Inquilab Logo

حکومت نے ایک اچھا موقع گنوا دیا

Updated: January 21, 2021, 12:38 PM IST | Khalid Shaikh

کسانوں کے لئے آندولن میں اب تک سوسے زائد کسانوں کی جانیں جاچکی ہیں۔ کسان ان قوانین کو اپنے لئے تباہ کن بتاتے ہیں اوران کی واپسی پر مُصرہیں تو حکومت انہیں کسانوں کیلئے سود مند بتاتی ہے اور واپس نہیں لینا چاہتی

Farmers Protest - Pic : PTI
کسانوں کا احتجاج ۔ تصویر : پی ٹی آئی

تیرہ جنوری کو مقامی کارپوریٹر کی طرف سے بلائی گئی میٹنگ میں ہم بھی شریک ہوئے۔ میٹنگ کا مقصد ۱۶؍ جنوری کو کسان برادری کے ساتھ ہمدردی ویکجہتی کے اظہار کے لئے ممبئی کے اسلام جمخانہ سے نکالے جانے والے مورچہ کو کامیاب بنانا اور حکومت کو یہ جتانا تھا کہ دھنّا سیٹھوں اور بی جے پی کیڈروحامیوں کے علاوہ ملک اور قوم کا ہر طبقہ دہلی کی سرحد پر تقریباً دومہینے سے کڑاکے کی ٹھنڈ جھیلتے کسانوں اوران کے اہل خانہ کے ساتھ ہے جس میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ اِس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ مسلمانوں کے تعلق سے یہ تصور عام ہے کہ وہ اپنی الگ تھلگ دنیا  میں ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔ غالباً یہ پہلا موقع ہے جب اس طرح کے معاملات میں  ہم نے قومی  سطح پر اپنی موجودگی کا احساس دلایا، کسان بھائیوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی ، ریلیاں نکالیں، پنجاب ، ہریانہ اور دہلی کے مسلمانوں نے ان کے لئے کھانے پینے کا انتظام کیا اور دیگر ضروریات کے لئے اپنی خدمات پیش کیں۔ یہ ایک خوش آئند علامت ہے جس کے اثرات دیرپا ہوں گے۔ خدمتِ خلق اسلامی شعار ہے جس کے ذریعے ہمارے اسلاف نے دنیا کو اسلام کی طرف مائل کیا۔ مت  بھولئے کہ سی اے اے کے خلاف ہونے والے دھرنوں اور مظاہروں میں ہمیں انصاف پسند برادران  و خواہرانِ وطن کا بھرپور تعاون حاصل تھا اور شاہین باغ میں بیٹھی خواتین کے لئے سکھ بھائیوں نے لنگر کا اہتمام کیا تھا۔
 ۱۶؍ جنوری کا مورچہ ہر لحاظ سے کامیاب رہا۔ اس میں تقریباً سوتنظیموں اورسِوِل سوسائٹی گروپس نے حصہ لیا جس کیلئے  منتظمین اور شرکاء دونوں ہی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس وقت پورے ملک میں کسانوں کی حمایت میں جلسے جلوس ہورہے ہیں۔ ممبئی میں بھی جنوری کا آخری ہفتہ ریلیوں اور مورچوں کی نذر ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان باتوں کا حکومت پر کوئی اثر ہوگا؟ جواب نفی میں ہے۔ کسانوں کے لئے زرعی قوانین موت اور زندگی کا مسئلہ ہیں۔آندولن نے اب تک  سوسے زائد کسانوں کی جانیں لی ہیں۔ کسان اسے اپنے لئے تباہ کن بتاتے ہیں اوران کی واپسی پر مُصرہیں تو حکومت انہیں کسانوں کے لئے سود مند بتاتی ہے اور واپس نہ لینے پر اڑی ہے۔ تضاد یہ ہے کہ حکومت  قوانین میں درج ہر دفعہ پر گفتگو اور ایم ایس پی پر تحریری یقین دہانی کے لئے آمادہ ہے جو کسانوں کے بنیادی مطالبات ہیں لیکن قانون واپس لینے اور ایم ایس پی  کو قانونی درجہ دینے کے لئے تیار نہیں۔ وجہ ظاہر ہے مودی نے قانون کو اپنی اَنا اور وقار کا مسئلہ بنالیا ہے۔  وہ اس زعم میں مبتلا تھے کہ  نوٹ بندی ، جی ایس ٹی ، آرٹیکل ۳۷۰؍ طلاق ثلاثہ ، شہریت قانون اورلاک ڈاؤن کی طرح وہ زرعی قوانین کو بھی کسانوں پر تھوپنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یہ ان کی خوش فہمی تھی۔ ان کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ معاملہ طول کھینچے گا اور کسان آہنی دیوار کی طرح قوانین کے خلاف کھڑے ہوجائیں گے۔ یوں بھی ان کی حکومت ’ون مین شو‘ بن کر رہ گئی اور صلاح ومشورے کی قواعد ان کے مزاج سے میل نہیں کھاتی ہے۔ سارے فیصلے خود کرنا اور تعمیل ودفاع کی ذمہ داری اپنے نائبین  پرڈالنا  ان کی فطرت ثانیہ  ہے۔ کسانوں کو یہ بھی شکایت ہے کہ انہیں اعتماد میں لئے بغیر قانون نافذ کیا گیا۔  اس کی تائید میں وہ اس میٹنگ کا حوالہ دیتے ہیں جس میں امیت شاہ نے اعتراف کیا تھا کہ آرڈیننس جاری کرنے اور قانون سازی سے پہلے کسانوں سے مشورہ نہ کرکے حکومت سے غلطی ہوئی ہے۔ حکومت کی بدنیتی اس سے بھی عیاں  ہے کہ اس نے راجیہ سبھا میں قانون پر مکمل بحث ہونے  نہیں دی اور صَوتی ووٹوں سے بل پاس کیا لیکن یہاں بھی وہ شرارت سے باز نہ آئی۔ اپوزیشن لیڈروں کا الزام ہے کہ ووٹنگ کے وقت ان کے مائیکروفون بند کردیئے گئے تھے۔
  کسانوں کا دھرنا ختم کرنے اوران پر دباؤ بنانے کیلئے حکومت  نے ہر وہ آزمودہ ہتھکنڈہ استعمال کیا جس کے لئے بی جے پی  جانی جاتی ہے، چنانچہ پہلے اپوزیشن لیڈروں پر الزام لگایا کہ وہ کسانوں کو بہکا، بھڑکارہے ہیں۔ جب اس پر کوئی ردعمل  سامنے نہیں آیا تو کسانوں کو خالصتانی ، پاکستانی ، ماؤوادی اور آتنک وادی کے  القاب سے نوازا گیا۔ بات نہیں بنی تو ’پھوٹ ڈالو‘ کا حربہ اپنایا۔ بھاڑے کے ٹٹو کسانوں سے قانون کے حق میں بیان دلوائے، وزراء سے ان کی ملاقات کی تشہیر کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ کسانوں کی اکثریت قانون کے حق میں ہے۔ ان اقدامات سے کسانوں کے حوصلے تو پست نہیں ہوئے لیکن ان کے  حمایت میں اضافہ ہوتا گیا۔ آندولن کے پچاس دن بعد حکومت نے اپنے ترکش سے ایک اور تیرداغا کہ آندولن کو غیرملکی حمایت اور فنڈنگ حاصل ہے۔ ظاہر ہے اس الزام پر این آئی اے کیسے  خاموش بیٹھتی  اس لئے اس نے بغیر کسی تحقیق وتفتیش کے  چالیس سے زیادہ کسانوں کو سمن بھیج دیئے اور سرکار سے وفاداری کا حق ادا کیا۔ دھرنے کی حمایت اور مخالفت میں عدالت کے پاس کئی عریضے آئے لیکن عدالت نے اُن پر سماعت کی ضرورت اسی وقت محسوس کی جب حکومت کے تر کش  کے سارے تیر بیکارثابت ہوئے ۔ مانا کہ عدالت نے صلاح ومشورے کے بغیر قانون نافذ کرنے پر حکومت کی سرزنش کی، معاملے کو ہینڈل کرنے میں ناکامی پر تبصرہ کیا پھر زرعی قوانین پر تاحکم  ثانی روک لگائی اور   سابق چیف جسٹس لوڈھا کی سربراہی میں کمیٹی کی تشکیل کاعندیہ دیا  ساتھ ہی  فریقین کو آزادی اور اختیار دیا کہ وہ اپنی طرف سے بھی کسی چیف جسٹس کا انتخاب کرسکتے ہیں یہ ساری باتیں مثبت پیش رفت کا اشاریہ تھی لیکن دوسرے دن جب عدالت نے تشکیل شدہ چار رکنی کمیٹی کا اعلان کیا تو اس میں کسی بھی   سابق چیف جسٹس کا نام نہیں تھا چاروں ممبر وہ تھے جنہوںنے ماضی میں کُھل کر قوانین کی حمایت کی تھی۔ نتیجتاً معاملہ جہاں سے چلا وہیں واپس آگیا ۔ کسانوں نے کمیٹی کا بائیکاٹ کرتے ہوئے احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا تو ایک کمیٹی ممبرنے کسان بھائیوں کے حق میں ضمیر کی آواز پر کمیٹی سے الگ ہونے کا اعلان کردیا۔  ہماری دانست میں تاریخ پر تاریخ دینے کے بجائے  اگر حکومت نتیجہ خیز گفتگو ہونے تک خود ہی قوانین  پر روک لگادیتی تو مودی اور حکومت دونوں کی عزت رہ جاتی اور عدلیہ کی مدد نہ لینا پڑتی۔ مودی حکومت نے  ایک اچھا موقع گنوا دیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK