Inquilab Logo

مودی کا امریکی دورہ کامیاب یا

Updated: September 30, 2021, 8:16 AM IST | Khalid Shaikh | Mumbai

مودی عالمی سطح کے لیڈروں سے ایسا ٹوٹ کر بغلگیر ہوتے ہیں جیسے برسوں کا یارا نہ ہو، بائیڈن نے انہیں اس کا موقع نہیں دیا۔ لیکن یاد دلایا کہ اگلے ہفتے مہاتما گاندھی کا جنم دن ہے اور میںسمجھتا ہوں کہ ان کے عدم تشدد، باہمی احترام اور مذہبی رواداری کے پیغام کو پھیلانے کی آج جتنی ضرورت ہے ، پہلے نہیں تھی۔

Prime Minister Modi.Picture:INN
وزیراعظم مودی تصویر آئی این این

گزشتہ     سات برسوں میں مودی نے جس طرح اکثریتی بالادستی پر مبنی نفرت وتشدد کی سیاست کو رواج دیا اورہر موضوع کو ہندو مسلم رنگ دینے کی کوشش کی اس میں سب سے بڑا ہاتھ مودی کے خوشامدی ٹولے ،فیک نیوز فیکٹری، وہاٹس ایپ یونیورسٹی اور کَٹ اینڈ پیسٹ (Cut & Paste) انڈسٹری کا رہا ہے جسے مودی اور حکومت پر ہونے والی تنقید ایک آنکھ نہیں بھاتی ہے۔ یہی حال بی جے پی کے اُن لیڈروں کا ہے جو مودی کو ملک کا سب سے طاقتور لیڈر بنانے اور بھگوان کا درجہ دینے پر تُلے ہیں۔ مودی کا سب سے بڑا اثاثہ زور ِ خطابت ہے۔ وہ ایک اچھے ایکٹر اور مارکٹنگ و پیکیجنگ منیجر بھی ہیں ۔ گاہک دیکھ کر پُڑیا باندھنے اور سانپ کی طرح کینچلی بدلنے کا ہنر آتا ہے۔ وزیراعظم بننے اور مسلم دشمن شبیہ بدلنے کے لئے انہوںنے کیا جتن نہیں کئے۔ سدبھاؤنا یاترا نکالی۔ ڈیولپمنٹ ، سالانہ دو کروڑ ملازمتیں، اچھے دن آئیں گے اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کا جھانسہ دیا لیکن وزیراعظم بننے کے بعد اپنی اصلیت پر آگئے۔ ایک موقع پر انہوںنے کہا تھا کہ وہ مسلمانوں کے ایک  ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں لیپ ٹاپ دیکھنا چاہتے ہیں لیکن جب مسلمان اور مسلم خواتین سی اے اے کے خلاف پُرامن مظاہروں اور دھرنوں کا حصہ بنیں تو انہیں غدار اور پاکستانی ایجنٹ کہا گیا۔
  کانگریس کی خستہ حالی کے بعد الیکشن جیتنے کیلئےمودی کے پاس  مسلم دشمنی کا واحد تیربہدف نسخہ بچا ہے۔ بدقسمتی سے بنگال کے الیکشن میں وہ بھی کام نہ آیا۔ اگر مودی اوران کے بھکتوں کو اپنی مقبولیت کا اتنا ہی زعم ہے تو انہیں چاہئے کہ ایک الیکشن مسلمانوں کے خلاف نفرت کے پرچار کے بغیر لڑیں، آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوجائے گا۔ 
  مودی نے اپنے دور میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ان کی بازگشت بیرونِ ملک بھی سنی گئی ۔ بین الاقوامی میڈیا نے مسلم دشمنی میں شدت اور کووڈ۔۲ سے نمٹنے میں ناکامی کے لئے راست طورپر مودی کی خودسَری کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ مودی کی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کے  اسیر ہیں جو اپنے آگے کسی  کی سنتے ہیں نہ کسی کو سمجھتے ہیں۔ وہ شخصیت پرستی اور خوشامدپسندی کے خُوگر ہیں جس کی تازہ مثال ۱۷؍ ستمبر کو مودی کی ۷۱؍ ویں سالگرہ پر دیکھنے کو ملی ۔ ملک کے تمام بڑے اخبارات نے پورے صفحے کے اشتہار میں ان کی تعریف کے پُل باندھے ۔ اس معاملے میں پرائیویٹ نیوز چینلس بھی دور درشن سے پیچھے نہیں تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ سالگرہ کے اگلے ہفتے ہاوسٹن میں دوسال پہلے ہوئے ’ہاؤڈی مودی‘ کے بعد مودی پہلی بار امریکہ کے دورے پر جارہے تھے اور میڈیا یہ جتانا چاہتا تھا کہ مودی آج بھی اتنے ہی مقبول ہیں جتنا پہلے تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس عرصے میں ہندوستان اورامریکہ میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ ہاؤسٹن میں مودی نے غیر مقیم ہندوستانیوں کے  جلسے میں ’ اب کی بارٹرمپ سرکار‘ کا نعرہ دیا تھا۔ صدارتی الیکشن میں ٹرمپ کی شکست مودی کے لئے یقیناً جھٹکا ثابت ہوئی ہوگی ۔ کیونکہ دونوں دائیں بازو کے نظریات کے حامل ہیں جبکہ موجودہ صدربائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس ٹرمپ کے الٹ واقع ہوئے ہیں۔ دونوں کثرت میں وحدت اور جمہوری اقدار کے قائل  اور تنگ نظری اور نفرت  کی سیاست کے خلاف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بائیڈن نے منصب سنبھالنے کے بعد ٹرمپ کے کئی احکامات کو منسوخ کردیا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ٹرمپ کو مودی کی کُھلی حمایت ان دونوں  اور  ڈیموکریٹک پارٹی کو کَھلی ہوگی۔ ہندوستان میں بڑھتی عدم روا داری اور مذہبی تشدد بھی کسی سے چھپا نہیں  ۔ سابق امریکی صدر اوبامہ نے ایک نہیں دوبار ’مودی کی توجہ اس پر مبذول کی تھی پہلی بار اس وقت جب ۲۰۱۵ء میں یوم جمہوریہ کی تقریب میں شرکت کیلئے وہ ہندوستان آئے تھے اور دوسری بار اس وقت جب وہ صدارت چھوڑ چکے تھے۔اِسی طرح کووڈ ۔۲ کی پیشگی اطلاع کے باوجود اس سے نمٹنے میں مودی حکومت کی کوتاہی وناکامی کو ساری  دنیا نے دیکھا۔ جس وقت آلات وادویات اورانجکشنوں کی کمی لاکھوں مریضوں کی جان لے رہی تھی اس وقت مودی۔ شاہ اور دیگر لیڈران بنگال کی انتخابی مہم میں کووڈ پروٹول کی پروا کئے بغیر ہزاروں کی بھیڑ سے ووٹ کی اپیل کررہے تھے اور ہری دوار کے کمبھ میلے میں لاکھوں زائرین گنگا میں ڈبکی لگارہے تھے۔ اس پر بین الاقوامی اور بالخصوص امریکی میڈیا نے مودی کی خوب خبر لی تھی۔
  ان حالات میں یہ امید رکھنا کہ امریکہ میں مودی کا شایان شان استقبال کیاجائے گا، خام خیالی تھی ورنہ کیا بات ہے کہ نیوزپورٹلوں کے مطابق امریکی سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد حکومت کا کوئی بڑا ادھیکاری ان کے استقبال کو نہیں آیا۔ ایسا ہی منظر وہائٹ ہاؤس پر دیکھنے کو ملا۔ بائیڈن نے مودی کے سواگت کی زحمت کی نہ انہیں رخصت کرنے آئے۔بکاؤ   نیوزچینلوںنے تو ان مناظر کو بار بار دکھایا جس میں مودی سے ہاتھ ملانے کیلئے  مودی بھکتوں کی بھیڑ موجود تھی لیکن نیوز پورٹل کی اس کلپ کو گول کرگئے جس میں وہائٹ ہاؤس کے قریب کھڑے لوگ ہاتھوں میں ’ مودی گو بیک ‘ کے نعرے لگارہے تھے۔ رہی سہی کسر کملا ہیرس اور بائیڈن نے پوری کردی۔ ملاقات کے دوران کملا ہیرس نے مودی کو جمہوریت کا پاٹھ پڑھایا اور امید ظاہر کی کہ وہ ہندوستان میں جمہوری اقدار کو مضبوط کرنے اورجمہوری اداروں کو بااختیار بنانے پر توجہ دیں گے۔
  مودی کی ایک عادت سبھوں نے دیکھی اور محسوس کی ہوگی کہ وہ عالمی سطح کے لیڈروں سے ایسا ٹوٹ کر بغلگیر ہوتے ہیں جیسے برسوں کا یارا نہ ہو، بائیڈن نے انہیں اس کا موقع نہیں دیا۔ لیکن یاد دلایا کہ اگلے ہفتے مہاتما گاندھی کا جنم دن ہے اور  میںسمجھتا ہوں کہ ان کے عدم تشدد، باہمی احترام اور مذہبی رواداری کے پیغام کو پھیلانے کی آج جتنی ضرورت ہے ، پہلے نہیں تھی۔
  ان معروضات کی روشنی میں بی جے پی لیڈروں کا  دورے کو کامیاب بتاکر  دہلی ایئر پورٹ کے باہر ڈھول تاشے کے ساتھ مودی کا استقبال کرنا، اُن پر پھول برسانا اور دعویٰ کرنا کہ اس سے دنیا میں ہندوستان کا وقار بلند ہوا  ، ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔ عقلمندوں کو اشارہ کافی ہوتا ہے۔ بائیڈن اور کملا ہیرس نے اشاروں اشاروں میں ہندو توا وادیوں کی دُکھتی رگ پر اُنگلی رکھ  دی ہے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK