Inquilab Logo

لاک ڈائون : سرکاری پالیسیوں پر سوال اُٹھنا لازمی ہے

Updated: May 31, 2020, 4:00 AM IST | Mubasshir Akbar

سرکار کی جانب سے دئیے گئے معاشی پیکیج ، کورونا کے معاملات بڑھنے کے درمیان لاک ڈائون میں نرمی، مزدوروں کی حالت زار اور ریلوےکی بدانتظامی جیسے کئی فیصلے ہیں جن پرمسلسل سوال اٹھ رہے ہیں، ان سوالوں کے جواب آج نہیں تو کل مودی حکومت کو دینے ہوں گے

Migrant Worker - Pic : PTI
مہاجر مزدور ۔ تصویر : پی ٹی آئی

 مشکل حالات میںمرکز کی مودی حکومت کی جانب سے عوام کی بہتر سے بہتر مدد کرنے کے بجائے قرض دینے اور دیگر طریقوں سے رقومات فراہم کرنے کے اقدامات کرنا پریشان حال عوام کو مزید پریشان کرنے کے مترادف ہے۔ حکومت اپنے فیصلوں کے ذریعہ یہ اطمینان دلانے کی کوشش کر رہی ہے کہ اسے لاک ڈاؤن کے باعث عوام پر گزرنے والی مصیبتوں کا احساس ہے لیکن وہ انہیں راحت پہنچانے کے بجائے ، انہیں نقد مدد کرنے کے بجائے قرض کے جنجال میں پھنسانے کی کوشش کررہی ہے۔ لاکھ ڈائون کا چوتھا مرحلہ اختتام کو پہنچ رہا  ہے  اور پانچویں مرحلہ کا آغاز ہوا چاہتا ہے لیکن اب بھی ملک کے لاکھوں مہاجر مزدوروں کا مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔ حکومت نے اپوزیشن کے دبائو  کے آگے جھکتے ہوئےبھلے ہی معاشی پیکیج کا اعلان کردیا لیکن یہ پیکیج’زلف یار ‘ کے پیچ و خم کی طرح الجھا ہوا ہے جسے سلجھانے کا کام  معاشی میدان کے جغادری بھی نہیںکر پارہے ہیں۔حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ غریبوں اور ضرورت مندوں کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ہر ماہ ۷؍ سے ۸؍ ہزار روپے کے درمیان نقد فراہم کرے ۔ یہ مدد اگلے ۶؍ ماہ تک دینی تھی لیکن سرکار نے اسے قبول کرنے کے بجائے قرض فراہم کرنے کا راستہ منتخب کیا۔ ہمیں اس معاملے میں وزیر اعظم مودی سے زیادہ انہیں معاشی مشورے دینے والے افراد سے شکایت ہے ۔کیا وہ نہیں دیکھ رہے کہ ملک کی معیشت کس حالت میں ہے ؟ ڈیمانڈ بالکل ختم ہو گئی ہے اور مہنگائی آسمان چھونے کی طرف گامزن ہے۔ ایسے حالات میں قرض فراہم کرنا چہ معنی دارد؟ ہم ماہرمعاشیات تو نہیں ہیں لیکن یہ صاف بات معیشت کے اصولوں کی سمجھ میں آتی ہے کہ معیشت میں قرض کی فراوانی اسی وقت ہو تی ہے جب مارکیٹ میں ڈیمانڈ موجود ہو اور صارفین کو یہ محسوس ہو تا ہو کہ وہ اگر قرض حاصل کریں گے تو اگلے کچھ وقتوں میں اسے چکا بھی سکیں گے لیکن ہندوستان کے معاملے میں حال دیگر ہے۔ یہاں ڈیمانڈ کورونا سے پہلے ہی ختم ہو گئی تھی اور کورونا اور لاک ڈائون کے بحران نے اسے نیست و نابود کردیا۔ ایسے حالات میں مارکیٹ میں ڈیمانڈ واپس لانے کا بہت آسان سا اصول ماہرین بتاتے ہیں کہ عوام کے ہاتھ میں پیسہ پہنچایا جائے۔ انہیں خرچ کرنے کی ترغیب دلائی جائے۔ خرچ وہ تبھی کرسکیں گے جب  ان کے پاس پیسہ ہو گا اور اپوزیشن پارٹیاں خاص طور پرراہل گاندھی یہ مطالبہ مسلسل کررہے ہیں کہ عوام کے ہاتھوں میں رقم پہنچائی جائے جس سے وہ اپنے خرچ میں اضافہ کریں اور معیشت کا پہیہ دوبارہ چل سکے۔ اتنی سی بات کیا حکومت کی نظر میں نہیں ہے  یا پھر وہ اسے جان بوجھ کر نظر انداز کررہی ہے۔
 معیشت کی گاڑی کھینچنےکا دوسرا اہم اصول جو ۱۹۳۰ء کی دہائی میں عالمی مندی کو ختم کرنے کے لئے استعمال کیا گیا وہ زیادہ سے زیادہ نوٹ چھاپ کر بینکوں کو فراہم کرنا ہے تاکہ وہ قرض بھی فراہم کرسکیں اور اکائونٹس میں منتقل بھی کرسکیں۔ یہ مشورہ گزشتہ دنوں مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ اور کانگریس کے سینئر لیڈر پرتھوی راج چوہان نے بھی دیا تھاکہ  مذہبی اداروں سے سو نا ادھار لے کر اس کا استعمال نوٹ چھاپنے اور دیگر ایمر جنسی فنڈ کیلئے کیا جاسکتا ہے ۔ حالانکہ ان کے بیان پر گودی میڈیا کی جانب سے تنازع کھڑا کردیا گیا لیکن حقیقت یہی ہے کہ عام طور پر حکومتیں معاشی مندی سے نکلنے کے لئے کیش ٹرانسفر کا سہارا لیتی ہیں یا پھر زائد نوٹ چھاپ کر اسے بینکوں تک پہنچاتی ہیں تاکہ ڈیمانڈ برقرار رہ سکے۔ موجودہ حالات میں سرکار دونوں اقدامات سے گریز کررہی ہے اور صرف قرض فراہم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس سے معیشت کو طویل المدتی فائدہ جب پہنچے گاتب پہنچے گا   لیکن فوری طور پر اسے کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور اس وقت ضرورت فوری فوائد کی ہے۔معاشی پیکیج میں جو اعلانات کئے گئے ہیں انہیں دیکھ کر تو یہی محسوس ہو رہا ہے کہ اس سے صرف کارپوریٹ گھرانوں کو فائدہ پہنچے گا کیوں کہ موجودہ حالات میں وہی ہیں جو قرض حاصل بھی کرسکتے ہیں اور اسے دوبارہ چکانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ان کے پاس سرمایہ موجود ہے اور غالباً وہ حکومت کے ایسے ہی کسی اعلان کا انتظار کررہے تھے تاکہ وہ اسے مارکیٹ میں کم سے کم نقصان کی گیارنٹی پر اتار سکیں اور اس سے مزید پیسہ بناسکیں۔  
 یہاں کچھ سوال ہمیں سرکار کی کورونا پالیسی پر بھی اٹھانے ہیں ۔ سب سے پہلا سوال تو یہی ہے کہ جب عالمی ادارہ صحت نے لاک ڈائون نافذ کرنے کا مشورہ نہیں دیا تھا تو حکومت نے اسے اوروہ بھی اتنا طویل ، نافذ کیوں کیا ؟ ڈبلیو ایچ او نے زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کرنے کا مشورہ دیا تھا اور کہا تھا کہ ہر ملک کم سے کم وقت میں اپنی ٹیسٹنگ کی صلاحیت میں اضافہ کرے ۔ اس کے بغیرکورونا سے مقابلہ ممکن نہیں ہے۔ مودی حکومت نے اب کہیں جاکر ٹیسٹنگ کی صلاحیت میں کسی حد تک اضافہ کیا ہے اور اب زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے زیادہ متاثرین سامنے آرہے ہیں۔ دوسرا اعتراض ہمیں یہ ہے کہ جب  لاک ڈائون نافذ کیا گیا تھا تو ملک میں کورونا کے معاملات کی تعداد ۴۰۰؍ سے ۵۰۰؍ کے درمیان تھی اور وہ بھی  چند  چند علاقوں تک محدود تھی، تب سرکار نےنہ مزدوروں کو گھر سے نکلنے دیا اور نہ انہیں اپنے وطن لوٹنے دیا۔ اب جبکہ معاملات ایک لاکھ ۶۹؍ ہزار سے زائد ہو گئے ہیں توسرکار کی جانب سے مزدوروں کو ان کے گھر بھیجنے کا انتظام کیا جارہا ہے۔ اس پر ہمیں اعتراض اس لئے ہے  کہ ان دو مہینوں سے بھی زیادہ عرصے میں لاکھوں مزدور  اپنی گاڑھی کمائی خرچ کرکے پرائیویٹ گاڑیوں سے یا پھر پیدل ہی گائوں کی طرف نکل گئے تھے اور اب پہنچ گئے ہیں۔ پھر ایسے میں ٹرینیں چلانے کا بہانہ کسے دکھانے کے لئے کیا جارہا ہے ؟ہر چند کہ اب بھی ہزاروں افراد جن میں مزدوروں کی تعداد زیادہ ہے ، شہروں میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن نہ ان کے لئے مناسب طریقے سے ٹرینوں کا انتظام کیا جارہا ہے اور نہ وہ ٹرینیں وقت پر  اپنے اپنے مقام پر پہنچ رہی ہیں۔گزشتہ دنوں ان خبروں نے حکومت اور ریلوے دونوں کی عالمی سطح پر بدنامی کروائی کہ ٹرینیں راستہ بھٹک رہی ہیں اور ۲۰؍ سے ۳۰؍ گھنٹوں میں پہنچنے والی ٹرینوں کو کئی دن لگ رہے ہیں۔ اس پر نہ صرف ریلوے کو کئی مرتبہ صفائی پیش کرنی پڑی بلکہ وعدہ کرنا پڑاکہ اب وہ اپنےنظام کو بہتر کرے گا۔ انہی باتوں کی وجہ سے یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ کیا مزدوروں اور غریبوں کی جان اتنی سستی ہے کہ جب تک ان کے لئے ہنگامہ نہ ہو اور ان پر کوئی  بڑی آفت نہ ٹوٹے حکومت اور انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔
  لاک ڈائون کے چوتھے مرحلے میں حکومت نے متعدد رعایتیں دی تھیں اور امید کی جارہی ہے کہ  پانچواں مرحلہ جب شروع ہو گا تو اس میں مزید رعایتیں دی جائیں گی لیکن حقیقت یہی ہے کہ  لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد حالات اس سے زیادہ نازک ہوں گے۔ تاجر طبقہ شدید مالیاتی بحران کا شکار ہوگا۔ ملک بھر میں تقریباً ۷؍ کروڑ تاجر ہیں جن کی تنظیم سی اے آئی ٹی کا کہنا ہے کہ ان تاجروں کو اپنے کاروبار سنبھالنے میں مشکلات درپیش ہوں گی۔ اس بحران کے وقت کوئی بھی بینک چھوٹے یا متوسط تاجروں کو قرض دینے سے بھی انکار کردے گا۔ ایسے میں حکومت اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرے تو پھر پریشان حال عوام تاجروں اور غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔ حکومت کو چا ہئے کہ وہ ایک دیانتدارانہ پالیسی بناکر ہر ایک کے  لئےکام آنے والے اقدامات اٹھائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK