Inquilab Logo

کیمپس میں بھائی چارگی کا ماحول بنائے رکھیں

Updated: February 16, 2020, 4:16 PM IST | Mubarak Kapdi

ہمیں یہ یاد رکھناچاہئے کہ کیمپس میں صرف کریئرسازی نہیں بلکہ کردار سازی بھی ہونی چا ہئے تا کہ دوسری قوم کے طلبہ بھی آپ کے کردار کے گرویدہ بن جائیں اور آپ کے ساتھ محبت سے پیش آئیں

کیمپس میں  بھائی چارگی کا ماحول بنائے رکھیں ۔ تصویر : آئی این این
کیمپس میں بھائی چارگی کا ماحول بنائے رکھیں ۔ تصویر : آئی این این

 ظلم و جبر کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اجالے کی چند کرنیں ہمیشہ نظر آتی  ہیں۔تعصب و دلآزاری سے پُر ماحول میں کئی لوگ آپسی بھائی چارہ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا جاپ کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ہمارا آج بھی یہ خیال ہے کہ اس ملک کی بہت بڑی اکثریت سیکولر  اور پر امن ہے۔ یہاں صرف دکانداروں کو نفرت کا کاروبار کرنا ہے۔کس نے سوچا تھا کہ شہریت ترمیمی کے کالے قانون کے خلاف سارے مذاہب و فرقے ایک ہو جائیں گے۔اس اندھے قانون کی مخالفت میں چند یونیورسٹیوں کے طلبہ نے ایکتا کی ایک جوت جلائی تھی۔اس کے بعد پھر خواتین نے مورچہ سنبھالا اور بڑی خوش اسلوبی سے سنبھالا۔
 اب ہمارے طلبہ کو چاہئے کہ وہ کیمپس میں بھی بھائی چارگی کے اس ماحول کو برقرار رکھیں بلکہ جتنی محنت وہ یونیورسٹی  میں ریسرچ  پر کرتے ہیں، اتنی ہی مشقت وہ اس مضمون پر بھی کریں جس کا نام ہے،بھائی چارگی۔ وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس ملک کے موجودہ حکمرانوں کی یونیورسٹی کے مضامین ہیں  نفرت، شدّت، دروغ گوئی، ڈھٹائی، دلآزاری اور فرقہ پرستی۔چند روز قبل بھی دہلی کے انتخابات میں ملک کے حکمرانوں کا پسندیدہ مضمون ’پاکستان‘ ہار گیا اور ایک عام آدمی کا مضمون ’ہندوستان‘ جیت گیا۔دوستو! اس ملک میں صرف وہاٹس ایپ یونیورسٹی کے بندھوا مزدوروں کو نفرت کا کاروبار پسند ہے۔عوام امن پسند  ہیں ،ایسے میں طلبہ اس ماحول کو برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
 طلبہ نے دیکھ لیا ہے کہ این آر سی وغیرہ تحریک میں  دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی ساتھ میں لیا جائے تو ایک بڑا انقلاب آگیا۔اب اسی نہج پر ہمارے طلبہ کو بھی اپنی سوچ میں وسعت دینی ہوگی۔ کیمپس میں ہمارے طلبہ کی تنظیموں میں جو جوشیلے اور جذباتی عناصر ہیں ان کی کاؤنسلنگ کرنی ہوگی ورنہ ان سے دوری برتنی ہوگی کیونکہ سبھوں کو یاد ہے کہ انتہائی نیک، صالح اور محنتی طلبہ کی ایک تنظیم پر حکومت ِ وقت کا عتاب ٹوٹ پڑا جب اس میں ’بھیج کوئی محمود....‘ کے پوسٹر لگانے والے چند عناصر گھس گئے ۔آج بھی ہمارے ہاں طلبہ کی ایک دو تنظیمیں متحرک ہیں جن کا ہدف ہوتا ہے، صالح کردار طلبہ کی تشکیل ! وہ تنظیمیں درس قرآن و حدیث ، فہم قرآن، تزکیہ نفس، کردار سازی اور کریئر سازی جیسے اہم موضوعات پر مسلسل اجلاس منعقد کرتے رہتے ہیں ۔ اب ان طلبہ کو بھرپور نظر رکھنی  ہوگی کہ کہیں ان کی صفوں میں کچھ کالی بھیڑیں شامل نہ ہوجائیں۔ہمارے طلبہ کو اب اس ایجنڈے پر بھی کام کرنا ہے کہ ہمارے محلوں کی مساجد کے دروازے سب کیلئے کھلے رہیں۔ اس میں تعارف قرآن، تعارف دین اور اسلام پریچے جیسے پروگرام برادران وطن کیلئے منعقد ہوتے رہیں جس سے آپسی غلط فہمیاں دور ہوں۔نچلی ذات کے لوگوں کو مساجد میں دعوت دیں اور ان کے ساتھ ایک ہی تھالی میں ہم کھانا کھائیں۔ آج کی حکومت پچھڑی ذاتوں کی کھلی دشمن ہے اور ان کے ریزرویشن کو ختم کرنے کیلئے منظم کوشاں ہے، اس لئے ہمارے طلبہ کو چاہئے کہ او بی سی طلبہ کو بھی ہر جدو جہد میں اپنے ساتھ رکھیں۔
 نوجوانو! آج بدبختی سے اس ملک کی عنان حکومت اس ’پریوار‘ کے پاس ہے جو گوڈسے وادی یعنی ’گولی مارو‘ کلچر میں یقین رکھتی ہے۔ آپ آج ہماری کئی یونیورسٹیوں میں گاندھین فلسفہ میں بی اے، ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی تک کر سکتے ہیں پتہ نہیں اب یہ مضامین یہاں باقی رہیں گے یا نہیں کیونکہ ان حکمرانوں کا حتمی ہدف یہ ہے گوڈسے کو راشٹر پتا کا درجہ دیا جائے، یہاں تک کہ اس کی تصویر اس ملک کی کرنسی پر چھپنے لگے ۔یہ ان کیلئے اس وقت ممکن ہوگا جب اس ملک میں خانہ جنگی چھڑ جائے۔اسلئے طلبہ کو اب زیادہ تحمل سے کام لینا ہے۔اسلئے بھی کہ موجودہ حکومت عنقریب اسکولی نصاب میں ’دیش بھکتی‘ نام کا ایک مضمون متعارف کرانے کا پورا منصوبہ بنا چکی ہے۔اس کا مقابلہ کیسے کریں گے، اس  بابت ان کالموں میں آئندہ گفتگو کی جائے گی۔فی الوقت کیمپس میں رواداری برقرار رکھنے کیلئے طلبہ کا رویہ کیسا ہو، اس پر غور کرتے ہیں۔    
دین کے تعلق سے کو ئی غیر مُسلم طالب علم یا اُستاد کتنی ہی اشتعال انگیز بات کرے آپ قطعی مشتعل نہ ہوں ( دل میں صرف یہ سوچیں کہ وہ ایسی بات ا سلئے کر رہے ہیں کہ وہ نہیں جانتے کہ حق کیا ہے اور اس کی واقفیت نہ ہونے کی ایک وجہ میں خود ہوں ، کیونکہ اُسے میں نے حقیقت نہیں بتائی ) آج ہمارے نوجوانوں کو اشتعال دلانے کیلئے سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم بڑی آسانی سے اور مفت میں استعمال ہو رہا ہے۔شر پسندوں کو معلوم ہو چکا ہے کہ اگر سوشل میڈیا میں پیغمبرؐ اور صحابہ کرام وغیرہ کی تضحیک کی جائے تو یہ قوم سڑک پر اُتر جائے گی۔ہم ہمارے نوجونوں کو یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ خود قرآن سورہ  یاسین میں کہتا ہے کہ ہر دور میں پیغمبروں کا مذاق اڑایا گیا ہے لہٰذا ’کارٹون سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘۔اب اسے کیا کیجئے کہ ہمارے دین سے متعلق غور و فکرہم سے زیادہ بعض غیر مسلم کیا کرتے ہیں ۔اس سوچ و فکر کے نتیجے میں ۱۸۹۱ء کے بنارس میں منعقدہ وشو ہندو سمیلن میں مشہور مفکر سوامی وویکا نند نے ہندو مت کو ماننے والے لاکھوں کے مجمع سے کہا تھا کہ دین اسلام کبھی ختم نہیں ہو سکتا کیوں کہ ان کی آسمانی کتاب میں ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے!
  کالج میں کسی بھی غیر مُسلم کے عقیدے پر حملہ نہ کریں ، فقرے نہ کسیں  اور مذاق نہ اُڑائیں کیونکہ ایک بات تو طے ہے کہ ان جملہ کا موں کے باوجود بھی آپ کو کو ئی کا میابی نہیں ملے گی اور کتاب مبین میں اللہ تعالیٰ کی اس سلسلے میں رہنمائی  ہے کہ پھر نادانی میں وہ آپ کے دین کا مذاق اڑائیں گے۔ 
  غیر مُسلموں کے اسلام کے تعلق سے غلط فہمی پر مشتمل سوالات کی ایک فہرست تیار کر لیجئے ۔ بہ مشکل یہ ۲۰؍ تا ۲۵؍ سوالات ہیں جو بر سہا برس سے غیر مُسلم ہم سے کر تے آرہے ہیں ۔ اور ایسا کوئی سوال جب وہ ہم سے کرتے ہیں تو دل ہی دل میں مطمئن ہو کر ’اے اللہ تو نے مجھے دعوتِ حق کا موقع دیا‘ یہ کہنے کے بجائے اس غیر مُسلم کو اپنا دُشمن سمجھنے لگتے ہیں اور گھر پر آکر بڑے بو ڑھوں سے ہم یہ شکایت کر تے ہیں کہ ہمارے کلاس کے طلبہ ، اسلام پر حملہ کر رہے ہیں ۔
  ہمارے طلبہ اسلام ودیگر مذاہب کی مشترکہ تعلیمات کا مطالعہ کریں،  یہ کر نے کیلئے اُنہیں انجینئر نگ یا میڈیسن کے کسی ایک مضمون کیلئےایک چوتھائی تیاری کیلئے درکار وقت ہی لگے گا۔ یعنی کسی سرمایا گرما کی چھٹیوں کے صرف۱۵؍ دنوں میں یہ بنیادی مشترک باتیں آپ کو معلوم ہو سکتی ہیں ۔
اپنی کسی جوشیلی تقریر یا رنگین تحریر کے بجائے غیروں کو اپنے کردار و عمل سے جیتنے کی کوشش کیجئے ۔ہر کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ آپ کی تحریر یا تقریر کیسی ہے بلکہ یہ کہ آپ کا عمل کیسا ہے۔
 کیمپس میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے ہمارے طلبہ کے اس لائحہ عمل کے مثبت نتائج یقینی ہیں ۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ صرف کریئرسازی نہیں بلکہ کردار سازی بھی آپ کے کیمپس میں ہونی چا ہئے تا کہ دوسری قوم کے طلبہ بھی آپ کے کردار کے گرویدہ بن جائیں :  
  بڑھتی عمر کے ساتھ نوجوانوں کے ہارمونز (خصوصاً ایسٹروجن) میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں اور ان ہارمونز پر قابو ہونا صحت مند زندگی، سکون قلب اور اللہ کی خوشنودی کیلئے ضروری ہے۔
 ان جسمانی و ذہنی مسائل کا سائنس کے پاس کوئی علاج نہیں سوائے چند گولیوں اور ٹیبلٹ کے۔ البتہ دین کی روشنی میں ضبط نفس ممکن ہے۔
  سن بلوغت میں ذہن کو مکمل مرکوز کرنے یعنی فوکس کرکے پڑھائی کرنے میں دقت آتی ہے۔ طلبہ اس میں عارضی اور کبھی مستقل ناکامی سے بھی دوچار ہونے لگتے ہیں۔ان معاملات میں دینی تعلیمات کا بڑے احسن طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
 کئی طلبہ بذات خود اچھے کردار کے مالک ہوتے ہیں مگر دوستوں کی غلط صحبت میں وہ بہک اور بھٹک جاتے ہیں البتہ اگر طلبہ اپنے لئے دین ہی کو اساس بنائیں تو ماحول اور دوست و احباب اپنے شر انگیز منصوبوں میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔
 آج بدبختی سے ہمارے کیمپس پرنشہ اور ڈرگس کا شکنجہ بھی کستا جا رہا ہے۔ نوجوان نسل اس لت میں عافیت و سکون حاصل کرتی بھی نظر آرہی ہے۔ دین سے وابستگی نوجوان نسل کو تباہ ہونے سے بچا سکتی ہے، اس کا پیغام دوسری قوموں تک بھی پہنچنا ضروری ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK