہ کے افراد ہی ایک دوسرے سے رابطہ میں آتےہیں۔ اس کے بعد ان کے تعلق سے اس بات کو یقینی بنایا جائےکہ ایک طبقہ کے لوگوں کو دوسرے طبقہ کے افراد سے دور رکھا جائے۔ یعنی ایک فیکٹری کے لوگ ہی آپس میں ملیں کسی دوسری فیکٹری یا کمپنی کے لوگوں سے رابطہ میں نہ آئیں۔اس کیلئے حکومت ’کورونا انسپکٹر‘تعینات کرسکتی ہے اور کمپنیوں سے ان کی خدمات  حاصل کرنے کیلئے رقم ادا کرنے کو کہہ سکتی ہے۔
 جن کمپنیوں یا اداروں میںکام کاج شروع کیا جائے،انہیں ابتدائی طور پران کی اصل جگہ پر ہی کام کرنے کی اجازت دی جائے۔اپنے ملازمین کو دوسروں سے دور رکھنے یا رابطہ میں آنے نہ دینے کیلئے کمپنیاں اپنے یہاں بیرک بناسکتی ہیں تاکہ ملازمین کمپنی میں ہی قیام کریں اور دوران سفر بھی کسی دوسرے کے رابطہ میں نہ آئیں۔ اسی طرح اسکولوں کو بھی رہائشی بنایاجاسکتا ہے۔اگر کسی کمپنی میں کورونا کا کوئی مثبت کیس ملتا ہے تو انہیں’لاک ڈائون‘ کیا جاسکتاہے۔اس طرح ہم بڑے پیمانے پر پیداواری سرگرمیاں انجام دے سکتے ہیں اور انفیکشن کی صورت میں فوری طور پر آئیسولیشن بھی قائم کیا جاسکتا ہے۔
 اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’کورونا انسپکٹر‘کہاں سے آئیں گے؟ تو ا س کا جواب یہ ہے کہ ہمارے یہاں پرائمری سطح پر ۵۸؍لاکھ اور سیکنڈری سطح پر ۲۱؍لاکھ سرکاری ٹیچر ہیں۔ جہاں  طلبہ کم ہیں ایسے ۲؍تہائی اسکولوں کو بند کرکے حکومت ان طلبہ کو بڑےرہائشی یا بورڈنگ اسکولوں میں منتقل کرسکتی ہے۔اس سے تقریباً آدھے یعنی ۴۰؍لاکھ اساتذہ فارغ ہوں گے۔ان فارغ ہونےوالے اساتذہ کو کورونا انسپکٹر بنایا جاسکتا ہے۔اور ان کی خدمات ان کمپنیوں کو ’فروخت‘ کی جاسکتی ہیں جواپناکام کاج دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہیں۔اس سے حکومت پر معاشی بوجھ کم ہوگا۔ بصورت دیگر انہیں دوسری طرح بھی استعمال کیا جاسکتاہے۔ مثال کے طور پرمیرے گائوں میں ۸؍افراد کو قرنطینہ کیا گیا ہےجبکہ ۴؍ اساتذہ کو کام کئے بغیر تنخواہ دی جارہی ہے۔حکومت آسانی سے ان اساتذہ کو اس قرنطینہ کو کامیاب بنانے کیلئے ۸؍ گھنٹےکی ڈیوٹی پر معمور کرسکتی ہے۔ اس سے کوئی اضافی خرچ نہیں ہوگا۔
 اسی طرح زیراستعمال ریلوے اسٹیشن اور ٹرینیں بھی ۲؍تہائی کم کردی جائیں۔مسافر ٹرینوں کے مجموعی ڈبے ۲۰۱۶ء میں ۶۲؍ہزا رتھے۔ ریلوے انہیں کم کرکے ۲۱؍ہزار کرسکتی ہے۔ ہر ڈبے میں مثال کے طور۲۴؍گھنٹے میں ۳؍کورونا انسپکٹر یعنی مجموعی طور پر۶۳؍ہزار انسپکٹرلگیں گے۔۲۰۱۹ءمیں ہندوستانی ریلوے میں ۱۲ء۳؍لاکھ ملازمین تھے۔ تقریباً ۲۰؍فیصد یا۲؍لاکھ ملازمین کو آسانی سے چند اسٹیشنوں اور ٹرینوں کو کم کرکے حاصل کیا جاسکتاہے۔انہیں ہر ڈبے میں سوشل ڈسٹینسنگ پر عمل کروانے کیلئے کورونا انسپکٹر کے طور پر تعینات کیا جاسکتاہے۔بسوں کو بھی اسی طرح کم کرکے ڈرائیوروں اور کنڈکٹروں کو ان باقی چلنے والی بسوں میں کورونا انسپکٹر کے طور پر تعینات کیا جاسکتاہے۔
 یہ کوئی کہنے کی بات نہیں ہے کہ ملازمین کیلئے بیرک بنانے سے ہماری فیکٹریوں میں پیداواری لاگت اور سوشل ڈسٹینسنگ کے سبب کم مسافروں کی وجہ سے بسوں اور ٹرینوں کا کرایہ بڑھ جائے گا۔لیکن یہ بات اہم ہے کہ معیشت پوری رفتار سے چلنے لگے گی۔
 کورونا کے بحران پر قابو پانے کیلئے دوسرے قدم کے طور پر ہمیں اپنی روایتی طور طریقوں کو استعمال کرنا چاہئے۔ کئی برسوں سے ہلدی، تلسی، نیم اور ادرک کوہم اپنی قوت مدافعت بڑھانے کیلئے استعمال کرتے آئے ہیں۔ حکومت اتراکھنڈ نے میرے گھر پر سینی ٹائزر کی ایک بوتل مفت بھیجی ہے۔ میں اس کیلئے حکومت کا شکر گزار ہوں۔ لیکن یہ محض ایک علامتی علاج ہے جس سے وقتی طور پر تو فائدہ ہوتا ہے لیکن یہ کوئی دیر پا نہیںرہتا۔دیر پا فائدے کیلئے حکومت کو اپنی پرانی چیزوں کوپھر سے زیر استعمال لانا چاہئے بلکہ عوام میں ان کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے حکومت کو خود کوشش کرنا چاہئے۔ اس کوشش کے تحت مرکزی حکومت ہر شہری کے گھر پر ہلدی اور قوت مدافعت بڑھانے والی ایسی ہی دیگر چیزوں پر مشتمل ایک پیکٹ مفت بھیج سکتی ہے۔اس سامان کو عوام تک پہنچانے کیلئے حکومت کو افرادی قوت درکار ہوگی اور یہ سامان بھی حاصل کرنا ہوگا۔ اس کیلئے حکومت کو بڑی تعداد میں نوجوانوں کو ملازمت پر رکھنا ہوگا جس سے بے روزگاری کے مسئلے کو حل کرنے میں کچھ حد تک مدد ملے گی۔حکومت کے ذریعہ یہ سامان خریدنے سے تاجروں کا بھی فائدہ ہوگا اور بازار میں خریدوفروخت کا عمل بڑھے گا۔
 بد قسمتی سے ہمارا طبی نظام چند بڑی اور ملٹی نیشنل فارما سیوٹیکل کمپنیوںکے زیر اثرہے جو نہیں چاہتیں کہ کسی بیماری کا علاج سستی، آسانی سے دستیاب ہونے والی اور بے ضرر چیزوں سے ہو۔بلکہ وہ اسی فراق میں رہتی ہیں کہ ان کی بنائی ہوئی مہنگی مہنگی دوائیں ہی عوام میں استعمال کی جائیں۔ اس کے علاوہ کمپنیاںچاہتی ہیں کہ حکومت اپناپیسہ وینٹی لیٹر خریدنےمیں لگائے جویہی بڑی بڑی کمپنیاں ہی بناتی ہیں۔اس کے علاوہ یہ کمپنیاں پلازما تھیراپی پر توجہ دے رہی ہیں جو یہ بڑی فارما کمپنیاں بنائیں گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK