Inquilab Logo

بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج کی معنویت

Updated: November 15, 2020, 11:30 AM IST | Dr Mushtaque Ahmed

انتخابی نتائج نے ثابت کردیا ہے کہ عوام ہنوز اپنے سنگین مسائل کے تئیں سنجیدہ نہیں ہیں بلکہ وقتی اور جذباتی نعروں میں بہہ کر زندگی جینے کے عادی ہو چکے ہیں،اس کی وجہ سے ملک میں روز بروزجمہوریت کی جڑیں کمزور ہوتی جا رہی ہیں

Bihar Election - Pic : PTI
بہار الیکشن ۔ تصویر : پی ٹی آئی

بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج پر پورے ملک کی نگاہ تھی کہ بہار کے عوام کے فیصلے ہمیشہ ہندوستانی سیاست کیلئےمشعلِ راہ ثابت ہوئے ہیں۔ بالخصوص جب کبھی تبدیلی کی ضرورت ہوئی ہے تو بہارکی سرزمین سے پورے ملک کو اشارہ ملتارہاہے۔ یا د کیجئے جے پرکاش تحریک کو کہ اس تحریک نے ہندوستانی سیاست کے محور ومرکز تبدیل کردیئے تھے۔ اس کے بعد بھی کرپوری ٹھاکر کی قیادت میںسماجی انصاف کی سیاست کو جلا ملی۔اس کے بعد لالو پرساد یادو کی قیادت نے غیر کانگریسی سیاست کی بنیاد کو استحکام بخشا ۔ گزشتہ ۱۵؍ برسوں سے نتیش کمار کے ہاتھوں میں بہار کی باگ ڈور ہے اور نتیش کمار نے بہار کی سیاست کو ایک نئی شناخت بخشی ہے ۔ 
 بہر کیف!اب بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج آچکے ہیں اور تمام اگزٹ پول کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے ہیں، البتہ یہ بات سچ ثابت ہوگئی ہے کہ بہار کی سیاست میں قائد کے سوال پر نتیش کمار آج بھی اول نمبر پر ہیں کیونکہ اسمبلی انتخابات کے آغاز کے ساتھ ہی قومی جمہوری اتحاد نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ یہ اسمبلی انتخابات نتیش کمار کی قیادت میں ہی لڑا جائے گا اور نتیش کمار ہی بہار کے وزیر اعلیٰ ہوں گے اور یہ اعلان این ڈی اے کیلئے فائدے کا باعث رہا ہے کیونکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج کی سیاست میں نتیش کمار جیسے صاف ستھری شبیہ کے لیڈر کا فقدان ہے۔انہوں نے ۱۵؍ برسوں کی مدت میں بہار کے عوام کے دلوں میں اپنے لیے ایک خاص جگہ بنا لی ہے۔ بالخصوص عورتوں کیلئے انہوں نے جو تاریخی کارنامے انجام دیئے ہیں کہ پنچایت سے لے کر اسمبلی تک ان کی حصہ داری میں اضافہ کیا ہے، اس سے بھی ان کی مقبولیت میں چار چاند لگ گیا ہے۔جہاں تک ترقیاتی منصوبوں اور سماجی مساوات کا سوال ہے تو اس معاملے میں بھی نتیش کمار نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ  بی جے پی کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھتے ہیںاور سچائی بھی یہی ہے کہ ان کے دورِ اقتدار میں جب کبھی فرقہ وارانہ فسادات کی چنگاری کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی ہے تو انہوں نے اسے ناکام کیا ہے اور بہار میں نظم و ضبط کو استحکام بخشا ہے۔
 یوں توہم سب جانتے ہیں کہ بہار کی سیاست کی سمت و رفتار دیگر ریاستوں سے بالکل مختلف ہے۔ یہاں علاقائی مسائل اور پھر ذات پات کی سیاست کو بھی فروغ ملتا رہا ہے۔اس انتخاب میں بھی یہی دونوں ایجنڈے حاوی رہے۔یہی وجہ ہے کہ راشٹریہ جنتا دل کے تیجسوی یادو نے اسمبلی انتخابات کو ایک نیا موڑ دینے کی کوشش کی کہ انہوں نے روزگار کے مسائل کو اپنا انتخابی ایجنڈا بنایا لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ قیادت کے سوال پر بہار کے عوام نے نتیش کمار ہی کو قبول کیا۔یہ حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے کہ راشٹریہ جنتا دل کے نوجوان لیڈر نے حکمراں جماعت کو سخت ٹکر دی  اور اپنی پوزیشن بھی مستحکم کی ہے کہ اس اسمبلی انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ راشٹریہ جنتا دل ہی کو یعنی۲۳؍فیصد سے زیادہ ملے ہیںلیکن سیٹوں کے معاملے میں انہیں خاطر خواہ فائدہ نہیں ملاکہ۲۰۱۵ء کے مقابلے انہیں کم سیٹیں ملی ہیں اور وہ اپنے اتحادیوں کی ناکامیوں کی وجہ سے اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کانگریس کو۷۰؍ سیٹیں دینا انہیں مہنگا پڑا۔اگر وہ مانجھی اور مکیش سہنی کو دس دس سیٹ دیئے ہوتے اور اوپیندر کشواہا کی پارٹی کو بھی ۱۰؍ سیٹ دی جاتی تو ممکن تھا کہ نتیجہ کچھ اور ہوتا کیونکہ کانگریس کے پاس ورکروں کی کمی ہے اور پھر سب سے بڑا مسئلہ ان کی پارٹی کے اندر کا ہے کہ ایک لیڈر دوسرے کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں،جس کا نقصان اس انتخاب میں بھی اسے ہوا ہے۔ بیشتر کانگریس لیڈر اپنے مخالفین سے کہیں زیادہ اپنی پارٹی کے باغیوں سے پریشان رہے ہیں۔اس اسمبلی انتخابات میں بایاں محاذ کی بہتر کارکردگی رہی ہے۔
 بہر کیف! اب یہ طے ہو چکا ہے کہ پھر سے این ڈی اے کی حکومت تشکیل پائے گی اور نتیش کمار ہی وزیر اعلیٰ ہوں گے۔یہ اور بات ہے کہ اب بی جے پی کی حیثیت بڑے بھائی کی ہوگی اور جنتا دل متحدہ چھوٹے بھائی کے روپ میں اپنا کردار نبھائے گیمگر بی جے پی چاہ کربھی نتیش کمار کو نظر انداز نہیں کر سکتی کیونکہ اگر وہ ایسا کرتی ہے تو نتیش کمار کے سامنے راشٹریہ جنتا دل کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ اس وقت نتیش کمار کسی بھی قیمت پر  بی جے پی سے الگ نہیں ہو سکتے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی کی قیادت بہار کی سیاست کو کون سا رخ دینا چاہتی ہے کیونکہ اسمبلی انتخابات کے درمیان چراغ پاسوان کی نتیش کمار کے خلاف بیان بازی اور کسی حد تک نتیش کمار کی شخصیت کونشا نہ بنانا، جنتا دل متحدہ کیلئے نقصان دہ رہا ہے۔اگر بی جے پی چاہتی تو اسمبلی انتخابات کے درمیان چراغ پاسوان پر نکیل کس سکتی تھی مگر اس نے ایسا نہیں کیا اور اس کی وجہ سے دونوں اتحادیوں کے درمیان غیر یقینی صورت حال بھی پیدا ہوئی مگر سیاست میں یہ سب کچھ ہوتا رہتاہے کہ ایک اتحادی دوسرے کے خلاف بھی کام کرتے رہتے ہیں تاکہ اس کی حیثیت مستحکم اور نمایاں رہے۔
 بہار کے اسمبلی انتخابات میں مبینہ سیکولر ووٹو ں کے انتشار کی وجہ سے بھی سیکولر فرنٹ کو نقصان پہنچا ہےمگر سچائی یہ ہے کہ قومی جمہوری اتحاد کی واپسی میں نتیش کمار کی محنت اور ان کی صاف ستھری شخصیت نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اس اسمبلی انتخابات کی ایک بڑی خوبی یہ رہی ہے کہبی جے پی کی طرف سے بھی فرقہ وارانہ ایجنڈے کو ہو انہیں دی گئی۔البتہ ان کے دو چار لیڈر جو ہمیشہ متنازع بیان دیتے رہتے ہیں وہ حسب عادت بولتے رہے مگر جس طرح پہلے کے انتخابات میں مسلمانوں کے خلاف زہر پھیلایا جاتا تھا،وہ اس انتخاب میں اپنا اثر نہیں دکھا سکامگرسب سے افسوسناک بات تو یہ ہے کہ جس اسمبلی حلقے میں مسلمانوں کی اکثریت تھی ،وہاں سے بھی مسلم امیدواروں کو کامیابی نہیں ملی۔ اس کی واحد وجہ یہ رہی ہے کہ پولنگ کے دن مسلمانوں کے اندر سرد مہری رہی۔
 اس کا مطلب صاف ہے کہ بہار کے مسلمانوں نے اب تک جمہوری تقاضوں کو سنجیدگی سے سمجھا نہیں ہےورنہ۲۵؍ سے زائد سیٹوں پرمسلم امیدواروں کو کامیابی مل سکتی تھی یا پھر جنتادل متحدہ کے امیدواروں کی کامیابی کا گراف بلند ہوسکتا تھامگر ایسا نہیں ہوا۔اگر جنتا دل متحدہ کے کامیاب امیدواروں کی تعداد  بی جے پی سے زیادہ ہوتی تو نتیش کمار کو کام کرنے میں دشواری کم پیش آتی۔اب چونکہ  بی جے پی ایک بڑی جماعت ہے اور جنتا دل متحدہ کے ممبران اسمبلی کی تعداد کم ہے اس لحاظ سے کابینہ میں بھی جنتادل متحدہ کے ممبران اسمبلی کو جگہ کم ملے گی اور  بی جے پی کے وزراء کی تعداد زیادہ ہوگی۔ایسی صورت میں مستقبل میں کئی طرح کے مسائل درپیش ہوں گے۔دیکھنا یہ ہوگا کہ نتیش کمار جو کسی بھی دباؤ کی سیاست کو قبول نہیں کرتے ہیں، ان کا مستقبل میں کون سا رخ سامنے آتا ہے۔
 بہار کا یہ اسمبلی انتخاب اس معنی میں بھی تاریخی ثابت ہوگا کہ بہار کی سیاست میں پہلی باراسد الدین اویسی کی پارٹی کو جگہ ملی ہے اور ان کے ۵؍ ممبران اسمبلی کامیاب ہوئے ہیں ۔ سیمانچل کے علاقے یعنی کشن گنج ،پورنیہ ، ارریہ ،فاربس گنج،کٹیہار اور سپول وغیرہ میں مجلس اتحاد المسلمین کا زور بڑھا ہے۔یہ بات اور ہے کہ اویسی کو اس علاقے میں نشانہ بھی بنایا جاتا رہا ہے اور ان پر الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ  بی جے پی کو فائدہ پہنچاتے ہیںمگر اس تلخ سچائی کو تو قبول کرنا ہی ہوگا کہ دوسری سیاسی جماعتوں کے مسلم امیدواروں کو اکثر ہار کا منہ دیکھنا پڑا ہےکیونکہ انہیں دوسروں کا ووٹ نہیں ملا۔ اس کی تازہ مثال اس اسمبلی انتخاب میں دیکھنے کو ملی ہے کہ راشٹریہ جنتا دل کے ایک قدآور لیڈر عبدالباری صدیقی کو یاد وبرادری کے ووٹروں نے نظر انداز کیا۔اسی طرح جنتادل متحدہ کے امیدوار فراز فاطمی کاجنتادل متحدہ کے کیڈر ووٹروں نے اس جوش وخروش سے ساتھ نہیں دیاجس جوش سے دوسرے حلقے میں کام کرتے نظر آئے۔مدھوبنی کے بسفی اسمبلی حلقہ میں ڈاکٹر فیاض احمد راشٹریہ جنتا دل کے امیدوار تھے اور اس مسلم اکثریت حلقے میں بھی یادووں نے ایماندارانہ کردار ادا نہیں کیا اور وہ انتخاب ہار گئے۔اسلئے یہ سوال بھی اپنی جگہ درست ہے کہ اب مسلمانوں کو اپنے زیادہ سے زیادہ امیدواروں کو کامیاب بنانے کیلئے نئی حکمت عملی اپنانی ہوگی مگر اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ ہمیں اس جذباتی سیاست سے پرہیز کرنا ہوگاجس سے اب تک ہمارا خسارہ ہوتا رہا ہے۔ 
 بہار اسمبلی انتخابات کے ساتھ ساتھ مدپردیش، گجرات اور اتر پردیش میں بھی ضمنی اسمبلی انتخابات ہوئے ہیں اور ان تمام جگہوں پر بھی قومی جمہوری  اتحاد ہی کو کامیابی ملی ہے۔اس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ روزگار کے مسائل یا دیگر عوامی مسائل کو انتخابی ایجنڈا بنانے سے کوئی بڑا فائدہ نہیں ہواجبکہ کورونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملک میں بے روزگاری بڑھی ہے اور اس وقت سب سے بڑا مسئلہ روزگار کا ہے مگر اس انتخابی نتائج نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ اب بھی عوام اپنے سنگین مسائل کے تئیں سنجیدہ نہیں ہیں بلکہ وقتی اور جذباتی نعروں میں بہہ کر زندگی جینے کے عادی ہو چکے ہیں۔نتیجہ ہے کہ ملک میں دنوں دن جمہوریت کی جڑیں کمزور ہوتی جا رہی ہیں اور سماجی انصاف کا نعر ہ و عوامی خدمات کا وعدہ وقتی بن کر رہ گیا ہے اور اس کیلئے کسی ایک سیاسی جماعت کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا کہ اب تک کی تاریخ یہ حقیقت پیش کرتی ہے کہ آزادی کے بعد سبھی جماعتوں کو کبھی نہ کبھی حکومت کرنے کا موقع ملا ہے مگر افسوس ہے کہ اب تک ہمارے گاؤں کی تصویر نہیں بدل سکی ہے اور لاکھوں بے روزگار نوجوان مزدور اپنی تقدیر کا رونا رو رہے ہیں۔یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے اور اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ نئے ہندوستان کی تعمیر کیلئے بیروزگار ی کا دور ہونا اور گائوں کی تصویر بدلنا لازمی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK