Inquilab Logo

؍۳۰؍ ویں سالگرہپر معاشی اصلاحات کی یادیں

Updated: August 01, 2021, 3:55 PM IST | P. Chidambaram

انہی اصلاحات کی وجہ سے ملک کی معیشت کو وہ تگ و تاز حاصل ہوئی تھی جس سے معاشی تیز رفتاری مستعا ر رہی۔ ایسے وقت میں ان اصلاحات کو یاد کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے جب معیشت اپنی رفتار کھو چکی ہو۔

Dr. Manmohan Singh .Picture:INN
ڈاکٹر من موہن سنگھ ۔ تصویر: آئی این این

ہرچند  کہ یہ پرانی بات معلوم ہوتی ہے مگر شاید اتنی پرانی نہیں۔ تیس سال ہوئے، جب ملک میں گھریلو فضائی خدمات کے نام پر صرف انڈین ایئر لائنس تھی، صرف دو ادارے (بی ایس این ایل اور ایم کی این ایل) ٹیلی فون کی خدمات فراہم کرتےتھے، موٹرکاروں کی صرف تین کمپنیاں برسرکار تھیں (امباسیڈر، فیاٹ اور ماروتی) اور ٹیلی فون کیلئے، گیس کنکشن کیلئے اور اسکوٹر وغیرہ خریدنے کیلئے طویل انتظار صارفین کا مقدر تھا۔ کئی اشیاء اور مصنوعات کی شدید قلت تھی جبکہ غیر ملکی زرمبادلہ حاصل کرنا تو دشوار تر اَمر تھا۔ عام سیاسی نظریہ یہ تھا کہ معیشت کو باندھ کر رکھا جائے، مارکیٹ میں ہندوستانی اشیاء کی اجارہ داری ہو، عوامی زمرہ کی کمپنیوں کا تسلط ہو، درآمدات کو قابو میں رکھا جائے اور شرح زر مبادلہ طے شدہ ہو۔ ہر چیز کیلئے لائسنس ناگزیر تھا اور مارکیٹ کے تعلق سے شک و شبہ پایا جاتا تھا۔ ۱۹۹۱ء کے عام انتخابات میں کسی پارٹی سے اُمید نہیں تھی کہ اکثریت حاصل کرپائے گی۔ کانگریس کو ۲۳۲؍ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیابی ملی۔ کسی نے حکومت کو نصف موقع بھی نہیں دیا کہ ملک کی معیشت کو بحران سے نکالے۔ وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ ، جن کی کابینی وزیر کی حیثیت سے کارکردگی قابل ذکر نہیں تھی، وزیر مالیات کی حیثیت سے ڈاکٹر من موہن سنگھ کے انتخاب میں دانشمند ثابت ہوئے۔ کامرس منسٹر کی حیثیت سے میرا انتخاب شاید اس لئے ہوا تھا کہ مَیں نے ایم بی اے کیا تھا۔
 پہلی کابینی میٹنگ میں نرسمہا راؤ کا وہ جملہ مجھے اب تک یاد ہے جس میں انہوں نے کابینہ سکریٹری نریش چندر کے بارے میں کہا تھا کہ ’’نریش، کیا تم نے وزیروں کیلئے گھوڑا گاڑی ڈھونڈ لی؟‘‘ اولین دس دن میں کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جس میں جوش وخروش ہو۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ہر ایک فکرمند تھا ۔ فکر یہ تھی کہ اقلیتی حکومت (جس کے پاس اکثریت نہیں تھی) پارلیمنٹ میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرپائے گی یا نہیں۔ معیشت کا حال بُرا تھا۔ غیر ملکی زر مبادلہ کا ذخیرہ کم ہورہا تھا۔ قرضوں کی ادائیگی میں ناغہ کی نوبت آتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی غیر سرکاری قیمت بڑھ رہی تھی۔ درآمدات اور برآمدات کی رفتار مدھم تھی۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس سُرنگ کی لمبائی بڑھتی جارہی تھی جس کے آخری سرے پر روشنی دکھائی دیتی ہے۔ بائیں محاذ کی جانب سےجو آوازیں اُٹھ رہی تھیں وہ سوشلزم سے متعلق تھیں۔ کوئی سیاسی لیڈر ایسا نہیں تھا جو معاشی آزاد کاری (لبرلائزیشن) کی بات کرتا۔ ایسے میں چھ افراد موقع کے انتظار میں تھے۔ ستیش چندر، اے این ورما، مونٹیک سنگھ اہلووالیہ، ڈاکٹر راکیش موہن، ایس وینکٹ رامنن اور ڈاکٹر سی رنگاراجن۔ ان صاحبان نے معیشت کو رفتار دینے کیلئے اُس وقت حکمت عملی تیار کرلی تھی جب عوام ۱۰؍ ویں لوک سبھا کا انتخاب کررہے تھے۔ اس حکمت عملی کا پہلا قدم تھا روپے کی قدر کو کم کرنا (ڈی ویلویشن)۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ نے یکم جولائی کو روپے کی قدر ۹؍ فیصد گھٹا کر گویا ایک تجربہ کیا۔ ۳؍ جولائی کو وزیر اعظم نرسمہا راؤ کی مرضی کے بغیر انہوں نے مذکورہ قدر میں ۱۰؍ فیصد کی تخفیف کی۔ 
 ڈاکٹر سنگھ نے مجھ سے اور اہلووالیہ سے بہ اصرار کہا تھا کہ روڈ میپ تیار کریں۔ ہم نے تجارتی پالیسی میں تبدیلی کا ایک ۱۳؍ نکاتی پیکیج مرتب کیا جسے مَیں نے ۴؍ جولائی کو ایک پریس کانفرنس کے ذریعہ عوام تک پہنچایا۔ تجارتی پالیسی کے تعلق سے کئے جانے والے اعلانات میری وزارت کے دائرے سے باہر کی چیز تھے پھر بھی میں نے مالیاتی اور صنعتی پالیسی، غیر ملکی سرمایہ کاری، درآمدات کی مرکزیت کے خاتمے، بیشتر امپورٹ لائسنسوں کی منسوخی اور ایسے ہی دیگر اقدامات پر روشنی ڈالی۔ مَیں نے یہ بھی اعلان کیا کہ وزیر اعظم اور وزیر مالیات، دونوں ہی نے ان تدابیر کی حمایت کی ہے۔  ان تدابیر سے وزارت مالیات کو نیا حوصلہ اور جوش ملا۔ وزارتِ صنعت کے ذریعہ نئی صنعتی پالیسی جاری ہوئی اور ۲۴؍ جولائی کو پیش کیا جانے والا عام بجٹ انقلابی ثابت ہوا۔  معاشی اصلاحات کے اس ایجنڈا کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ پارلیمان میں سب سے زیادہ نکتہ چینی ممتاز لیڈر چندر شیکھر نے کی۔اس کے جواب کیلئے مَیں نےاُس فائل کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے وزارت تجارت کی اُن تجاویز کو بحیثیت وزیر اعظم منظوری دی تھی جو تجارتی پالیسی میں تبدیلی سے متعلق تھیں۔ یہ تجاویز منظور ہونے کے باوجود نافذ نہیں کی جاسکی تھیں۔ میری اس دلیل پر ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف تجاویز تھیں جنہیں نافذ کرنا مقصود نہیں تھا۔
 میں نے انقلابی تبدیلیوں کا راستہ ہموار کرنا شروع کردیا۔ ہم نے چیف کنٹرولر آف امپورٹس اینڈ ایکسپورٹس کا دفتر معطل کردیا۔ ہم نے انڈین ٹریڈ سروس بھی ختم کردی۔ ہم نے وہ تمام رکاوٹیں دور کردیں جن کی وجہ سے وسیع تجارتی و کاروباری امکانات کا حامل ملک ۴۰؍ سال سے ٹھہرا ٹھہرا سا تھا۔ پھر ایک موڑ ایسا آیا کہ ڈاکٹر سنگھ نے اہلو والیہ کو اپنے ساتھ لے لیا۔ مجھے افسوس تھا کہ اہلووالیہ اور ڈاکٹر وائی وی ریڈی وزارت مالیات سے وابستہ ہورہے تھے تاہم خوشی اس بات کی تھی کہ اے وی گنیشن میری وزارت میں آرہے تھے۔ اس پر مادھو راؤ سندھیا برہم تھے کہ اُن کا سکریٹری لے لیا گیا ہے۔ بہرکیف، تب ہی میں نے نئی غیر ملکی تجارتی پالیسی پر اپنا سارا وقت اور توانائی صرف کرنی شروع کی۔ مَیں نے رفقائے کار کو تاکید کی کہ نئی پالیسی کا کتابچہ ۱۰۰؍ صفحات سے زیادہ کا نہ ہو، اس کی زبان شستہ ہواور اس میں تکنیکی الفاظ کی بھرمار نہ ہو۔ میری وزارت میں اس کیلئے کوئی تیار نہیں تھا مگر میں مُصر رہا۔ اس پر سخت محنت ہوئی اور ہم ۳۱؍مارچ ۱۹۹۲ء کو نئی تجارتی پالیسی جاری کرنے کے قابل ہوئے۔ 
  نئی معاشی و اقتصادی پالیسی کے تعین کا یہ دور، جو ۹؍ مہینوں پر مشتمل تھا، میری زندگی کا بہترین دور تھا۔ تب میرا احساس تھا کہ ہمارے پر تو تھے مگر ہم پرواز بھول گئے تھے۔ یہ احساس ہوتے ہی ہم نے پر پھڑپھڑائے اور ۳۰؍ سال پہلے وہ یہی دن تھے جب ہم نے نئی فضاؤں میں پرواز کی تھی

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK