Inquilab Logo

سیاسی اخلاقیات اب ماضی کی باتیں معلوم ہوتی ہیں

Updated: March 22, 2020, 1:44 PM IST | Qutbuddin Shahid

کرناٹک کے بعد مدھیہ پردیش میں جس طرح سے سیاسی سودے بازی کے معاملات سامنے آئے ہیں اور ان پر عدالتی رویہ بھی نرم نظر آیا ہے، ایسے میں اس بات کا خدشہ زیادہ محسوس ہورہا ہے کہ آئندہ دوسری ریاستوں میں بھی یہ حربہ آزمایا جائے گا۔کل تک یہ باتیں معیوب تصور کی جاتی تھیں اور انہیں جرم سمجھا جاتا تھا لیکن افسوس! کہ اب ان باتوں کو حکمت عملی تصور کیا جانے لگا ہے۔اب سیاسی اخلاقیات پر گفتگو کرنا ماضی کی باتیں معلوم ہوتی ہیں

MP Political Crisis - Pic : PTI
ایم پی سیاسی ہنگامہ ۔ تصویر : پی ٹی آئی

مجھے  جولائی ۱۹۹۳ء میں پارلیمنٹ کا وہ واقعہ یاد آرہا ہے، جس میں اُس وقت کے وزیراعظم نرسمہا راؤ پر’ عدم اعتماد کی تحریک‘ کے دوران ’جھارکھنڈ مکتی مورچہ‘ کے چار اراکین کو اپنے پالے میں کرنے کیلئے رشوت دینے کا الزام عائد ہوا تھا۔سی بی آئی نے ’فعال‘ کردار ادا کرتے ہوئے نرسمہا راؤ کے ساتھ ہی کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق وزیراعلیٰ بوٹا سنگھ پر معاملہ درج کیا تھا اور انہیں ملزم ٹھہرایا تھا اورتقریباً ۱۰؍ سال تک یہ معاملہ عدالت میں چلا تھا۔ ۲۰۰۲ء میں کہیں جاکردہلی ہائی کورٹ نے دونوں لیڈروں کو ان الزامات سے بَری کیا تھا۔ آج کے حالات میں اُس واقعے  پر غور کریںتو ہنسی آتی ہے کہ اگر آج سی بی آئی اُسی طرح ایمانداری کا مظاہرہ کرنے لگے تو کیا ہوگا؟کتنے لیڈروں پر معاملہ درج ہوگا اور کتنے جیل جائیںگے؟ پھر یہ خیال بھی آتا ہے کہ آج  اس طرح کے معاملات ہماری عدالتوں میں ’ٹکیں‘ گے بھی یا نہیں؟
  صورتحال یہ ہے کہ آج سیاسی اخلاقیات پر باتیں کرنا فضول معلوم ہوتا ہے اور یہ سب ماضی کی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔سیاسی اخلاقیات کی کسوٹی اور اس کا پیمانہ بدل چکا ہے۔ اب اسے ۲۰۱۴ء سے پہلے اور اس کے بعد کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ جن کاموں کو پہلے ہم معیوب سمجھتے تھے اور جرم کے زمرے میں رکھتے تھے،اسے اب سیاسی حکمت عملی تصور کیا جانے لگا ہے۔ کل  تک ہم اس طرح کی کوششوں پر تنقید کرتے تھے لیکن اب اسی کی تعریف کرتے ہیں۔ ملک میں صرف سیاسی مساوات اورحالات نہیں بدلے ہیں بلکہ سیاسی اخلاقیات اور اس کی تعریف میں بھی تبدیلی ہوئی ہے۔ 
 مدھیہ پردیش میں کانگریس کے ٹکٹ  پر منتخب اراکین اسمبلی کی راتوں رات قلبی ماہیت اور سابق چیف  جسٹس رنجن گوگوئی کا راجیہ سبھا کیلئے نامزدگی   دو ایسے واقعات ہیں جو’کل‘کی تاریخ میں غلط تھے لیکن ’آج‘ درست قرار دیئے جارہے ہیں۔ افسوس کہ اِن واقعات پر عوامی چہ میگوئیاں بھی  نہ کے برابر ہیں۔ جسٹس رنجن گوگوئی کو راجیہ سبھا میں بھیجنے جانے پر ہلکی پھلکی تنقید ضرور ہوئی لیکن مدھیہ پردیش کے سیاسی حالات پر اس ہلکی پھلکی تنقید کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ستم ظریفی دیکھئے کہ میڈیا میںاسے بی جے پی کا ’ماسٹر اسٹروک‘ قرار د یا جارہا ہے۔۲۰۱۴ء  کے پارلیمانی انتخابات میں نمایاں کامیابی کے بعد بی جے پی نے ’کانگریس مکت بھارت‘ کا نعرہ دیا تھا۔ اس نعرے کے بعد اسے بعض ریاستوں میں کامیابی بھی ملی جسے اس نے عوامی توثیق سمجھا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسے جن ریاستوں میں عوامی سطح پر حمایت نہیں ملی، اس نے وہاں ’عوامی نمائندوں‘ کی حمایت سے اقتدار ہتھیانے کی کوشش کی۔ کئی جگہوں پر اسے کامیابی ملی اور کئی جگہوں پر ناکامی ہاتھ آئی۔  اپوزیشن کے اپنے انتشار اوراس کی اپنی کوتاہیوں کے باوجود تمام معاملات میں واضح طورپر سودے بازی کے معاملات نظرآرہے ہیں لیکن ایک اتراکھنڈ کو چھوڑ کر باقی تمام جگہوں پر عدالتوں کا رویہ مایوس کن رہا  اور اس دوران سی بی آئی بھی پنجرے کے طوطے کا کردار ادا کرتی رہی۔  
 منی پور، تریپورہ، میگھالیہ ،گوا اور جموںکشمیر میں (پی ڈی پی کے ساتھ) بی جے پی کی حکومت سازی کو اگر درست بھی مان لیں توگجرات میں ہونے والے راجیہ سبھا کے الیکشن کے بعد کرناٹک اور ابھی مدھیہ پردیش میں اراکین اسمبلی کی خریدوفروخت کو کیسےہضم کیا جائے؟ جہاں واضح طورپرلین دین اور لالچ کا معاملہ نظر آتا ہےمگر افسوس کہ اسے روکنے کی کوئی بھی کوشش کہیں سے نہیں ہوئی۔عدالت سے بھی جس طرح کے عوامی توقعات وابستہ تھے،اس کی بھی تکمیل نہیں ہوئی۔ایسے میںکچھ بعید نہیں کہ آئندہ کچھ دنوں  میں دیگر ریاستوں میں بھی اراکین اسمبلی کی اسی نہج پر خریدوفروخت   ہو۔ 
 اراکین اسمبلی کی اس خریدوفروخت پر عوام ایک طرح سے خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ کوئی عوامی نمائندہ کسی اور پارٹی کے نام پر ووٹ مانگے اور کامیاب ہوجانے کے بعد کسی اور پارٹی کا دامن تھام لے؟ اسی  سلسلے کو روکنے کیلئے راجیو گاندھی کے دور حکومت میں ۱۹۸۵ء میں ’دل بدلی مخالف‘ قانون منظور ہوا تھا جس کے تحت اگر کسی پارٹی کے اراکین ایک تہائی سے کم تعداد میں پارٹی لائن سے الگ موقف اختیار کرتے ہیں یا پارٹی سے بغاوت کرتے ہیں تو ان کا انتخاب باطل قرار دیا جائے گا ۔اس صورت میں اس حلقے میں دوبارہ الیکشن ہوگا جہاں سے وہ نمائندہ جس کی رکنیت باطل ہوئی ہے، ۶؍ سال کیلئے الیکشن نہیں لڑ پائے گا۔ بی جے پی نے اس قانون کا توڑ یہ نکالا ہے کہ رکنیت باطل ہونے سے قبل خریدے گئے اراکین سے استعفیٰ دلوا دیتی ہے تاکہ ضمنی انتخابات میں وہ حصہ لینے کے قابل رہیں۔ـ’دل بدلی مخالف‘ قانون کی ضرورت دراصل اسلئے پڑی تھی کہ آج کی طرح  اُس وقت بھی اپنے مفاد کی خاطر اراکین اسمبلی اور اراکین پارلیمان راتوں رات پالا بدل لیتے تھے اور’آیا رام ، گیا رام‘ کا ایک سلسلہ سا چل پڑا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ اُس وقت اس معاملے میں اعلیٰ سطحی لیڈروں کے ملوث ہونے کی باتیں سامنے نہیں آتی تھیں، سارا کام نچلی سطح پر ہوجاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ۱۹۶۷ء میں ہریانہ کے ایک رکن اسمبلی ’گیا لال‘ نے ایک دن میں تین مرتبہ پارٹی تبدیل کی تھی، اس کی وجہ سے ’آیا رام گیا رام‘ کی کہاوت مشہور ہوئی تھی۔  
 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ ۱۹۸۵ء میں دل بدلی مخالف قانون بننے کے بعد کچھ حد تک  اس پر لگام ضرور لگا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب یہ قانون ناکافی ہے۔ ایسے میں برسرِ اقتدار جماعت سے اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس کے تدارک پر کوئی توجہ دے گی  یا اس تعلق سے وہ کوئی حکمت عملی ترتیب دے گی کیونکہ اس رجحان کو اسی نے زیادہ فروغ دیا ہے ۔ ان حالات میں عدالت سے جزوی طور پر مایوسی کے باوجود امیدوہیں سے ہے کہ اگر اس تعلق سے کچھ ہوا، تو وہیں سے ممکن ہے۔ سوال پھر وہی کہ کیا ہو؟ عوامی سطح پر یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ جس طرح ایک عام رائے دہندہ کو ایک مرتبہ اپنا ووٹ دے دینے کے بعد اسے تبدیل کرنے کا اختیار نہیں ہوتا،اسی طرح ایک رکن اسمبلی یا رکن پارلیمان سے بھی  پانچ سال کیلئے یہ اختیار چھین لیا جانا چاہئے۔اس تعلق سے مشہور قانون داں فیضان مصطفیٰ کہتے ہیں کہ ’’کچھ ایسا ہونا چاہئے کہ پارٹی تبدیل کرنےوالا ایم ایل اےپورے پانچ سال کی مدت تک انتخابات میں حصہ نہ لے سکے.... اور اگر وہ اعتماد یا عدم اعتماد کی تحریک میں حصہ لے تو اس کا ووٹ شمار نہ کیا جائے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK