Inquilab Logo

کورونا کی وبا کےساتھ ملک کو ٹڈیوں سے خطرہ

Updated: May 31, 2020, 4:27 AM IST | Dr Mushtaque Ahmed

ابھی کورونا سے نجات پانے کے طریقہ کار پر غوروفکر ہی کیا جا رہاہے کہ کس طرح انسانی معاشرے کو اس مہلک بیماری سے نجات دلایا جائے؟ اسی دوران دوسری مشکل یہ آن پڑی ہے کہ ٹڈ یو ں کا حملہ شروع ہوگیا ہے۔ یہ مسئلہ بھی عالمی ہے، کئی ممالک میں ٹڈیوں نے فصلوں کو نقصان پہنچایا ہے اور اب انہوں نے وطن عزیز میں بھی دستک دے دی ہے

Locust Attack - Pic : INN
ٹڈیوں کا سب سے بڑا حملہ ۔ تصویر : آئی این این

کورونا جیسی مہلک وبا سے انسانی معاشرہ ابھی جوجھ ہی رہا ہے کہ اس نے تمام شعبۂ حیات پر مضر اثرات مرتب کئے ہیں۔ عالمی برادری کے پاس اس لا علاج بیماری کی کوئی دوا نہیں ہے۔ البتہ نفسیاتی علاج کے طورپر جسمانی فاصلے کو ہی دوا تصور کرلیا گیا ہے اور لاک ڈائون نافذ کردیا گیاہے۔ سچائی یہ ہے کہ اس لاک ڈائون سے ممکن ہے کہ جسمانی فاصلے جس کو سوشل ڈسٹینسنگ کا نام دیا گیا ہے، اس سے کورونا کے پھیلنے کو روکنے میں کامیابی ملی ہو لیکن اس لاک ڈائون نے انسانی معاشرے کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پوری دنیا ہتھیار ڈال چکی ہے کہ سال دو سال تک اس کورونا کے ساتھ ہی زندگی بسر کرنی ہے اور اس سے پیدا شدہ مسائل سے مقابلہ بھی کرنا ہے کیوں کہ تمام بڑی عالمی طبّی تنظیموں نے بالخصوص ڈبلو ایچ او نے یہ اعلامیہ جاری کردیا ہے کہ امروز فردا میں اس کی کوئی ویکسین نہیں بن پائے گی لہٰذا اب پوری دنیا میں یہ کوشش ہو رہی ہے کہ کس طرح کورونا کے ساتھ ہی زندگی بسر کرنے کی ترکیب نکالی جائے کیوں کہ زندگی جینے کیلئے مسلسل لاک ڈائون مزید دشواریاں پیدا کرے گا۔
 بہر کیف! ابھی کورونا سے نجات پانے کیلئے طرح طرح کے طریقہ کار پر غوروفکر ہی کیا جا رہاہے کہ کس طرح انسانی معاشرے کو اس مہلک بیماری سے نجات دلایا جائے؟ اسی اثنا ایک دوسری مشکل آن پڑی ہے کہ قدرتی ٹڈّیو ں کا حملہ شروع ہوگیا ہے اور یہ مسئلہ بھی عالمی ہے کہ کئی ممالک میں ٹڈّیوں نے فصلوں کو نقصان پہنچایا ہے۔اس کی وجہ سے کسانوں کی مشکلیں بڑھ گئی ہیں۔ اپنے وطن عزیز ہندوستان میں بھی ٹڈیوںنے دستک دے دی ہے۔ راجستھان، مدھیہ پردیش ، گجرات اور جھارکھنڈ کے ساتھ بہار کے کئی علاقوں میں اس کی آمد شروع ہوگئی ہے۔ یہ ٹڈیاں دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں ایکڑ میں لگی فصلوں کو چاٹ جاتی ہیں اور اس کا کوئی حتمی طریقہ کا ر بھی نہیں ہے البتہ روایتی طورپر ہمارے کسان کھیتوں میں ٹن کا ڈبہ پیٹ کر یا پھر مشعل کے ذریعہ ٹڈیوں کو اپنے کھیتوں سے باہر کرتے ہیں لیکن پھر یہ دوسری جگہ چلے جاتے ہیں اور وہاں فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
  سائنسی طورپر اس کا علاج صرف یہ ہے کہ جراثیم کش دوائوں کا چھڑکائو کیا جائے تاکہ وہ فصل کے پتوں کو چاٹ نہ سکیں  لیکن یہ بھی مشکل کام ہے کہ ایک کسان بار بار فصلوں پر اگر کیڑے مارنے کی دوا چھڑکتا ہے تو اس سے فصل کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اسلئے ہمارے یہاں جب کبھی ٹڈی کا مسئلہ درپیش ہوا ہے تو اس کیلئے بس یہی علاج سامنے آیا ہے کہ کسان اپنے طورپر کسی طرح ٹڈیو ں سے نجات پائے۔ یہاں اس حقیقت کا انکشاف بھی ضروری ہے کہ بین الاقوامی تنظیم فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) نے جنوری کے آغاز ہی میں انتباہ کیا تھا کہ ہندوستان میں ٹڈیو ں سے فصل کو کافی نقصان پہنچ سکتا ہے لیکن جس طرح کورونا کے انتباہ کو بہت ہی ہلکے طورپر لیا گیا اور جس کا نتیجہ ہے کہ ملک کورونا کی تباہی سے جوجھ رہاہے۔ اسی طرح اگر ٹڈی کی آمد کے پہلے ہی کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کیا جاتا اور کسانوں کو ہوشیار کیا جاتا تو ممکن ہے کہ اس وقت جو نقصان ہو رہاہے اس سے بچا جا سکتا تھا۔ بالخصوص راجستھان ، گجرات ، مدھیہ پردیش اور جھارکھنڈ کے ساتھ ساتھ اتر پردیش میں ٹڈیو ں کا زور زیادہ ہے اور اب وہ بہار کی طرف بھی بڑھ رہاہے۔ اگر چہ اس وقت کھڑی فصل کم ہے، اس کے باوجود بھی خطرہ اسلئے ہے کہ ٹڈی چھوٹے چھوٹے درختوں کو بھی نقصان پہنچا رہاہے بلکہ شاہراہ کے کنارے جو پیڑ پودے لگے ہوتے ہیں اسے بھی دیکھتے ہی دیکھتے چاٹ جاتے ہیں اور اکثر پیڑ پودے خشک بھی ہو جاتے ہیں۔ اسلئے زراعتی سائنسدانوں نے ان تمام ریاستوں کو اب ہوشیار کیا ہے کہ وہ ا س کیلئے کوئی ٹھوس قدم اٹھائیں۔
  ظاہر ہے کہ اب ٹڈیو ں کاحملہ شروع ہوگیا ہے اور اس کو جو نقصان پہنچانا تھا، اس نے پہنچا دیا ہے ، اگر ہمارے سائنسداں کی نیند ذرا پہلے ٹوٹی ہوتی تو ، بالخصوص جب بین الاقوامی تنظیموں نے متنبہ کیا تھا تو شاید اتنا خسارہ نہیں ہوتا۔ ریاست بہار کے وزیر زراعت پریم کمار نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ اور دیگر حکام سے رابطہ قائم کیا ہے کہ وہ اتر پردیش اور بہار کے سرحدی علاقوں میں مشترکہ طورپر ٹڈیوں سے بچائو کیلئے کام کریں کیوں کہ اتر پردیش اور بہار کا سرحدی علاقہ زراعت کے لحاظ سے بہت ہی زرخیز ہے اور ہمیشہ سے دونوں ریاستوں کے کسانوں کے مابین زراعت کے کاموں میں تعاون ہوتا رہا ہےلہٰذا بہار کی حکومت اس معاملے میں دوسری ریاستوں کے مقابلے بیدار نظر آرہی ہے کہ وہ ٹڈیو ںکی آمد سے پہلے ہی اس کیلئے پہل کر رہی ہے اور زراعتی سائنسدانوں کو بھی اس پر کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے  کیوں کہ ٹڈی پر اگر قابو نہیں پایا گیا تو ایک طرف کورونا سے لاک ڈائون کی وجہ سے ہمارے کسانوں کی معاشی حالت ناگفتہ بہ ہوگئی ہے اور اگر ٹڈی نے ان کی فصلوں کو نقصان پہنچایا تو اس کی کمر ہی ٹوٹ جائے گی۔
  ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ملک کی ترقی کی رفتار کو تیز گام بنانے میں ہماری زراعت کا کلیدی کردار ہے۔ بالخصوص اس وقت جب تمام چھوٹے بڑے صنعتی کل کارخانے بند ہیں تو زراعت ہی ایک ایسا شعبہ ہے جہاں بیروزگار یومیہ مزدوروں کو روزگار مل سکتاہے اور ملک کی جی ڈی پی کو بھی استحکام مل سکتا ہے۔  اسلئے اس وقت کورونا کے مسائل کے ساتھ ساتھ ان تمام چھوٹے بڑے مسائل پر بھی نگاہ رکھنی ہوگی جس سے ہمارے ملک کی جی ڈی پی متاثر ہونے والی ہے ۔ ایسا دیکھا جا رہاہے کہ کورونا کی وجہ سے دیگر مسائل کی ا ن دیکھی کی جا رہی ہے ۔ مثلاً شعبۂ صحت ہی کو دیکھا جائے تو دیگر بیماریوں کے متاثرین مریضوں پر توجہ کم دی جا رہی ہے بلکہ دیہی علاقوں میں تو نجی اسپتالوں نے ان تمام  مریضوں کو دیکھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔اسی طرح سرکاری اسپتالوں میں صرف کورونا کے مریضوں کو داخل کیا جا رہاہے اور انہیں کوارینٹائن کیا جا رہاہے جبکہ یہ موسم مختلف طرح کی موسمی بیماری کا ہے مگر اس پر کوئی خاص توجہ نہیں ہے ۔ جس کی وجہ سے عوام الناس پریشان حال ہے۔
  اب حکومت کی طرف ہی سے یہ ہدایت نامہ جاری کیا گیا ہے لیکن انتظامی سطح پر کورونا کے علاوہ دیگر بیماریوں کے مریضوں سے لا پرواہی برتی جارہی ہے اور جس کی وجہ سے اموات بھی ہو رہی ہے ۔ اسلئے کورونا کی آڑ میں دیگر مسائل کی ان دیکھی بھی ہمارے لئے مشکلیں پیدا کر رہی ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کورونا کے مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل کے حل کے لئے بھی اقدامات کئے جانے چاہئیں کیوں کہ کورونا امروز فردا میں کلّی طورپر ختم ہونے والا نہیں ہے۔ ایسے میں اگر دوسری بیماریوں کا بر وقت علاج نہیں ہوا تو اس سے اس کے مضر اثرات نمایاں ہوں گے۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس پر سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK