Inquilab Logo Happiest Places to Work

معاشیانہ: سنیما بزنس: ’بڑی اسکرین‘ کے قدر دان ’چھوٹی اسکرین‘ کے شائقین سے پریشان

Updated: June 18, 2025, 9:54 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

یہ جاننا مشکل ہے کہ سنیما گھروں میں لوگ فلم دیکھنے آتے ہیں یا آپس میں بات چیت کرکے، اسنیکس کھاکر اور اسمارٹ فونز کی اسکرینوں کو اسکرول کرکے لوٹ آتے ہیں۔

In an interview, Shah Rukh Khan has also admitted that people in cinema halls are busy with their smartphones instead of watching movies. Photo: INN.
ایک انٹرویو میں شاہ رخ خان بھی اعتراف کرچکے ہیں کہ سنیما ہالوں میں لوگ فلم دیکھنے کے بجائے اسمارٹ فون پر مصروف ہوتے ہیں۔ تصویر: آئی این این۔

’’تھیٹر ہوں یا سنیما گھر، یہ سنیما کیلئے کبھی بھی مقدس مقام نہیں رہے ہیں۔ یہ ہمیشہ سے افراتفری کی جگہ رہے ہیں۔ کہیں سے پاپ کارن کھانے کی آواز آتی ہے، کہیں سرگوشی سنائی دیتی ہے اور کبھی کبھار تو ناظرین آپس میں جھگڑنے لگتے ہیں۔ یہ وہ انسانی جگہیں ہیں جہاں ہمہ وقت گہما گہمی سی محسوس ہوتی ہے۔ مگر پھر فون کی آمد ہوئی۔ فلم دیکھنے کے بیچ میں فون کی اسکرین روشن کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شاعر اپنا کلام پیش کررہا ہو اور سامعین میں بیٹھا ایک شخص سگریٹ جلالے! یہ فنکار اور اس کی تخلیق کی بے ادبی ہے۔ ‘‘ چند دنوں قبل ایک انٹرویو میں ہندوستان کے مشہور و معروف فلمساز مہیش بھٹ نے ان خیالات کا اظہار کیا۔ 
لوگوں کی زندگی میں جب سے سستے انٹرنیٹ، اسمارٹ فونز اور ان پر دستیاب بے شمار مشمولات کی بھرمار ہوئی ہے، لوگوں کی توجہ تفریح کے دیگر اور روایتی ذرائع سے ہٹ چکی ہے۔ فلم، تھیٹر، سرکس، نکڑ ناٹک اور مشاعروں کے قدر دانوں کی تعداد ڈرامائی طور پر کم ہوئی ہے۔ ٹی وی شائقین کی توجہ دوسری جانب مبذول ہوچکی ہے، اور محلوں کے میدان اور پارکس بھی ویران ہوگئے ہیں۔ انسانی مٹھی میں سما جانے والے اسمارٹ فون جیسے چھوٹے آلے نے تفریح کے درجنوں ذرائع کو متاثر کیا ہے۔ وبائی حالات کے بعد سے سنیما گھروں کا شعبہ بھی جدوجہد کررہا ہے۔ ہندوستانی سنیما کی بڑی بڑی فلمیں فلاپ ہورہی ہیں جبکہ چنندہ فلمیں ایسی ہیں جو کاروبار کے ریکارڈ توڑ رہی ہیں۔ سنیما گھروں کا کاروبار متاثر ہونے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے اہم ترین تھیٹروں میں فلموں کی ریلیز کے ۶؍ سے ۷؍ ہفتوں بعد او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر فلموں کی ریلیز ہے۔ 
ایک دوسری وجہ، ناظرین کی فلموں کے تئیں کم ہوتی ہوئی دلچسپی ہے۔ فلمیں اب بھی تفریح کا ذریعہ ہیں جنہیں دیکھنے کیلئے لوگ سنیما گھروں کا رُخ بھی کرتے ہیں مگر فلم شروع ہونے کے بعد ان کی توجہ کچھ دیر کیلئے تو ’’بڑی اسکرین‘‘ پر رہتی ہے لیکن پھر ’’چھوٹی اسکرین‘‘ پر منتقل ہوجاتی ہے۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ کسی دلچسپ منظر کے بڑی اسکرین کے آنے پر نظریں اٹھتی ہیں اور پھر ننھی اسکرین میں گم ہوجاتی ہیں۔ اس دوران سنیما کے شوقین افراد کو تاریکی میں ڈوبے ہال میں مختلف نشستوں سے جب روشنی نظر آتی ہے تو وہ مضطرب ہوجاتے ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی نظریں بڑی اسکرین سے ہٹ جاتی ہیں۔ یہ انسانی نفسیات ہے کہ جب اس کے پاس توجہ بھٹکانے والی مختلف چیزیں ہوں تو اس کا ذہن کسی ایک چیز پر مرکوز نہیں ہوتا۔ 
حال ہی میں جاری ہونے والی ٹیلی گراف کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ’سنیما لورز‘ کی ایک بڑی تعداد نے تھیٹروں میں جانا صرف اسلئے ترک کردیا کہ وہاں موجود دیگر لوگوں کی ’حرکتوں ‘ سے انہیں کوفت ہوتی ہے اور فلم دیکھنے میں لطف نہیں آتا۔ ایسے لوگوں میں سنیما انڈسٹری کے بڑے نام شامل ہیں۔ ان میں بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کے بڑے فلمساز بھی ہیں۔ مہیش بھٹ کے علاوہ ’ٹیکسی ڈرائیور‘ اور’شٹر آئی لینڈ‘ جیسی مشہور فلموں کے خالق مارٹن اسکورسیزی، انیرودھ چودھری، اونیر، اننت مہادیون اور امیت اگروال جیسی درجنوں مشہور شخصیات نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے ناظرین کی ’پریشان کرنے والی حرکتوں ‘ کی بناء پر تھیٹر میں فلمیں دیکھنا بند کردیں۔ فلمسازوں کیلئے اب یہ جاننا مشکل ہوگیا ہے کہ سنیما گھروں میں لوگ ٹکٹ خرید کر فلم دیکھتے ہیں یا آپس میں بات چیت کرکے، اسنیکس کھاکر اور اسمارٹ فونز کی اسکرینوں کو اسکرول کرکے لوٹ آتے ہیں۔ اسی رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ تقریباً ۲۵؍ سے ۳۰؍  فیصد ایسے افراد ہیں جو متذکرہ وجوہات کی بنیاد پر تھیٹر نہیں جاتے اور فلم کے او ٹی ٹی پر ریلیز ہونے کا انتظار کرتے ہیں، یا، پھر سرے سے فلم ہی نہیں دیکھتے۔ 
ایک پرانے انٹرویو میں شاہ رخ خان بھی اعتراف کرچکے ہیں کہ سنیما ہالز میں لوگ فلم دیکھنے کے بجائے اسمارٹ فون پر مصروف ہوتے ہیں۔ ایسے میں فلم کا اچھا منظر یا مکالمہ ان سے چھوٹ جاتا ہے، اس طرح وہ پوری فلم پر توجہ دیئے بغیر ’رد عمل‘ کا اظہار کرتے ہیں کہ فلم اچھی نہیں بنی۔ آپ کسی ایسے شخص کے تجزیے پر کیسے اعتماد کرسکتے ہیں جو فلم بنانے یا ایک منظر کو بہترین بنانے کی پیچھے کی محنت کو محسوس ہی نہیں کرتا اور بڑی بے باکی سے ردعمل کا اظہار کردیتا ہے؟ فلم فیسٹیولز میں سنیما کی اب بھی قدر ہے۔ وہاں موجود ہر شخص فلم کو دیکھتے ہوئے اس میں ڈوب جاتا ہے اور پھر ردعمل کا اظہار کرتا ہے مگر سنیما ہالز میں لوگ بیک وقت مختلف کام کرتے نظر آتے ہیں۔ فلموں کے نہ چلنے کی ایک وجہ پائریسی اور اہم مناظر کے ریلز اور شاٹس کی شکل میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونا بھی ہے۔ جب فلم کے اہم مناظر لیک ہوجاتے ہیں تو اسے دیکھنے کیلئے لوگوں کا جوش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ ریلز اور شاٹس بنانے والوں کو فلم میں دلچسپی نہیں ہوتی مگر وہ فلم کے حقیقی قدر دانوں کے تجربے کو متاثر ضرور کرتے ہیں۔ 
فلموں کی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرنے کا سارا الزام غیر سنجیدہ سنیما شائقین پر نہیں عائد کیا جاسکتا۔ ان حالات میں فلمسازوں کو ناظرین کو اسکرین پر مصروف رکھنے کیلئے مختلف محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے جن میں کہانی بیان کرنے کا انداز اور وژول تجربے کو مزید بہتر کرنا شامل ہے۔ اس کی بہترین مثال ’’اوتار: دی وے آف واٹر‘‘ ہے جس نے چہار جانب سے پذیرائی صرف اسلئے حاصل کی کہ اس نے ٹیکنالوجی اور کہانی بیان کرنے کے انداز کو بہترین انداز میں ناظرین کے سامنے پیش کیا تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK