اس طرح کی شادیوں کے ہال میں آپ کو پکوان بھی ملیں گے اور مہندی لگانے والے اسٹال بھی، گجرے لگائے جائیں گے اور آپ پان سے بھی لطف اندوز ہوسکیں گے۔
EPAPER
Updated: July 20, 2025, 1:08 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
اس طرح کی شادیوں کے ہال میں آپ کو پکوان بھی ملیں گے اور مہندی لگانے والے اسٹال بھی، گجرے لگائے جائیں گے اور آپ پان سے بھی لطف اندوز ہوسکیں گے۔
ہندوستانی شادیوں کو دنیا کی مہنگی ترین شادی قرار دیا جاتا ہے جہاں ’اصل تقریب‘ سے کئی دنوں پہلے ہی رسمیں شروع ہوجاتی ہیں جن پر بے دریغ رقوم خرچ کی جاتی ہیں۔ بجاج فائنانس سروسیز کی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ ایک عام ہندوستانی، شادی پر کم از کم ۵؍ لاکھ روپے خرچ کرتا ہے۔ شادیوں کے سیزن میں ہندوستانی معیشت کو زبردست فائدہ پہنچتا ہے۔ رائٹ ریسرچ کے مطابق ہندوستان کی ’ویڈنگ انڈسٹری‘ (شادی کی صنعت) جی ڈی پی میں ۵؍ لاکھ کروڑ روپے (۷۰؍ بلین ڈالر) کا اشتراک کرتی ہے اور یہ ہر سال ۷؍ سے ۸؍ فیصد کے ساتھ ترقی کررہی ہے۔ اس صنعت سے ملک کے ۱۰؍ ملین افراد کا روزگار جڑا ہے۔
’شادی‘ لفظ کے ساتھ ہی ذہن میں سب سے پہلے ’دلہا اور دلہن‘ کا تصور اُبھرتا ہے۔ شادی والے دن دلہا، دلہن، ان کے والدین اور رشتہ داروں نیز دوستوں اور دیگر عزیزوں سے ملاقات دل و دماغ پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے، لیکن اگر آپ کسی ایسی شادی کا حصہ بنیں جہاں دلہا، دلہن، ان والدین اور رشتہ دار نہ ہوں تو؟ کیا ایسی شادی ممکن ہے؟ اہم سوال یہ ہے کہ کیا اسے شادی قرار دیا جاسکتا ہے؟ اب آپ اسے شادی کہیں یا نہ کہیں، یا، اسے ’پارٹی‘ یا ’تھیم پارٹی‘ کہہ لیں مگر ہندوستان میں ایسی شادیوں نے زور پکڑلیا ہے۔
ممبئی، دہلی، بنگلور، حیدرآباد، کولکاتا اور چنئی جیسے میٹروں شہروں کے علاوہ ٹائر وَن شہروں میں بھی ’فیک ویڈنگ‘ (جعلی شادی) کا کلچر عام ہورہا ہے۔ جس طرح آپ کسی شادی میں نک سک سے تیار ہوتے ہیں اور لباس سے لے کر جوتوں اور خوشبو تک کا خیال رکھتے ہیں، ٹھیک یہی فیک ویڈنگ میں شامل ہونے والے افراد بھی کرتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ فیک ویڈنگ میں سب کچھ ہے صرف دلہا دلہن اور رشتۂ ازدواج سے منسلک ہونے والی رسمیں نہیں ہیں۔ یہاں کوئی کسی کی مانگ میں سیندور نہیں بھرتا نہ آگ کے گرد پھیرے لئے جاتے ہیں، لیکن تیز موسیقی پر سیکڑوں افرا دکے تھرکتے قدم، گجروں اور مہندی کی خوشبو، اشتہا انگیز پکوان، حتیٰ کہ شادی کے ہال کی طرح سجاوٹ، سب کچھ ۱۰۰؍ فیصد شادی کا سماں پیش کرتے ہیں۔ بارات بھی آتی ہے مگر دلہا نہیں ہوتا لیکن رقص کرنے والے سیکڑوں باراتی ہوتے ہیں۔
اِن جعلی شادیوں کا انعقاد کیسے ہوتا ہے؟ متذکرہ شہروں میں ایسے درجنوں کلب، ویڈنگ پلانرس یا بینکوئٹس ہیں جو فیک ویڈنگ منعقد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’آیئے اور خوب موج مستی کیجئے۔ انٹری فیس فی شخص (اوسطاً) ۱۴۹۹؍ روپے۔ ‘‘ یہ ایک فلم یا کسی تھیٹر وغیرہ میں جانے جتنی انٹری فیس ہے۔ فیک ویڈنگ کے ہال میں آپ کو پکوان بھی ملیں گے اور مہندی لگانے والے اسٹال بھی، گجرے لگائے جائیں گے اور آپ پان سے بھی لطف اندوز ہوسکیں گے۔ متعدد کلبس میں شادی کی ’تھیم پارٹیز‘ بھی ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر چند ماہ پہلے ہی پروموشن شروع ہوجاتا ہے اور خواہشمند افراد انٹری کروا کر’شادی‘ میں شرکت کرتے ہیں۔
فنانشیل ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق فیک ویڈنگ میں ایسے لوگ شرکت کرتے ہیں جو روزمرہ کے معمولات سے اکتاہٹ کا شکار ہوگئے ہوں، کسی شادی میں شرکت کئے ہوئے کافی وقت بیت گیا ہو، یا، محض تفریح کیلئے اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ہندوستان میں جون، جولائی اور اگست، یہ۳؍ مہینے ایسے ہیں جب شادیاں نہیں ہوتیں یا بہت کم ہوتی ہیں، ایسے میں ’آف سیزن (فیک) ویڈنگ‘ کا کانسپٹ تیزی سے قبول کیا جا رہا ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ اب پورا سال ’شادی‘ ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر بعض صارفین کا کہنا ہے کہ شادی جیسی مقدس رسم کو مذاق بنانا درست نہیں ہے لیکن بیشتر کا خیال ہے کہ یہ کاروبار کا ایک نیا اور انوکھا ماڈل ہے جس میں ’رشتہ‘ نبھانے کا دباؤ نہ دلہے پر ہے نہ دلہن پر۔ دہلی کی ایونٹ کمپنی ’جمعہ کی رات‘ کے بانی کہتے ہیں کہ ’’یہ جین زی کا ٹرینڈ نہیں ہے بلکہ اس میں ہر عمر کے افراد شرکت کرتے ہیں۔ ہماری پہلی تقریب میں ۳۵۰؍ مہمانوں نے شرکت کی تھی، دوسری بار ۴۵۰؍ اور جو آخری ’شادی‘ ہوئی اس میں ۶۰۰؍ مہمان آئے تھے۔ ‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے ’’فیک ویڈنگ‘‘ یا ’’ویڈنگ‘‘ نہیں بلکہ ’’لائف اسٹائل اور تفریحی پروگرام‘‘ قرار دیا جارہا ہے۔ کانٹینٹ کریئٹرس اور برانڈز کیلئے یہ شادیاں کافی اہمیت کی حامل ہوگئی ہیں جہاں انہیں آن لائن کانٹینٹ بنانے اور کمپنیوں کو اپنی مصنوعات کی تشہیر کا موقع ملتا ہے۔ اس قسم کی ’’عام شادی‘‘ پر ۱۵؍ سے ۲۰؍ لاکھ روپے تک خرچ آتا ہے جبکہ ’’لگژری (فیک) ویڈنگ‘‘ کا بجٹ ۵۰؍ لاکھ روپے تک ہوتا ہے۔ ’’فیک ویڈنگ‘‘ ہے تو عجیب۔ آپ اسے چاہے جو کہہ لیں مگر ایک بات تو یقینی ہے کہ اگلے کسی رجحان سے پہلے ملک کی معیشت میں اس کا حصہ اتنا تو ضرور ہوجائے گا کہ اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ لوگ اب کسی بھی صورتحال سے ’’فرار ہونے کا راستہ‘‘ تلاش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ٹرینڈز بدلتے رہتے ہیں اور لوگ آسانی سے ان کا ’’شکار‘‘ بنتے رہتے ہیں۔