Inquilab Logo

قرآن مجید میں ناداروں کے حقوق کا ذکر

Updated: January 17, 2020, 10:14 AM IST | Md Rafique Chaudhry

 اسلام واحد دین ہے جس نے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھا ہے اور اُن کے بارے میں کامل رہنمائی د ی ہے۔ دین اسلام کے سوا دنیا میں کوئی مذہب ایسا نہیں جو اپنی تعلیمات کے لحاظ سے اس قدر جامع اور ہمہ گیر ہو۔

اللہ تعالیٰ نے اغنیاء کے مال میں غریبوں کا حق رکھا ہے- تصویر: آئی این این
اللہ تعالیٰ نے اغنیاء کے مال میں غریبوں کا حق رکھا ہے- تصویر: آئی این این

 اسلام واحد دین ہے جس نے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھا ہے اور اُن کے بارے میں کامل رہنمائی د ی ہے۔ دین اسلام کے سوا دنیا میں کوئی مذہب ایسا نہیں جو اپنی تعلیمات کے لحاظ سے اس قدر جامع اور ہمہ گیر ہو کہ اس میں روحانیت، اخلاق، معاشرت، معیشت اور سیاست سے متعلق مکمل تعلیم و رہنمائی پائی جاتی ہو۔ معاش بھی انسانی زندگی کااہم مسئلہ ہے۔ اس کے حل کے لئے اسلام نے ہمیں بہترین نظامِ معیشت دیا ہے جس کے ذریعے نہ صرف انسانوں کی تمام بنیادی ضروریات پوری ہوتی ہیں بلکہ وہ ایک خوشحال زندگی بسر کرسکتے ہیں ۔ رہے وہ لوگ جو معاشی دوڑ میں کسی طرح پیچھے رہ جاتے ہیں ، ان ناداروں ، حاجت مندوں اور معذوروں کی کفالت کے لئے اسلام نے دولت مندوں کے مال میں ایک مقررہ حق اور حصہ رکھ دیا ہے۔اگر ہم قرآنِ مجید میں اس پہلو سے غور کریں کہ اس نے مال داروں کے مال میں ناداروں کے لئے کیا کچھ رکھا ہے، تو ہمیں درج ذیل قرآنی احکامات ملتے ہیں
 قرآن میں اغنیاء کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے مال کاایک حصہ غریب حاجت مندوں پر صرف کریں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہی متقی لوگ بہشت کے باغوں میں اور چشموں کے کناروں پر عیش سے رہیں گے جن کے مال کا ایک حصہ دنیا میں غریبوں اور ضرورت مندوں پر خرچ ہوتا تھا ۔ سورہ الذاریات
 دوسرے مقام پر فرمایاکہ جو دولت مند اپنی دولت کا ایک حصہ حاجت مندوں کی کفالت پر خرچ کرتے ہیں ، وہ اعزاز و اِکرام کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے۔سورہ المعارج
 ارشاد ہوا کہ مسلمانوں کو جہاں اپنے والدین اور دوسرے عزیز و اقارب پر اپنا مال خرچ کرنا ہے، وہاں یتیموں ، مسکینوں اور حاجت مندوں مسافروں کو بھول نہیں جانا بلکہ اُن پر بھی اپنے مال کا کچھ حصہ ضرور صرف کرنا ہے ۔ سورہ البقرہ
  مالِ زکوٰة کے مصارف میں سب سے پہلا حصہ غریبوں اور حاجت مندوں ہی کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے ۔ سورہ التوبہ
 وہ لوگ جو معاشرے کی اجتماعی خدمت پر مامور ہوں اور اس مصروفیت کی وجہ سے وہ اپنے معاش کے حصول کے لئے جدوجہد نہ کرسکیں ، ایسےسفید پوش حاجت مندوں کے لئے قرآن مجید نے خاص طور پر حکم دیاہے کہ مالدار لوگ ان پربھی اپنا مال خرچ کیا کریں ، کیونکہ وہ کسی سے مانگنا پسند نہیں کرتے ۔ سورہ البقرہ
 فرمایا غریبوں اور نادراوں پر صدقہ و خیرات کرنا علانیہ بھی جائز ہے، لیکن پوشیدہ طور پر خرچ کرنا زیادہ بہتر ہے، کیونکہ اس طرح ریاکاری کا شائبہ نہیں رہتا۔سورہ البقرہ
 یہ بھی فرمایا کہ مالداروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ جب اللہ کی راہ میں مال خرچ کریں اور حاجت مندوں کو دیں تو گھٹیا اور ناقص قسم کا مال دینے کا قصد نہ کریں ، بلکہ اچھی قسم کا مال دیا کریں کیونکہ غرباء کے حق کی ادائیگی اسی صورت میں بہتر طور پر ہوسکتی ہے ۔ سورہ البقرہ
 یہ بھی فرما دیاکہ جو لوگ ریا کاری کے ساتھ یا کسی پر احسان جتانے کی غرض سے اپنا مال خرچ کرتے ہیں ، وہ کسی اجر و ثواب کے مستحق نہیں ہیں ۔ کیونکہ ریاکاری کا تعلق ایمان سے نہیں ہے بلکہ کفر و منافقت سے ہے۔ سورہ البقرہ
  یہ بھی ارشاد ہواکہ جو مالدار لوگ یتیموں مسکینوں کا خیال نہیں رکھتے، وہ دولت کے حریص اور پجاری ہیں ، ایسے لوگوں کا دین و ایمان سے کوئی واسطہ نہیں ۔ سورہ الفجر
 سورۂ ماعون میں ایسے شخص کو آخرت کا منکر کہا گیا جو من جملہ اور باتوں کے یتیموں کو دھکے دیتا ہے اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔ پھر ریاکاروں کے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں کے لئے بھی ہلاکت و بربادی کا انجام بتایا گیا جو دوسروں کو استعمال کی معمولی چیز عاریتہ بھی نہیں دیتے۔
 ان قرآنی تعلیمات و احکامات کی روشنی میں یہ امر بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اغنیاء کے مال میں غریبوں کا حق رکھا ہے جسے بہرصورت ادا ہونا چاہئے۔

islam Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK