Inquilab Logo

کووِڈ لاک ڈائون کے بعد کے ذہنی مسائل و حل

Updated: January 17, 2021, 1:56 PM IST | Mubarak Kapdi

کوئی بھی بڑی وبائی بیماری اپنے دیر پا منفی اثرات چھوڑ جاتی ہے۔ بیماری کے علاوہ اگر پوری زندگی ہی کو تالہ بند کیا جائے تو معاشی و سماجی مسائل کاانبار لگنا لازم ہے۔ اب جسمانی صحت کیلئے ویکسین شروع ہو رہی ہے مگر کووِڈ اور لاک ڈائون سے پیدا شدہ ذہنی مسائل پر فکربے حد ضروری ہے

Mental Health - Pic : INN
ذہنی پریشانی ۔ تصویر : آئی این این

گزشتہ کئی صدیوں میں پہلی مرتبہ کووِڈ کی شکل میں ایک ایسی وبائی بیماری نے  پوری دنیاکو کچھ اس طرح گھیرلیا تھا کہ ساری میڈیکل سائنس اور جدید ٹیکنالوجی بے دست وپا ہوگئی۔ اس وبا سے مقابلہ کرنے کیلئے سماج و سائنس دانوں نے لاک ڈائون یا تالہ بندی کا استعمال کیا۔ گزشتہ دس ماہ سے زندگی کی رفتار بالکل تھم سی گئی ہے۔ اس وبا نے انسان کی صحت اور تالہ بندی نے ساری معیشت کے نظام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اب خدا خدا کرکے ہمارے ملک سمیت چند ملکوں میں ویکسین کی آمد قریب ہے۔ یہ مدافعتی قوت میں اضافہ کا باعث بن سکتی ہے البتہ تالہ بندی کی وجہ سے کاروبار، روزگار اور دنیا بھر کے سارے تعلیمی نظام ٹھپ ہوچکے ہیں جس سے ذہنی بیماریوں کے مہیب سائے پھیلتے جارہے ہیں۔ ہم آئندہ چند ہفتوں میں اِنہی ذہنی مسائل کا جائزہ لیتے رہیں گے تاکہ ہماری نئی نسل ذہنی انتشار سے آزاد ہوجائے اور مثبت فکر و عمل سے اپنی زندگی کی تعمیرِ نو شروع کرے۔ 
(۱) خدشہ ناکامی کا:
 آج ہمارا معاشرہ خصوصاً نوجوانان اپنے آپ کو ایسے موڑ پر کھڑاپارہے ہیں جہاں سے نکلنے والا ہر راستہ ایک نامعلوم منزل کی طرف جاتا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ناکام ہونے کے خدشے سے ایک ہی جگہ پر کھڑے رہنا سمجھداری بھی تو نہیں ہے۔ کوئی بھی وبا یا کوئی بھی بلا اس قدر طاقتور کیسے ہوسکتی ہے کہ وہ انسان کے حوصلے، ہمّت اور قوّتِ ارادی ہی کو چیلنج کردے؟ آئیے اس کا جائزہ لیں:
 نوجوانوں کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا ہے کہ دنیا میں ہر کامیاب فرد ناکام ہوتا ہے بلکہ ناکام لوگوں سے زیادہ ناکام۔ ایک ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ جو ۳۵؍سال کی عمر میں کامیاب بنے وہ کامیابی سے پہلے اوسطاً ۱۷؍کاروبار میں ناکام ہوئے مگر انھوںنے کوشش جاری رکھی۔ کاروبار بدلتے بھی رہے حتّٰی کہ ۱۸؍ویں کاروبار میں کامیاب ہوگئے۔ اوسط درجے کی کامیابی عموماً ۴؍ ناکامیوں کے بعد حاصل ہوتی ہے اور بڑی کامیابی عموماً ۷۹؍ ناکامیوں کے بعد حاصل ہوتی ہے۔دنیا میں کوئی بھی فرد سوفیصد کامیاب نہیں ہوتا،  نہ ہی کوئی ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے۔ آپ کو صرف آخری بار کامیاب ہونا ہوتا ہے۔
 دنیا میں صرف وہی لوگ عظیم کامیابیاں حاصل کرتے ہیں جو ہارنے کا حوصلہ اور جرأت رکھتے ہیں۔ دنیا کی جتنی بھی عظیم ایجادات ہیں وہ بے شمار ناکامیوں کے بعد ہوئیں۔ ہر عظیم ایجاد کی کہانیاں ناکامیوں سے بھری ہوئی ہیں۔یہ بات ذہن میں رہے کہ آپ کامیابی کا سفر ناکامی کے بغیر نہیں کرسکتے لیکن ہر ناکامی عارضی ہوتی ہے جب تک آپ اُسے مستقل نہ سمجھ لیں۔آپ اُس وقت تک ناکام نہیں ہوتے جب تک کہ کوشش ترک نہیں کردیتے۔ آپ پانی میں گرنے سے نہیں ڈوبتے بلکہ اس میں پڑے رہنے سے ڈوبتے ہیں۔ جو کبھی گِرا نہیں وہ کبھی نہیں چلا۔ جو بھاگ رہا ہے ٹھوکر اس کو لگتی ہے۔ گرنے میں کوئی خرابی نہیں مگر گِرتے وقت آپ کا منہ منزل کی طرف ہونا چاہئے۔ گِرنے کے بعد مُردوں کی طرح بے حِس اور بے سُدھ پڑے رہنا بے عزّتی اور توہین ہے۔اُٹھئے ، کپڑے جھاڑئیے او راگلی لڑائی کیلئے تیار ہوجائیے۔ اپنی منزل کی طرف پھر سفر شروع کردیں۔ بہادروں کی طرح، گھڑسوار جنگجوئوں کی طرح جو گھوڑے سے گِرتے ہیں اور اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ گِرنے کے بعد لیٹے رہنا بزدلی ہے، موت ہے، ہارنا نہیں بلکہ بغیر لڑے ہارنا جرم عظیم ہے۔ مثبت ذہنی رویّے والا انسان کبھی ہارتا نہیں۔اگر وہ اپنی ناکامی سے سبق سیکھتا ہے، البتہ بعض اوقات وہ جیتتا نہیں۔ اُسے احساس ہوتا ہے کہ شاید اس بار کوئی اور جیت جائے لیکن اگلی بار انشاء اللہ وہ جیتے گا۔ وہ ناکامی پر حوصلہ نہیں چھوڑتا۔ناکام ہونے والوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو کامیابی کیلئے خطرہ مول نہیں لیتے۔ ایسے لوگ زندگی میں کبھی کوئی قابل ذکر چیز حاصل نہیں کرپاتے۔
 کامیابی کبھی یقینی نہیں ہوتی اور ناکامی کبھی مستقل نہیں ہوتی۔ ہرناکامی عارضی ہوتی ہے، جب تک آپ اُسے مستقل نہ سمجھ لیں ناکامی سے یہ مُراد نہیں کہ آپ ہمیشہ کیلئے ناکام ہوگئے بلکہ اس سے مُراد یہ ہے کہ ابھی آپ کامیاب نہیں ہوئے،یعنی ایک خاص وقت پر کامیاب نہیں ہوئےلہٰذا ناکامی دراصل تاخیر ہے۔ ناکامی سے یہ مُراد نہیں کہ آپ کوشش ترک کردیں بلکہ اس سے مراد کہ زیادہ سخت محنت کریں۔ناکامی سڑک کا خاتمہ نہیں بلکہ ایک موڑ ہے۔ آپ صرف اُس وقت ناکام ہوتے ہیں جب کوشش ترک کردیتے ہیں یا جب آپ اپنی ناکامی سے سبق نہیں سیکھتے۔ ناکامی دراصل غلطی ہے۔ یعنی فرد ناکام نہیں ہوتا بلکہ غلطی کرتا ہے۔ دنیا میںہر انسان سے غلطی ہوتی ہے، البتّہ بے وقوف ان کو دُہراتے ہیں۔ غلطی دُہرانے کے بجائے ان سے سبق سیکھیں۔ ذہین لوگ اپنی غلطی اور فطین دوسروں کی غلطی سے سیکھتے ہیں۔غلطیاں ہمیں سکھاتی ہیں کہ اس کام کو کرنے کے دوسرے طریقے بلکہ بہتر طریقے بھی ہیں۔ غلطی آپ کو عقلمند، مضبوط، توانا اور صابر بناتی ہے۔ اس طرح آپ کو کامیابی کیلئے تیار کرتی ہے۔  جو غلطی نہیں کرتا وہ ترقی نہیںکرتا۔ بہتر اور کامیاب لوگ زیادہ غلطیاں کرتے ہیں۔ وہ زیادہ چیزیں کرتے ہیں اور زیادہ کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ جو غلطی نہیں کرتے وہ کوئی بڑا کام نہیںکرتے۔ایڈیسن نے کچی ربڑ حاصل کرنے کیلئے ۱۷؍ہزار پودوں کو آزمایا یعنی اس نے ۱۷؍ہزار غلطیاں کیں، کچھ نہ کریں گے تو کچھ حاصل نہ ہوگا۔مثبت ذہنی رویّے والوں کیلئے ناکامی زحمت نہیں بلکہ رحمت ہے۔آج کے مسابقتی دَور میں ہمارے نوجوانان اکثر یہی  پوچھتے رہتے ہیںکہ اگر ناکامی عارضی ہوتی ہے تو وہ مستقل کیوں دکھائی دیتی ہے؟ اس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
 (۱) ہم ان ناکامیوں کے اسباب کی جڑ تک نہیں پہنچتے، بلا وجہ کے خوف ذہن پر تھوپ لیتے ہیں اور ان سارے خوف کے اسیر بنے رہتے ہیں۔(۲) اپنے طریقہ کار پر نظر ثانی کرنے کو تیار نہیں ہوتے بلکہ کچھ جھوٹی اَنا کے نشے میں ایسے مسرور رہتے ہیں کہ وہ طریقہ کار جس سے شکست درشکست درپیش ہوتی رہی ہو اُسی کو مسلّم سمجھتے ہیں اور اس سے نپٹنے کو تیار نہیں ہوتے۔(۳) پچھلی ناکامیوں کے اثرات سے باہر نہ نکل پانا بڑا سبب ہے پہ درپہ ناکامیوں کا۔
 موجودہ کووِڈ ۱۹؍کے ماحول میں بھی کامیابی و ناکامی کے تذبذب میں مبتلا مسابقتی امتحانات میں شریک ہونے والے نوجوانوں کو ہم یہ ٹِپس دینا چاہیں گے : آپ کو یاد رکھنا ہے کہ(۱) آپ جیسے ہی نوجوانان کامیاب ہورہے ہیں، ہر بار ہورہے ہیں، ہر سال ہورہے ہیں، ہر اُس امتحان میں بھی ہورہے ہیں جس پر ’مشکل ترین‘ کالیبل لگا ہے لہٰذا آپ بھی کامیاب ہوں گے۔ (۲)اگر کسی بھی امتحان کی تیاری میں آپ کا وقت ضائع ہورہا ہے اورآپ اپنی توجّہ مرکوز (فوکس) نہیں کر پارہے ہیں، اس کا مطلب آپ کی ذہنی یکسوئی میں کوئی ملاوٹ ہورہی ہے اور اس ذہنی کرپشن کو آپ کو روکنا ہے۔(۳) مستقل  مزاجی کانہ ہونا تیسری بڑی وجہ ہے ناکامی کی۔چھوٹی موٹی ناکامیوں سے زندگی کے مقاصد میں تبدیلی نہیں آنی چا ہئے۔آپ کی نگاہ بڑے عزم حوصلے کے ساتھ منزل پر ٹِکی رہنی چا ہئے۔ (۴) آخری بات یہ کہ جو دنیا کے دیگر مفکّرین آپ کو دیں یا نہ دیں مگر بحیثیت مسلمان ہم ہمارے نوجوانوں کو دینا چاہیں گے کہ اسلام میں صدقہ کی بڑی اہمیت ہے لہٰذا کامیابی کی ریس میں شامل ہونے سے قبل ہی یہ نیّت کرلیجئے کہ آپ اپنی کامیابی کا صدقہ ضرور دیں گے اور بہترین صدقہ یہ ہے کہ آپ کی رہنمائی سے قوم کے کم از کم ۵؍ نوجوان کامیاب ہوجائیں۔حقیقی سکونِ قلب اِسی سے ملتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK