Inquilab Logo

مولاناکلب صادق کو سچے خیرخواہ کے طور پر یاد کیا جا ئے گا

Updated: November 29, 2020, 9:16 AM IST | Jamal Rizvi

مسلکی اختلاف کے حوالے سے لکھنؤ کو ایک حساس شہر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انھوں نے اسی شہر میں رہتے ہوئے اکثر ایسے نازک موقعوں پر اپنی دانشمندی اور دور اندیشی کا ثبوت دیا جن مواقع پر اکثر لوگ جذبات کی رہ میں بہہ کر مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔اس شہر میں جب کبھی ایسا کوئی نازک موقع آیا، انتظامیہ کی نظر مولانا کلب صادق کی جانب اٹھی اور انھوں نے اپنے حسن تدبر سے شہر کی پُرامن فضا کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا

Maolana Kalbe Sadiq
مولانا کلب صادق

اس ملک کے مسلمانوں کی ترقی اور خوشحالی کیلئے کام کرنے والوں کے درمیان مولانا کلب صادق کا نام نمایاںحیثیت رکھتا ہے۔ منگل کی رات دس بجے انھوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ مولانا کلب صادق کا شمار اس ملک کے ممتاز علمائے دین میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اس ملک کے مسلمانوں کو سماجی ، تعلیمی اور معاشی اعتبار سے متمول اور خوشحال بنانے کے سلسلے میں جو کام کئے، وہ انھیں ایک عالم دین کے علاوہ قوم اور معاشرے کے ایک سچے خادم کی حیثیت عطا کرتے ہیں۔مولانا کلب صادق نے اس ملک کے مسلمانوں کو ایک مرکز پر متحد ہو کر اپنی سماجی اور معاشی حالت کو بہتر بنانے پر ہمیشہ زور دیا۔ ان کی شخصیت بہ یک وقت ایسی کئی صفات کی حامل تھی جو انسانیت کے فروغ اور سماجی کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ ایک معتبر اور ممتاز عالم دین، ایک بہترین خطیب اور ایک سنجیدہ سماجی مفکر کے طور پر ہمیشہ یاد کئے جائیں گے۔
 اس ملک کے مسلمانوں کے درمیان گزشتہ کچھ دہائیوں سے مسلکی اختلافات نے جو شدت اختیار کر لی ہے اس کے سبب نہ صرف مذہبی امور میں پیچیدگی پیدا ہوئی ہے بلکہ ان اختلافا ت نے ہندوستانی مسلانوں کی سماجی اور معاشی ترقی کی راہ کو بھی بڑی حد تک مسدود کر دیا ہے۔ مولانا کلب صادق مرحوم نے اپنی پوری زندگی ان اختلافات کو ختم کر کے ہندوستانی مسلمانوں کو ایک ایسے مرکز اتحاد پر لانے کی کوشش کی جو اُن کی سماجی اور معاشی صورتحال کو بہتر بنا سکے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے انھوں نے تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کو لازمی قرار دیا۔ وہ ہندوستانی مسلمانوں کو جدید علوم کی اہمیت اور افادیت سے ہمیشہ آگاہ کرتے رہے۔ یہ کام انھوں نے ہر دو لحاظ یعنی علمی اور عملی سطح پر کیا ۔وہ اپنی تقریروں، خطبات اور مجلسوں میں اس موضوع پر مسلسل اور مختلف زاویہ سے روشنی ڈالتے رہے۔ انھوں  نے کبھی بھی خود کو صرف اہل تشیع کے عالم دین کے دائرے میں محدود نہیں کیا۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے جب بھی اور جہاں بھی کسی مجمع سے خطاب کیا، ان اختلافی باتوں سےحتی الامکان گریز کیا جو دو مسالک کے درمیان کسی بھی صورت میں خلیج پیدا کرتی ہیں۔
 مولانا کلب صادق زندگی کے متعلق ایک واضح ویژن رکھتے تھے۔انھوں نے دیگربعض علمائے دین کی مانند قوم کو جذباتی معاملات اور مسائل میں الجھانے کے بجائے ان باتوں کی تشہیر اور تلقین کی جومسائل حیات کے متعلق قوم کے اندر معروضی اور منطقی طور پر غور کرنے کی صلاحیت پیدا کر سکیں۔وہ ہندوستانی کے مخلوط سماجی نظام پر گہری نظر رکھتے تھے ۔ وہ ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہے کہ اس سماجی نظام کے تحت زندگی بسر کرنے والے مسلمان کن تدابیر کے ذریعہ اپنی سماجی اور معاشی حالت کو بہتر بناسکتے ہیں۔ وہ جس قدر مسلمانوں کی ترقی اور بہبود کے فکر مند رہتے تھے اسی طرح مادر وطن کی عظمت اور وقار کے تحفظ پر بھی غور و فکر اپنی استطاعت بھر عمل کرتے تھے۔وہ ایک سچے ہندوستانی شہری کے طور پر وطن عزیز کی عزت اور عظمت کو بہر طور نہ صرف ملحوظ رکھتے تھے بلکہ بعض پیچیدہ قسم کے قومی اور بین الاقوامی مسائل کے درمیان ایک ایسی راہ تلاش کرنے کے قائل تھے جو وطن کے وقار کے ساتھ ہی قوم کی عظمت کو بھی برقرار رکھ سکے۔
 مولاناکلب صادق نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر کے طور پر بھی کام کیا۔اس منصب پر کام کرتے ہوئے انھوں نے بعض حساس اور پیچیدہ مسائل  پراپنی دوٹوک رائے پیش کی۔ ایسے موقعوں پر ان کی آرا سے اختلاف بھی کیا گیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے دینی اور دنیوی مسائل جو گہری نظر رکھتے ہیں وہ انھیں ایک سچے دانشور اور مفکر کی حیثیت عطا کرتی ہے۔ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان مسلکی اختلاف کے حوالے سے لکھنؤ کو ایک حساس شہر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انھوں نے اسی شہر میں رہتے ہوئے اکثر ایسے نازک موقعوں پر اپنی دانشمندی اور دور اندیشی کا ثبوت  دیا جن مواقع پر اکثر لوگ جذبات کی رہ میں بہہ کر مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔ایسے موقعوں پر اُن کی موجودگی مسلمانوں کے درمیان مسلکی اختلاف کو شدت اختیار کرنے سے باز رکھتی تھی۔اس شہر میں جب کبھی ایسا کوئی نازک موقع آیا، شہری انتظامیہ کی نظر مولانا کلب صادق کی جانب اٹھی اور انھوں نے اپنے حسن تدبر سے شہر کی پرامن فضا کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
 مولانا کلب صادق ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے مخلص داعی تھے۔ان کے اس اخلاص کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے جو فلاحی ٹرسٹ قائم کیا تھا، اس کا نام بھی اتحاد بین المسلمین رکھا تھا۔ اس ٹرسٹ کے زیر انتظام مسلمانوں کو تعلیم، روزگار اور صحت جیسے بنیادی مسائل سے نجات پانے میں مدد کی جاتی ہے۔ مولانا کلب صادق نے اس ٹرسٹ کے ذریعہ ان تمام مستحقین کی حتی المقدور مدد کرنے کی کوشش کی جو اُن مسائل کا سامنا کر رہے تھے۔ انھوں نے نہ صرف لکھنؤ اور اطراف کے مسلمانوں بلکہ ریاست اور ملک کے دیگر علاقوں کے ان مسلمانوں کی مدد کرنے کی کوشش کی جو تعلیم کے میدان میں آگے جانے کی خواہش رکھتے تھے۔انھوں نے معاشرہ میں تعلیم کو عام کرنے کو ایک مشن بنا لیا تھا۔
 مولانا محترم کو جب بھی عوام سے خطاب کرنے کا موقع ملتا وہ اس موضوع پر ضرور بولتے تھے اور قوم کے ان با صلاحیت نوجوان لڑکے لڑکیوں کو تعلیم میں آگے آنے کی تلقین کرتے جو زندگی میں کچھ نمایاں اور بہتر کام کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔انھوںنے بارہا یہ بات کہی کہ ہندوستانیوں اور بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ تعلیم سے ان کی بیگانگی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قوم کو دینی علوم سے بہرہ مند ہونے کے ساتھ ہی جدید علوم کے حصول پر بھی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ جدید علوم میں پیچھے رہ جانے والی قوم سماجی اور معاشی اعتبار سے بھی پسماندہ رہ جاتی ہے ۔اس پسماندگی کو دور کرنے کا واحد نسخہ ان علوم پر دست رس حاصل کرنا ہے جو دنیوی ترقی اور معاشی خوشحالی کی راہ ہموار کریں۔انھوں نے مسلمانوں کو مسلکی اختلافات سے وابستہ جذباتی موضوعات میں الجھانے کو کبھی پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا اور نہ ہی کبھی خود اس طرح کے حربے استعمال کئے۔
 مولانا کلب صادق مرحوم کا یہ ماننا تھا کہ غریبی، جہالت اور کرپشن اس ملک کے بڑے دشمن ہیں۔ اگر ان دشمنوں پر قابو پا لیا جائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہندوستان کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے مابین نمایاں طور پر ہونے لگے۔وہ اس ملک کے جن تین دشمنوں پر قابو پانے کی بات کرتے تھے دراصل یہی تین مسائل مسلمانوں کی ترقی اور خوشحالی کی راہ کی بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان مسائل پر قابو پانے کیلئے ضروری ہے کہ قوم کے اندر ایسی اجتماعی ہمدردی اور فکر مندی کاجذبہ پیدا ہو جو بغیر کسی امتیاز کے سب کی فلاح اور ترقی کا خواہاں ہو۔ ہندوستانی مسلمانوں کے موجودہ حالات پر اگر دیانت داری سے غور کیا جائے تو یہ افسوس ناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ اب اس قوم کے اندر ایسی اجتماعی ہمدردی اور فکر مندی کا جذبہ بڑی حد مفقود ہو چکا ہے۔ اس کی جگہ پر خود غرضی اور مطلب پرستی کا رویہ اختیار کرنے کو ترجیح دی جانے لگی ہے۔اس خود غرضی اور مطلب پرستی کے رویے نے سماجی اور معاشی سطح پر ایسے مسائل پیدا کر دئیے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یگانگت کی ڈور کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ مولانا کلب صادق نے اس ڈور کو مضبوط اور مستحکم بنانے کی ضرورت پر ہمیشہ زور دیا اور خود بھی عملی سطح پر اس سلسلے میں اہم کام انجام دئیے۔
 اس ملک کے تمام مسلمانوں اور خصوصاً مذہبی رہنماؤں کو متحد ہو کر اس مشن کو آگے بڑھانا چاہئے جس مشن کیلئے مولانا کلب صادق تاعمر سرگرم رہے۔ اگر اس ملک کے مسلمانوں کے درمیان سماجی سطح پر یہ اتحاد قائم ہو سکا جو انھیں مسلکی اختلافات سے بالاتر ہو کر اپنی معاشی ترقی اور خوشحالی کیلئے کوشش کرنے کی ترغیب دے سکے توہی اس ملک کے مسلمان برادران وطن کے درمیان معزز حیثیت حاصل کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ قوم میں ایسے لوگوں کا بالکل فقدان نہ ہو نے پائے جو مولانا کلب صادق کے طرز پر کام کرتے ہوئے قوم کی فلاح اور ترقی کیلئے مخلصانہ کوشش کرتے رہیں۔ا س ملک کے مسلمان مذہبی رہنماؤں کو جذباتی قسم کے مسلکی مسائل میں الجھنے اور قوم کو الجھانے کے بجائے اس سلسلے میں ٹھوس اقدام کرنے کی ضرورت ہے ۔اگر اس جانب منصوبہ بند طریقے سے پیش قدمی ہوئی تو یہی مولانا کلب صادق کو سچا خراج ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK