Inquilab Logo

مودی جی اور امریکہ: یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے؟

Updated: November 30, 2022, 1:48 PM IST | Pravez Hafeez | Mumbai

مودی جی کو امریکہ سے ایک خاص لگاؤ ہے۔اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک وہ سات بار امریکہ کا دورہ کرچکے ہیں۔ وہ وہائٹ ہاؤس میں تین تین امریکی صدور بارک اوبامہ، ڈونالڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کی میزبانی کا لطف اٹھا چکے ہیں۔

Modi Ji And America:.Picture:INN
مودی جی اور امریکہ:۔ تصویر :آئی این این

وزیر اعظم نریندر مودی اورامریکہ کا رشتہ عجیب ہے۔مودی بھکت یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے ہیں کہ جب سے مودی جی ہندوستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں تب سے امریکہ میں بھارت کی قدر و منزلت بڑھی ہے اور وقار بلند ہوا ہے جبکہ واشنگٹن کے طرز عمل کو دیکھ کر لگتا نہیں ہے کہ ۲۰۱۴ء کے بعد سے بھارت۔امریکہ رشتوں میں کوئی نمایاں تبدیلی ہوئی ہے۔ بی جے پی بین الاقوامی سفارت کاری کے پروٹوکول کو بھی وزیر اعظم کی ذاتی کامیابی کے طور پر پیش کرتی ہے حالانکہ امریکی حکومت کسی سربراہ مملکت کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر اپنی پالیسیاں طے کرتی ہے۔ مودی جی جب بھی کسی غیر ملکی دورے سے واپس آتے ہیں تو گودی میڈیا دیس واسیوں کے سامنے یہ بیانیہ پیش کرتا ہے کہ وزیر اعظم دنیا فتح کرکے آئے ہیں۔ اس بار بھی بالی میں جی۔۲۰؍ کے سربراہی اجلاس سے واپسی کے بعد یہی راگ درباری الاپا جارہا تھا۔ مودی جی کے بائیڈن کے ساتھ ہوئی چند منٹ کی ملاقات کے متعلق بڑے بڑے پل باندھے جارہے تھے کہ اچانک واشنگٹن سے ایسی خبر آئی جس نے حکومت اور مودی بھکت دونوں کو چونکادیا۔
 صحافی جمال خشوگی کے مرڈر کیس میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو امریکہ میں قانونی چارہ جوئی   سے تحفظ   (immunity)  دیئے جانے کے سوال پر امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے وضاحت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہیں ایسا ہی تحفظ دیا گیا ہے جیسا ۲۰۱۴ء  میں مودی جی کو بھارت کا وزیر اعظم بننے پر دیا گیا تھا۔ حکومت کو امریکی وضاحتی بیان میں مودی جی کا حوالہ بے حد ناگوار گزرا۔ بھارتی ترجمان نے اسے ’’غیر ضروری، غیر متعلق اورنامناسب‘‘ قرار دیا تاہم انہوں نے اسے غلط یا غیر حقیقی نہیں کہا۔ 
 مودی جی کو امریکہ سے ایک خاص لگاؤ ہے۔اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک وہ سات بار امریکہ کا دورہ کرچکے ہیں۔ وہ وہائٹ ہاؤس میں تین تین امریکی صدور بارک اوبامہ، ڈونالڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کی میزبانی کا لطف اٹھا چکے ہیں۔ عالمی سپر پاورکے صدر سے بغل گیر ہوکر یا ان کی پشت پر ہاتھ رکھ کر مودی جی کو شاید غیر معمولی فخرو انبساط کا احساس ہوتا ہے۔امریکی صدر کے ساتھ اپنی نزدیکی ظاہر کرنے کی خاطر پروٹوکول کے بر خلاف وزیر اعظم نے ایک بار’’ مسٹر اوبامہ‘‘یا’’مسٹر پریزیڈنٹ‘‘کہہ کر مخاطب کرنے کی بجائے صرف بارک کہا تھا۔مودی جی کے امریکی دوروں کا ایک خاص پہلو وہاں مقیم ہندوستانیوں کی ریلی سے خطاب کرنا  ہے۔ ۲۰۱۴ء  میں نیویارک کے میڈیسن اسکوائرگارڈن سے یہ سلسلہ شروع ہواتھا۔ستمبر ۲۰۱۹ء  میں ہیوسٹن کے فٹبال گراؤنڈ میں منعقد کی گئی ’’ہاؤڈی مودی‘‘ریلی امریکہ میں مودی جی کی کامیاب ترین ریلی تھی جس میں پچاس ہزار لوگ اکٹھا ہوئے تھے۔ اس ریلی میں ٹرمپ نے مودی  کو’’ فادر آف انڈیا‘‘ کا خطاب دیا تھا اور مودی جی نے سفارتی آداب کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ’’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘کا نعرہ بلند کیا تھا۔  امریکہ کی سرزمین پر کسی غیر ملکی سربراہ مملکت کے اعزاز میں اتنی بڑی ریلی پہلے نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کسی امریکی صدر نے کسی غیر ملکی مہمان کے اعزاز میں اس کے ہم وطنوں کے ذریعہ سجائی گئی کسی محفل میں پہلے شرکت کی تھی۔مودی جی کے امریکی دوروں کو بی جے پی ہندوستان میں ان کی مقبولیت بڑھانے اور انتخابی فائدہ اٹھانے کے لئے استعمال کرتی ہے۔گودی میڈیا کی مدد سے یہ پرچار کیا جاتا ہے کہ ساری دنیا میں مودی کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے۔ مودی جی کے دورے کا انتظام تو بھارتی حکومت کرتی ہے لیکن غیر ممالک میں ان کے جو سائڈ شوز ہوتے ہیں وہ اوورسیز فرینڈز آف بی جے پی یا دوسری تنظیمیں کرتی ہیں۔ یہ امریکی دیسی مودی بھکت خود تو امریکہ کی جمہوری اقدار مثلاً آزادی، مساوات،انصاف،رواداری اور تکثیریت کا فائدہ اٹھاکر ایک شاندار زندگی گزارتے ہیں لیکن جس ہندوستان کو یہ چھوڑ آئے ہیں اسے یہ ایک شدت پسند، غیر روادار، متعصب ہندو راشٹر میں تبدیل ہوتا دیکھنے کے لئے بیتاب ہیں۔ اپنے محل وقوع، آبادی،وسائل اور اسٹریٹیجک اہمیت کی وجہ سے ہندوستان کا امریکہ کی نظر میں بے حد اہم مقام ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ واشنگٹن نئی دہلی سے مضبوط باہمی اقتصادی، تجارتی، ثقافتی اور دفاعی رشتے چاہتا ہے۔ لیکن امریکہ انسانی حقوق کے تحفظ، آزادی اظہار رائے، میڈیا کی آزادی، مذہبی رواداری اور جمہوری اداروں کی خودمختاری پر بھی بے حد زور دیتا ہے۔امریکہ میں عمومی تاثر یہ ہے کہ پچھلے۸؍ برسوں میں ہندوستان میں درج بالا اقدار پر کاری ضرب لگی ہے۔ اسی لئے نئی دہلی سے دوستی کے باوجود امریکی حکومت کے مختلف ادارے ہندوستان کو مسلسل کٹہرے میں کھڑا کرتے رہتے ہیں۔ مودی جی کے ساتھ نظریاتی مطابقت اور ذاتی مفاد کی وابستگی کی وجہ سے ٹرمپ نے ہندوستان میں انسانی حقوق کی پامالی یا اقلیتوں کی مذہبی آزادی پر ہورہے حملوں پر تنقید نہیں کی۔ لیکن دونوں ڈیموکریٹ صدور اوبامہ اور بائیڈن نے کبھی واضح الفاظ میں تو کبھی اشاروں میں مودی جی کو یہ جتادیا کہ امریکہ کو نیو انڈیا میں ہوتی تبدیلیاں ناپسند ہیں۔بارک اوبامہ نے جنوری ۲۰۱۵ء میں انتباہ کیا تھا کہ انڈیا تبھی کامیاب ہوسکتا ہے جب وہ متحد رہے گا اور مذہبی خطوط پر تقسیم نہیں ہوگا۔ اوبامہ نے کہا تھاکہ ہر شخص کو اپنے مذہب اور عقیدے کی پیروی کرنے کا حق ہے اور کسی پر کوئی جبر نہیں ہونا چاہئے۔ صدربائیڈن نے پچھلے سال مودی جی کویاد دلایا کہ دنیا کو گاندھی کے عدم تشدد، رحمدلی، احترام باہمی اور رواداری کی تعلیمات کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ نائب صدر کملا ہیرس نے بھی مودی جی کو بتایا کہ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے اپنے ملک میں جمہوری اداروں اور اقدارکی حفاظت کریں۔امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے چند ماہ قبل واشنگٹن میں وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران ہندوستان میں انسانی حقوق کی بڑھتی پامالیوں پر تشویش کا اظہار کیا اور وارننگ دی کہ واشنگٹن کڑی نگرانی کررہا ہے۔ پچھلے ہفتے امریکی کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا کہ بھارت سرکار ایسے قدم اٹھارہی ہے جن سے سیکولر زم اور جمہوریت کمزور ہورہی ہیں اور ہندوتوا کے ایجنڈے کو فروغ مل رہا ہے۔ امریکہ کا میڈیا بھی ہندوستان میں جمہوریت کی زبوں حالی اور سیکولرزم کی بیخ کنی کیلئے مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتا رہتا ہے۔قارئین اب خود فیصلہ کرلیں کہ کیامودی بھکتوں کا یہ دعویٰ درست ہے کہ مودی جی نے امریکہ میں بھارت کا رتبہ بڑھایا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK