Inquilab Logo

من کی بات اور حالات

Updated: January 29, 2020, 10:40 AM IST | Editorial

گزشتہ اتوار کو ’’من کی بات‘‘ کے تحت وزیر اعظم کا قوم سے ماہانہ خطاب اب تک کا ۶۱؍ واں خطاب تھا۔ اُمید کی جارہی تھی کہ ملک بھر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر وہ کسی ردعمل کا اظہار کریں گے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ کے مصداق احتجاج پر ایک لفظ بھی وزیر اعظم کی تقریر میں جگہ نہیں پاسکا۔

من کی بات ۔ تصویر : آئی این این
من کی بات ۔ تصویر : آئی این این

 گزشتہ اتوار کو ’’من کی بات‘‘ کے تحت وزیر اعظم کا قوم سے ماہانہ خطاب اب تک کا ۶۱؍ واں خطاب تھا۔ اُمید کی جارہی تھی کہ ملک بھر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر وہ کسی ردعمل کا اظہار کریں گے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ کے مصداق احتجاج پر ایک لفظ بھی وزیر اعظم کی تقریر میں جگہ نہیں پاسکا۔ اسی دن، ملک کی دیگر ریاستوں اور علاقوں میں ہونے والے مظاہروں کے ساتھ ساتھ ایک عظیم اور تاریخی مظاہرہ کیرالا میں ہوا جہاں ۶۲۰؍ کلومیٹر کے رقبے پر انسانی زنجیر بنائی گئی۔ ۶۲۰؍ کلومیٹر کوئی معمولی رقبہ نہیں ہے۔ یہ انسانی زنجیر کاسر گوڈ ( شمالی کیرالا) سے شروع ہوکر کالیاکوولائی (جنوبی کیرلا) تک دیکھی گئی۔ اس کا اہتمام کرنے والی ایل ڈی ایف کا دعویٰ ہے کہ ۶۰؍ تا ۷۰؍ لاکھ لوگ یکجا ہوئے اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر اس احتجاج کا حصہ بنے۔ بتایا جاتا ہے کہ سی پی ایم کے لیڈر ایس رام چندرن پلائی، کاسر گوڈ میں اس زنجیر کی پہلی کڑی جبکہ کالیاکوولائی میں اس کی آخری کڑی ایم اے بے بی نامی ایک شخص تھے۔ ۶۰۔۷۰؍ لاکھ لوگوں میں ہر فرقے،  طبقے اور عمر کے لوگ تھے جن کی شرکت نے اس احتجاج کو تاریخ کا حصہ بنادیا۔
 واضح رہے کہ یہ اب تک کی سب سے طویل انسانی زنجیر نہیں تھی۔ اس سے قبل بہار میں شراب بندی کی حمایت میں ۱۱؍ ہزار سے زائد کلومیٹر کے رقبے پر پھیلی ہوئی انسانی زنجیر بنی تھی (۲۰۱۷ء) جبکہ بہار ہی میں جہیز اور بچپن کی شادی کے خلاف بنائی گئی انسانی زنجیر ۱۳؍ ہزار سے زائد کلومیٹر پر محیط تھی (۲۰۱۸ء)۔ گزشتہ اتوار کو بھی انسانی زنجیر بنائی گئی جو اب تک کی تیسری اور سب سے بڑی تھی جسے ’’جن جیون ہریالی تحریک‘‘ نام دیا گیا۔ دعویٰ کیا گیا کہ اس میں ۵؍ کروڑ لوگ شریک ہوئے جن کے سامنے کیرالا کی ۶۰۔۷۰؍ لاکھ کی بڑی تعداد بھی کوئی وقعت نہیں رکھتی مگر کیرالا میں ہونے والا مظاہرہ سی اے اے کے خلاف عوامی جذبات کے نقطۂ نظر سے زیادہ بامعنی قرار دیا جائیگا۔ نتیش نے اس وقت ’’جن جیون ہریالی‘‘ کی چنتا کیوں کی، یہ نتیش ہی بتاسکتے ہیں البتہ ہماری رائے ہے کہ انہوں نے اپنے دوہرے معیار سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے یہ عزم کیا جبکہ پورا ملک سی اے اے کے واپس لئے جانے کا عزم کئے ہوئے ہے۔ 
 خیر بات ہورہی تھی ’’من کی بات‘‘ کی۔ اتنے مظاہروں، جن میں کئی شاہین باغ شامل ہیں، کو نظر انداز کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کئی دوسرے موضوعات کا احاطہ کیا جو اپنے آپ میں غیر اہم نہیں مگر موجودہ حالات میں ضرورت تھی کہ شہریت ترمیمی قانون پر بھی اظہار خیال کیا جاتا خاص طور پر اسلئے کہ اس سلسلے میں جو باتیں وزیر اعظم مودی نے کہی ہیں وہ وزیر داخلہ امیت شاہ کے بیانات سے مختلف ہیں اور امیت شاہ نے جو کچھ کہا وہ مودی کی تقریر کے مشمولات سے الگ ہے۔ وزیر اعظم نے دوران خطاب، تشدد سے گریز کا قیمتی مشورہ بھی دیا اور کہا کہ کوئی مسئلہ کسی دوسرے مسئلہ کے ذریعہ ختم نہیں کیا جاسکتا لہٰذا ضروری ہے کہ ہر مسئلہ کے حل کیلئے بات چیت کا سہارا لیا جائے مگر اُن کی حکومت کا طریق کار یہ ہے کہ اُس نے سی اے اے مخالف مظاہرین سے آج تک رابطہ بھی قائم نہیں کیا۔ جہاں تک تشدد سے گریز کا سوال ہے، سرزمین ہند اور یہاں کے عوام اہنسا کیلئے عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ اسی لئے ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ اُن کا مشورہ کس کیلئے ہے۔ کیا جے این یو پر حملہ کرنے والوں کیلئے ہے، یوپی پولیس کیلئے ہے جس نے پُرامن مظاہرین کو بلااشتعال اپنے غیظ و غضب کا نشانہ بنایا، یا، اُن لیڈروں کیلئے ہے جو آئے دن ’’زبانی تشدد‘‘ کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟ یا ان کا اشارہ مظاہرین کی طرف ہے؟ اگر یہ ہو تب بھی کون نہیں جانتا کہ تشدد کی وارداتیں اُن ریاستوں میں رونما ہوئیں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK