Inquilab Logo

مودی جی کی امریکہ یاترا

Updated: September 29, 2021, 7:43 AM IST | Pervez Hafeez | Mumbai

وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکہ میں درجن بھر سے زیادہ میٹنگوں میں حصہ لیا۔ ان میں سب سے اہم تھیں ان کی امریکی صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کملاہیرس سے ملاقاتیں، ’’کواڈ‘‘ کے سربراہی اجلاس میں شرکت اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب۔وہائٹ ہاؤس میں ہندوستانی وزیر اعظم کا نہ صرف گرم جوشی سے استقبال کیا گیا بلکہ بائیڈن۔مودی مذاکرات طے شدہ ایک گھنٹے کے بجائے نوے منٹ تک چلتے رہے۔

Prime Minister Narendra Modi.Picture:INN
وزیر اعظم نریندر مودی تصویر آئی این این

اتوار کے دن وزیر اعظم نریندر مودی امریکہ کا تین روزہ دورہ ختم کرکے دہلی لوٹ آئے۔ ان تین دنوں میں وزیر اعظم نے درجن بھر سے زیادہ میٹنگوں میں حصہ لیا۔ ان میں سب سے اہم تھیں ان کی امریکی صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کملاہیرس سے ملاقاتیں، ’’کواڈ‘‘ کے سربراہی اجلاس میں شرکت اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب۔وہائٹ ہاؤس میں ہندوستانی وزیر اعظم کا نہ صرف گرم جوشی سے استقبال کیا گیا بلکہ بائیڈن۔مودی مذاکرات طے شدہ ایک گھنٹے کے بجائے نوے منٹ تک چلتے رہے۔ اچھے میزبان کی مانند بائیڈن نے ہندوستان میں اپنے ہم نام لوگوں کی موجودگی پر ہنسی مذاق کرکے ماحول کو خوشگوار بنانے کی کوشش بھی کی لیکن مودی جی کی باڈی لینگویج سے لگا جیسے وہ خود کو ’’ اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ جیسی بھیانک سفارتی غلطی کا مجرم سمجھ رہے تھے۔ بہرحال دونوں لیڈروں نے اس دوطرفہ بات چیت میں تجارتی اور اقتصادی تعلقات اور دفاعی تعاون کو مزید مستحکم کرنے پر زور دیا۔تین دنوں میں مودی جی کی امریکی صدر کے ساتھ کواڈ سربراہی کانفرنس کے دوران ایک بار پھر بات چیت ہوئی۔ لیکن اس بار آسٹریلیا اور جاپان کے وزرائے اعظم بھی ان مذاکرات میں شامل ہوئے۔دو گھنٹوں تک چلے اجلاس کے خاتمے پرایک مشترکہ اعلامیہ جاری کرکے انڈو پیسیفک کو کھلا اور جبر سے آزاد خطہ بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔  
 اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب ایک سالانہ روٹین کا حصہ تھا لیکن مودی جی کی تقریر سے سن کر ایسا لگا گویا وہ انتخابی بھاشن دے رہے تھے۔ انہوں نے کورونا وائرس سے نمٹنے میں اپنی شاندار کامیابیوں کا بھی ڈھول پیٹا اور آتم نربھر بھارت کا بھی۔ مودی جی نے افغانستان کی دھرتی کو دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کا مطالبہ بھی کیا اور پاکستان کو انتباہ بھی کہ دہشت گردی کی آگ خود اسے جلا سکتی ہے۔ اور ہاں یاد آیا! ایک معمولی چائے والے کے بیٹے کا ہندوستان کا وزیر اعظم بن جانے کا کرشمہ بیان کرکے مودی جی نے سب سے بڑے بین الاقوامی پلیٹ فارم سے اپنی ذاتی تشہیر بھی کرڈالی۔
  اگر مارچ میں بنگلہ دیش کے مختصر سفر کو شمار نہ کریں تو مودی جی کا دو سال میں یہ پہلا غیر ملکی دورہ تھا اس لئے امریکہ یاترا پربی جے پی  کا جشن منانا یا ان کی واپسی پر ڈھول تاشے بجانا ناقابل فہم نہیں ہے۔کورونا کی دوسری لہر کی تباہ کاریوں سے نمٹنے، بے روزگاری اور مہنگائی پر بریک لگانے، ملک میں فرقہ وارانہ تشدد پر لگام لگانے اور جمہوری اقدار کے زوال کو روکنے میں ناکامی کے سبب دنیا میں مودی جی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے بعد بھی پارٹی صدر نڈا مودی جی کو ’’عالمی لیڈر‘‘ بنانے پر اس لئے مصر ہیں تا کہ مودی بھکت ان کی بھکتی میں لگے رہیں۔ نڈا جی سے بھلا کون پوچھنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ اگر مودی جی ورلڈ لیڈر ہیں تو اقوام متحدہ میں جب وہ اپنے زور خطابت کامظاہرہ کررہے تھے اس وقت ہال کی زیادہ تر کرسیاں خالی کیوں تھیں اور نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور سی این این سمیت امریکی ذرائع ابلاغ مودی کے تذکرے سے خالی کیوں تھے؟
 لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مودی جی کی امریکہ یاترا ناکام رہی۔ یہ صحیح ہے کہ بائیڈن کا یہ انتخابی وعدہ تھا کہ انسانی حقوق کا ان کی خارجہ پالیسی میں مرکزی کرداررہے گا۔ یہ بھی سچ ہے کہ بائیڈن اور ہیرس نے کشمیر کی خود مختاری کے خاتمہ اور سی اے اے پر مودی سرکار کی مذمت کی تھی۔ اس سے بھی انکار نہیں کہ مودی جی نے ’’ہاؤڈی مودی‘‘ اور ’’ نمستے ٹرمپ ‘‘ کا انعقاد کراکے امریکہ کی اندرونی سیاست میں بالکل غیر ضروری مداخلت کا ارتکاب کیا تھا اورتجزیہ نگاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا بائیڈن حکومت اور مودی سرکار کے رشتے کشیدہ رہیں گے۔ وہائٹ ہاؤس میں انہیں ملاقات کا شرف بخش کر بائیڈن نے یہ واضح پیغام دے دیا کہ انہوں نے مودی جی کو ان کی سفارتی لغزش کے لئے بخش دیا ہے۔
  امریکی خارجہ پالیسی میں متعددایسے ایشوز ہیں جن پر ڈیموکریٹ اور ریپبلیکن  کا موقف کم و بیش ایک جیسا رہتا ہے جسے Bipartisan supportکہاجاتا ہے۔ امریکہ اور ہندوستان کا اسٹریٹجک رشتہ ایسا ہی ایک ایشو ہے جس پر دونوں پارٹیوں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ ٹرمپ کی طرح بائیڈن نے مودی جی کو’’ مائی فرینڈ‘‘کہہ کر بھلے ہی مخاطب نہ کیا ہو یا فرط جذبات سے مغلوب مودی کو بغل گیر ہونے کا موقع بھلے ہی نہ دیا ہو لیکن اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے بھی ان تمام امور پر ہندوستانی وزیر اعظم سے کھل کر بات کی جو دونوں فریقین کے لئے اہم تھیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے چین میں امریکہ کا نیا عالمی دشمن دریافت کرلیا ہے۔ ساؤتھ چائنا سمندر میں چین کی بڑھتی عسکری طاقت کو روکنے کی خاطر کواڈ کی سرگرمیاں تیز کردی گئی ہیں۔ کواڈ میں صرف  ہندوستان ایسا ملک ہے جس کی سرحدیں چین کے ساتھ ملتی ہیں۔ پچھلے سال گلوان میں چین کے ساتھ ہوئے فوجی تصادم کے بعد ہندوستان بھی چینی جارحیت اور توسیع پسندانہ عزائم کے ہاتھوں پریشان ہے۔ مشترکہ دشمن کو سبق سکھانے کے لئے اپنے ملکوں کے اسٹریٹیجک رشتوں کو مزید مستحکم کرنا مودی جی کی بھی مجبوری ہے اور بائیڈن کی بھی۔ اب خواہ مودی جی کے راج میں  ہندوستان میں مذہبی منافرت بڑھی ہو یا اقلیتوں اور دلتوں پر زندگی تنگ کردی گئی ہو،لوگوں کے انسانی حقوق پامال کئے گئے ہوں یا جمہوری اقدار اور اظہار آزادیٔ رائے کو کچلا گیا ہو، بائیڈن ان سب کی وجہ سے  ہندوستان کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کا رسک ہر گز نہیں اٹھا سکتے ہیں۔ مزید برآں افغانستان میں شرمناک پسپائی کے بعد بائیڈن تنقید کی زد میں ہیں۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد خطے میں پاکستان، چین، روس، ایران، ترکی اور وسطی ایشیا کے چند ممالک طالبان حکومت کی حمایت پر قریب آرہے ہیں۔ امریکہ اور  ہندوستان دو ایسے اہم ممالک ہیں جنہوں نے جنگ زدہ افغانستان کی تعمیر نو پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی لیکن آج خطے کی بدلی ہوئی جیو پالیٹکس میں دونوں کا پتہ صاف ہوگیا ہے۔ افغانستان میں مجوزہ نئے گریٹ گیم میں امریکہ کی شمولیت کے لئے بھی بائیڈن کو مودی جی کا ہاتھ تھامنا پڑا۔ قصہ مختصر یہ کہ اپنے جغرافیائی محل وقوع اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی والا ملک ہونے کی وجہ سے عالمی منظرنامے پر ہندوستان کی پوزیشن بے حد اہم ہے۔ اب رہی بات جمہوری اقدار کے زوال کی یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تو امریکہ کے عوام اور ڈیموکریٹ پارٹی کے حمایتیوں کی تسلی کے لئے بائیڈن اور کملا ہیرس نے مودی جی کو جمہوریت، رواداری، اورسیکولرزم کی چھوٹی چھوٹی دو گولیاں کھلا کر اپنا فرض ادا کر تودیا۔یاد رکھیں کہ کسی  ملک کی خارجہ پالیسی کی بنیاد اس کے قومی مفاد سے وابستہ ہوتی ہے۔ اگر امریکہ اور  ہندوستان کے مفادات میں ہم آہنگی ہوگی تو وہائٹ ہاؤس میں کون براجمان ہے یا لال قلعہ پر پندرہ اگست کو ترنگا کون لہراتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK