Inquilab Logo

مودی حکومت کاتماشہ اَب ختم ہونے کو ہے، دِن گنے جاچکے ہیں ، قدرت کا پہیہ گھومنے لگا ہے

Updated: January 19, 2020, 9:44 AM IST | Abdul Bari Momin | Mumbai

مرکزی حکومت نے گزشتہ پانچ برسوں میں جس طرح سے عوام کو بے وقوف بنایا ہے اور اُن پر مظالم ڈھائے ہیں ، وہ اب ناقابل برداشت ہوتے جارہے ہیں ۔ شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف جس طرح سے پورے ملک میں احتجاج ہورہا ہے، لوگ سڑکوں پر اُتر ے ہیں ،اس سے کم از کم یہی پیغام ملتا ہے۔ دراصل ظلم کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ’ظلم پھر ظُلم ہے بڑھتا ہے تو مِٹ جاتا ہے : خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا‘۔ اب ظلم کے خلاف ایک ایسی مزاحمت اٹھ کھڑی ہوئی ہے جو کسی طرح رُکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ دن بدن بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔حکومت کو اس مزاحمت کے آگے گھٹنے ٹیکنے ہی پڑیں گے۔

عوام این پی آر، سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے۔ تصویر: پی ٹی آئی
عوام این پی آر، سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے۔ تصویر: پی ٹی آئی

پرانے زمانے میں امریکہ میں اور کچھ عرصہ پہلے تک مشرقی ممالک بشمول ہندوستان میں بھی تفریح کا ایک بڑاذریعہ وہ کھیل تماشے ہوا کرتے تھے جو مداری سڑکوں کے کنارے دکھایا کرتے تھے۔ ان میں تاش کے پتوں کے کھیل بھی ہوا کرتے تھے۔ بعض ان میں جوئے کی شکل کے بھی ہوا کرتے تھے ۔ ان میں تماشائیوں کو بھی شامل کیا جاتا تھا۔ کھیل میں جیت کر پیسے کمانے کی لالچ میں بھولے بھالے تماشائی اس میں حصہ لیتے تھے اور بری طرح ٹھگے جاتے تھے۔ ان میں سے ایک کھیل تین پتوں کا ہوا کرتا تھا۔ اس میں ہوتا یہ تھا کہ مداری تاش کے تین پتے ناظرین کو دکھاتاجن میں دو بالکل ایک ہی طرح کے ہوتے تھے اورتیسرا مختلف ہوتا تھا۔ پتے دکھادینے کے بعد مداری ان کو اپنے سامنے کی ہموار زمین پر اُلٹا رکھ دیتا۔ پھر ان کو ہتھیلیوں سے گھماتا رہتا، کبھی آ ہستہ کبھی تیز۔ کھیل میں حصہ لینے والے تماشائی کو روپوں کی شرط لگانا ہوتی تھی کہ مداری کے ہاتھ روک دینے پر اسے تیسرا پتہ پہچاننا ہوگا۔ اگر وہ صحیح پتہ پہچان لیتا تو جیت جاتا اور پیسے منافع کے ساتھ واپس ملتے۔ ہار جانے پر اس کے لگائے ہوئے پیسوں کا حقدار مداری ہوتا۔ مداری کے خفیہ ایجنٹ جو تماشائیوں میں شامل ہوتے، وہ چھوٹی چھوٹی رقمیں لگاکر شرط لگاتے اور نہایت آسانی سے جیت جاتے۔ اس سے دوسرے تماشائیوں کو ترغیب ملتی۔ وہ سوچتے کہ یہ تو پیسے کمانے کا بہت آسان طریقہ ہے۔ چنانچہ جوں ہی کوئی اجنبی تماشائی پیسہ لگاتا،مداری کے خفیہ ایجنٹ بھیڑ سے نکل جاتے لیکن زیادہ دور نہیں جاتے۔ اب نیا جواری جتنے دائو لگاتا، سب ہارنے لگتا۔ پہلے تو وہ سوچتا کہ شاید اس کی نظر چو‘ک گئی، اسلئے وہ زیادہ توجہ کے ساتھ اور جیت کی امید میں وہ ایک کے بعد ایک دائو لگاتا چلا جاتا اور اپنی جیب خالی کرتا رہتا۔ کبھی کبھی اس کھیل کادائرہ بڑھا دیا جاتااوراسے زیادہ پتوں کی مدد سے بھی کھیلا جاتا۔ کبھی پتوں کے بجائے اخروٹ یا اوراسی کی طرح کی کوئی چیزاستعمال کی جاتی لیکن دھوکہ دھڑی کے اس کے بنیادی طریقے ہر صورت میں وہی رہتے۔ 
 اس میں مداری کی چالاکی یہ ہوتی تھی کہ وہ نہایت ہوشیاری کے ساتھ ایک غلط پتہ اپنی ہتھیلیوں میں چھپائے رکھتا اور جب بھی کوئی اجنبی تما شائی کھیل میں حصہ لینے کیلئے قدم بڑھاتا تو وہ نہایت مہارت کے ساتھ اس کی آنکھوں میں دھو‘ل جھونک کو صحیح پتہ اٹھا لیتا اور غلط پتہ رکھ دیتا۔ اس طرح پیسہ لگانے والا کبھی جیت ہی نہیں پاتا۔ اب اگر تماشائی اپنی ہار پر صبر کرکے میدان سے ہٹ جاتا تو بات ختم ہوجاتی لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ کوئی ہوشیار آدمی مداری کی چالاکی کو پکڑ لیتا، اس کو درمیان میں روک دیتا یا اس کا ہاتھ پکڑلیتا تو فوراً ہی مداری کی خفیہ کُمک یعنی اس کے خفیہ ایجنٹ بغیر وقت گنوائے حرکت میں آجاتے۔ ہوشیار تماشائی کو گھیر لیتے اور اس کوکہتے کہ ہلڑ کرنے کے بجائے وہ خاموشی سے وہاں سے چلا جائے ورنہ اس کی خیر نہیں ۔اسے مارنے پیٹنے کی دھمکی دی جاتی۔ اگر مرعوب ہونے کے بجائے تماشائی آس پاس موجود کسی پولیس والے کو شکایت کرتا تو پولیس والا نہ صرف اس کی شکایت کو اَن سنی کردیتا بلکہ خود اس کو دھمکی دیتا کہ اگر مار پیٹ ہوئی تو وہ اسے گرفتار کرکے جیل میں بند کردے گا کیوں کہ وہ پولیس والا بھی خود مداری سے مِلا ہوا ہوتا تھا۔
 کیاایسا نہیں لگتا کہ مودی حکومت بھی عوام کے ساتھ گزشتہ ساڑھے پانچ سال سے زیادہ عرصے سے کچھ اسی طرح کا تماشہ کررہی ہے؟ مداری کے تماشے میں تو آپ نقصان برداشت کرکے خاموشی کے ساتھ میدان سے نکل کر گھر کی راہ لے سکتے ہیں لیکن اس ملکی تماشے میں آپ کووطن چھوڑنا پڑا تو آپ جائیں گے کہاں ؟ ہم یہاں ۲۰۱۴ء سے اس قسم کا تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔اس تماشے کی منصوبہ بندی نہایت باریک بینی سے ایک ایک نکتہ پر غور کرکے کی گئی ہے۔ اس تماشے کی اونچ نیچ اور ہاتھ کی صفائی سے جو لوگ، خاص طور پر سیاست داں اور سیاسی پارٹیاں واقف ہیں ، ان کو تو موجودہ حالات میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے نفاذ پر کوئی زیادہ حیرت نہیں ہےلیکن ملک کے کروڑوں عوام کو ساڑھے پانچ سال سے زیادہ عرصہ گزرجانے کے بعد یہ تماشا سمجھ میں آ یا ہے۔ اب جاکر وہ سمجھ پائے ہیں کہ ان کے ساتھ کیسا دھوکہ ہوا ہے؟ کس طرح نہایت ہوشیاری سے ان کو فریب دیا گیا۔ کس طرح حقائق کوان کی نظروں سے چھپایا گیا۔ اب جب عوام حکومت سے سوال کرنے لگے، اس کو گھیرنے لگے، تو مداری کی کُمک کی طرح حکومت کی خفیہ کُمک بھی ان کو گھیرے میں لینے لگی۔ کبھی یہ کُمک پولیس ہوتی ہے اور کبھی نقاب پوش غنڈے۔ یہ صرف میدان ہی میں نہیں بلکہ سوال اٹھانے والوں پر سڑکوں کے بیچ، گھروں ، یونیورسیٹیوں اور ہاسٹلوں میں گھس کر ان پر عذاب کاڈنڈا برسانے لگتے ہیں ،گولیاں چلانے لگتے ہیں ۔ حکومت کے اشارے پرکی جانے والی اِن بے رحمانہ حرکتوں ، اس کے بیانات اور دیگر اقدامات سے بالکل صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر اپنااقتدار برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ حکومت سے دستبر دار ہونے کیلئے قطعی تیار نہیں ہے، چاہے اس کیلئے اسے دستور کو پسِ پشت ڈالنا پڑے ، دستور کی خلاف ورزی کرنا پڑے یا دستور میں تبدیلی کرنا پڑے، یا پھر کشمیر اور کانپور کی طرح کہیں بھی اور کتنی بھی جارحیت کا مظاہرہ کرنا پڑے۔ مودی، شاہ اور یوگی کے مثلث کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ہے کہ آج وہی لوگ ان سے سوال کر رہے ہیں جنہوں نے کل ان کو ووٹ دیا تھا۔وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک عارضی مرحلہ ہے جو گزر جائے گا۔ان کا خیال ہے کہ بس اتنا ہوا ہے کہ سیاسی پارٹیوں اورلیڈروں پر اِن کی پکڑ پہلے کے مقابلے میں کچھ کمزور پڑگئی ہے اور ان کے نزدیک یہ کوئی فکر کی بات نہیں ہے، کیوں کہ وہ اُن کی نَس نَس سے واقف ہیں لیکن شاید وہ یہ نہیں سمجھ پارہے ہیں کہ ان کا کھیل ختم ہونے جارہا ہے۔اب وہ لوگوں کی توجہ بھٹکانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ان کی عیاریاں اور چالاکیاں اب ملک کے سامنے عیاں ہوچکی ہیں ۔تمام متاثرہ ا شخاص اور طبقات سب ان کا کھیل اچھی طرح سمجھ چکے ہیں ۔ ان کا وقتِ حساب اب قریب آ چکا ہے۔ ہماری جس جمہوریت پر انہوں نے حملہ کیا ہے،عوام اب اُس کا حساب مانگ رہے ہیں ۔
  ان کی گزشتہ پانچ برسوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو سمجھ میں آئے گا کہ ان کے پاس ملکی انتظام اور ملک کی ترقی کے نام پر سوائے خالی خولی باتوں کے اورکچھ نہیں رہا ہے۔ عوام نے ان کو ترقی کا لیڈر اورکاروبار فرینڈلی سمجھ کر ووٹ دیا تھا۔ ’ہندوتوا‘ کوتو عوام صِرف ان کا مُکھوٹا سمجھ رہی تھی لیکن اب معلوم ہوا کہ اصل حقیقت تو ہندوتوا ہی ہے۔ ملکی ترقی تو صرف ایک فریب اور مُکھوٹا تھا جسے عوام حقیقت سمجھ بیٹھے تھا۔نوجوان طبقے نے ان سے کچھ زیادہ ہی امیدیں باندھ لی تھیں ۔ اب ان کے تمام خواب نہ جانے کتنی مدت کیلئے چکنا چور ہوکر بکھرگئے۔ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی آرزوئوں اور امیدوں کو دم توڑتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ۔ عوام کے سامنے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہندوستان ایک سوپر پاور بننے جارہا ہے لیکن دنیا بالا کوٹ کے معرکہ پر اِن کی ہنسی اڑارہی ہے۔پردھان سیوک ساری دنیا گھوم کر پھر اپنے گھیٹو میں واپس آگئے اور پھر سے پاکستان کا ہوّا کھڑا کر رہے ہیں ۔لوگ پوچھنے لگے ہیں کہ وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں یا پاکستا ن کے؟ آخرکیوں وہ ہندوستان کے مسائل پر بات نہیں کرتے اور زیادہ تر پاکستان کی بات کرتے ہیں ؟ان سب کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں ہے۔ ۲۰۱۹ء میں لوگوں نے بڑھ چڑھ کر ان کو ووٹ دیا تھا کہ اب مودی جی معاشی ترقی کیلئے، صحت اور تعلیم کی بہتری کیلئے کام کریں گے لیکن ’اے بسا آرزوکہ خاک شُد‘۔ ان کی حالت اس شرارتی بچے کی سی ہوگئی ہے جو اپنی پسندیدہ مٹھائی حاصل کرنے کیلئے مٹھائی کی دُکان پرہر طرف جھپٹّا مارنے کو تیار ہے۔اسے حلوائی کے نُقصان کی اور نہ دوسروں کے چلّانے کی کچھ پرواہ ہے۔ کیا ملک عزیز کیلئے اس صورتِ حال سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بچا ہے؟ 
  اگر آپ کے گھر میں دیواروں کا عیب چھپانے کیلئے کسی سے رنگ لگوائیں اور اُس نے خراب کوالیٹی کا مٹیریل استعمال کیا ہو یا غلط ڈھنگ سے رنگ لگایا ہو تو کیا ہوگا؟ کچھ دنوں کے بعد رنگ اُترنے لگے گا اور اندر کا بھدّا پن پھر سے نمایاں ہوجائے گا۔ وطن عزیز کا بھی حال کچھ اسی طرح کا ہوگیا ہے۔بالکل صاف محسوس ہورہا ہے کہ حکومت کے پاس کوئی ویژن ہی نہیں ، کوئی ماسٹر پلان ہی نہیں ہے۔ ٹاپ پر بیٹھے ہوئے دو عدد ماسٹرمائنڈ صرف اور صرف دھوکہ د ھڑی سے کام لے رہے ہیں اور بلند آواز سے اپنی انہی گھسی پٹی باتوں کو دُہرا رہے ہیں ۔سمجھتے ہیں کہ اسی طرح وہ اقتدار پر قابض رہ سکتے ہیں ۔ کسی بھی طرح کی شرم ان کو نہیں ہے۔ انہوں نے صرف اور صرف حزب مخالف کی کمزوری، نا اتفاقی اور منافقت کا فائدہ اٹھایا ہے۔یہ لوگ اور تمام ہی سیاست داں ہر معاملے کو ہمیشہ سیٹوں کا حساب کتاب لگاکر دیکھتے ہیں ۔ انہوں نے ہر طبقے کا بار بار استحصال کیا ہے۔ دستوری اور قانونی اداروں کے ذمہ داروں کو اپنی مُٹھی میں کرلیا ہے۔ بُری سے بُری حرکتوں کا سہارا لیا ہے۔ اپنے بڑے سے بڑے بُرے عمل کو لوگوں کے سامنے بہت خوشنما بنا کر پیش کیا ہے۔اب وہ اپنے آپ کو ناقابل شکست سمجھنے لگے ہیں ۔سمجھتے ہیں ہمارے اقتدار کے تخت کو کوئی مائی کا لال ڈگمگا نہیں سکتا۔ ہم جو چاہے وہ کرسکتے ہیں ۔کوئی ہمارا ہاتھ نہیں پکڑ سکتالیکن ظاہر ہے کہ ظلم کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ’ظلم پھر ظُلم ہے بڑھتا ہے تو مِٹ جاتا ہے : خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا‘۔ اب ظلم کے خلاف ایک ایسی مزاحمت اٹھ کھڑی ہوئی ہے جو کسی طرح رُکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ دن بدن بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ مودی حکومت کو بھی اس مزاحمت کے آگے گھٹنے ٹیکنے ہی پڑیں گے۔تماشہ اب ختم ہونے کو ہے۔ دِن گنے جاچکے ہیں ۔ قدرت کا پہیہ گھومنے لگا ہے۔ انجام قریب ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK