Inquilab Logo

رُسوا کیا اس دَور کو جلوت کی ہوس نے

Updated: March 11, 2022, 3:51 PM IST | Maulana Khalid Saifulah Rahmani | Mumbai

اسلام نے مردوں اور عورتوں کے غیر شرعی اختلاط کی ممانعت کی ہے۔ اس نے اگر عورتوں کو پردہ کا حکم دیا ہے تو مردوں کو نگاہ نیچی رکھنے کی تلقین کی ہے۔ اس لئے تعلیم گاہوں میں لڑکوںکیلئے علاحدہ اور لڑکیوں کے لئے علاحدہ نظم ِ تعلیم ہی نہیں، اُن کا نصاب تعلیم بھی مختلف ہو تو اس کے بہت عمدہ نتائج برآمد ہوں گے۔ اس مضمون کا لب لباب یہی ہے۔

 Give priority to the field of education for women which is in line with their role in the society..Picture:INN
خواتین تعلیم کے لئے اس میدان کو فوقیت دیں جو سماج میں ان کے کردار سے مطابقت رکھتا ہے۔ تصویر: آئی این این

یہ بات بہت سنجیدگی سے سوچنے کی ہے کہ تعلیم کا مخلوط نظام کس حد تک قابل قبول ہے؟ مخلوط تعلیم کے مسئلہ میں دو پہلو قابل توجہ ہیں: اول یہ کہ کیا لڑکوں اور لڑکیوں کا نصابِ تعلیم ایک ہی ہونا چاہئے یا جُدا گانہ؟ دوسرے لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم ایک ساتھ ہونی چاہئے، یا الگ الگ؟ جہاں تک نصاب تعلیم کی بات ہے تو کچھ اُمور ضرور ایسے ہیں جو دونوں کے درمیان مشترک ہیں، اور ان کا نصاب لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے یکساں ہو سکتا ہے، جیسے زبان و ادب، تاریخ، جنرل نالج، جغرافیہ، ریاضی، جنرل سائنس اور سوشل سائنس وغیرہ؛ لیکن کچھ مضامین اور تعلیمی میدان ایسے ضرور ہیں جن میں لڑکے اور لڑکیوں میں فرق کرنا ہوگا۔ میڈیکل تعلیم میں ایک اچھا خاصا حصہ خاص خواتین سے متعلق ہے اور اس لئے زمانۂ قدیم ہی سے ’’امراض نسواں ‘‘ طب کا مستقل موضوع رہا ہے، یہ لڑکیوں کے لئے نہایت اہم ہے، لڑکیوں کی تعلیم میں اُمورِ خانہ داری کی تربیت ضرور شامل ہونی چاہئے، سلائی، کڑھائی، پکوان، بچوں کی پرورش کے اُصول اور اس طرح کے مضامین ضرور شریک ہونے چاہئیں، اس سے نہ صرف گھریلو زندگی میں لڑکیاں زیادہ بہتر رول ادا کر سکتی ہیں؛ بلکہ ازدواجی زندگی کی خوشگواری، خاندان میں ہر دلعزیزی اور مشکل اور غیر متوقع حالات میں آپ اپنی کفالت کے لئے یہ آج بھی بہترین وسائل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کے لئے ان کے حسب ِحال آداب معاشرت کی تعلیم نہایت اہم ہے؛ کیوں کہ ایک لڑکی اگر بہتر بیوی اور بہتر ماں نہ بن سکے تو سماج کو اس سے کوئی فائدہ نہیں، اس لئے رسول اللہ ﷺنے مردوں سے علاحدہ خواتین کی تعلیم و تذکیر کے لئے ہفتہ میں ایک دن مستقل طور پر متعین فرما دیا تھا، جس میں خواتین جمع ہوتیں اور آپؐ  ان کو ان کے حسب ِحال نصیحتیں فرماتے اور ہدایات دیتے۔ ( بخاری : کتاب العلم) آپؐ  نے ارشاد فرمایا کہ خواتین کے دل بہلانے کیلئے بہترین مشغلہ دھاگے کاتنا ہے۔ (کنزالعمال،  حدیث نمبر: ۴۰۶۱۱، باب اللھو واللعب والغنی)  کیوں کہ اس زمانہ میں دھاگے کاتنا ایک گھریلو صنعت تھی اور آج سے پچاس سال پہلے تک بھی بہت سے گھرانوں کا اسی پر گزران تھا۔    غور کیجئے کہ جب قدرت نے مردوں اور عورتوں میں تخلیقی اعتبار سے فرق رکھا ہے، اعضاء کی ساخت میں فرق، رنگ روپ میں فرق، جسمانی قُویٰ میں فرق، مزاج و مذاق میں فرق اور پسند  ناپسند میں فرق، پھر قدرتی طور پر افزائش نسل اور اولاد کی تربیت میں دونوں کے کردار مختلف، تو کیوں کر ممکن ہے کہ سماج میں دونوں کے فرائض اور ذمہ داریاں الگ الگ نہ ہوں اور جب ذمہ داریاں علاحدہ ہیں، تو ضرور ہے کہ اسی نسبت سے دونوں کے تعلیمی اور تربیتی نصاب اور مضامین بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوں۔ اگر اس فرق کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو یہ کسی بھی معاشرہ کے لئے نہایت ہی مہلک اور مضرت رساں ہے، علامہ اقبالؒ نے خوب کہا ہے :  جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن  کہتے ہیں اُسی علم کو اربابِ نظر موت بیگانہ رہے دِیں سے اگر مدرسۂ زن ہے عشق و محبت کے لئے عِلم و ہنر موت خواتین کو بھی چاہئے کہ وہ تعلیم کے لئے وہ میدان تلاش کریں، جو سماج میں ان کے کردار سے مطابقت رکھتا ہے اور تعلیم کے وہ شعبے جو ان کے لئے موزوں نہیں، ان میں ان کا داخل ہونا بے سود ہے اور آئندہ اس شعبہ میں ملازمت سماج کے لئے اور خود ان کے لئے مہلک اور نقصان دہ۔ اس لئے قرآن مجید نے ایک اُصول بتا دیا ہے کہ مرد اور عورت اپنے اپنے دائرہ میں رہتے ہوئے جد وجہد کریں، اپنے دائرہ سے ہٹ کر دوسرے کے دائرہ عمل میں قدم رکھنے کی کوشش نہ کریں، ارشاد ہے:  ترجمہ : ’’اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایک کو دوسرے پر جو فضیلت عطا کی ہے، اس کے بارے میں رشک میں مبتلا نہ ہو، مردوں کے لئے ان کے اعمال میں حصہ ہے اور عورتوں کے لئے ان کے اعمال میں اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل و کرم مانگتے رہو، بے شک اللہ ہر چیز سے واقف ہیں۔‘‘ (النساء:۳۲)  یہ آیت در اصل معاشرتی زندگی کے آداب کے سلسلے میں آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہے کہ قدرت نے سماج کو اختلاف اور رنگا رنگی پر پیدا کیا ہے، کسی بات میں مردوں کو فوقیت حاصل ہے تو کسی معاملہ میں وہ عورتوں کا محتاج اور دست نگر ہے، قدرت نے جس کو جو کام سپرد کیا ہے، اس کے لئے وہی موزوں ہے؛ کیوں کہ خالق سے بڑھ کر کوئی مخلوق کی فطرت و صلاحیت اور ضرورت سے واقف نہیں ہو سکتا، یہ مغرب کی خود غرضی اور بے رحمی ہے کہ اس نے عورتوں سے ’’ حق مادری ‘‘ بھی وصول کیا اور ’’ فرائض پدری ‘‘ میں بھی اُن کو شریک ہونے پر مجبور کیا اور چوںکہ مرد اپنی ذمہ داری کا بوجھ بھی اس کے کاندھوں پر رکھنا چاہتا تھا، اس لئے اس نے ایسا نظامِ تعلیم وضع کیا، جس میں عورتوں کو مرد بنانے کی صلاحیت ہو۔ پیغمبراسلام ﷺ نے ارشاد فرمایا، کہ تین افراد وہ ہیں جو جنت میں کبھی داخل نہ ہوں گے، ان تین میں سے ایک کا ذِکر کرتے ہوئے فرمایا :  اَلرَّجُلَۃُ مِنَ النِّسَاءِ (سنن ابی داؤد : ۶۱۰۱) یعنی ’’عورتوں میں سے مرد‘‘ دریافت کیا گیا، عورتوں میںمرد سے کون لوگ مراد ہیں؟ فرمایا: وہ عورتیں جو مردوں کی مماثلت اختیار کریں: والمتشبہات من النساء بالرجال (بخاری، حدیث نمبر: ۵۸۸۵) غالباً جو عورتیں تعلیم وتربیت اور پھر اس کے بعد عملی زندگی میں مردوں کی صف میں کھڑی ہونا چاہتی ہیں، وہ اسی حدیث کا مصداق ہیں۔   مخلوط تعلیم کا دوسرا پہلو لڑکوں اور لڑکیوں کی مشترک درس گاہ اور مشترک تعلیم ہے، ابتدائی عمر جس میں صنفی جذبات سے بچے عاری ہوتے ہیں اور ان میں ایسے احساسات نہیں پیدا ہوتے، مخلوط تعلیم کی گنجائش ہے۔ آٹھ، نو سال کی عمر اور پرائمری کی سطح تک مشترک تعلیمی نظام رکھا جاسکتا ہے، اسی لئے اسلام نے بے شعور بچوں کو غیر محرم عورتوں کے پاس آنے جانے کی اجازت دی ہے، اور قرآن مجید نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے؛ (النور : ۵۸) لیکن جب بچوں میں جنسی شعور بیدار ہونے لگے اور ایک حد تک صنفی جذبات کی پہچان پیدا ہو جائے، توایک ساتھ ان کی تعلیم آگ اور بارود کو ایک جگہ جمع کرنے کے مترادف ہے۔   اسلام کا نقطۂ نظر اس سلسلہ میں بالکل واضح اور بے غبار ہے کہ ایک مرد کا غیر محرم عورت پر نظر ڈالنا کسی طرح روا نہیں۔ حج کے ایام ہیں، فضل بن عباس رضی اﷲ عنہما رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اونٹنی پر سوار ہیں، قبیلۂ بنو خثعم کی ایک لڑکی ایک شرعی مسئلہ دریافت کرنے کے لئے حضرت کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور فضل بن عباسؓ کی نظر ایک لمحہ اس لڑکی پر جم جاتی ہے، آپ ﷺنے فوراً حضرت فضل بن عباس رضی اﷲ عنہما کا چہرہ موڑ دیا۔ جب حج کے پاکیزہ ماحول اور رسول اللہ ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہؓ و صحابیاتؓ کے بارے میں بھی آپ ﷺ نے یہ احتیاط برتی تو اوروں کا کیا ذکر؟ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نگاہ شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر ہے؛ کیوں کہ اصل میں ساری بُرائیوں کی جڑ یہی بدنگاہی ہے، نگاہ ہی سے سارے فتنے جاگتے ہیں، جب بار بار نگاہیں چار ہوتی ہیں، تو جرأت بڑھتی ہے، زبان کو گفتگو کا حوصلہ ہوتا ہے، پھر دست ہوس آگے بڑھتا ہے، ملاقاتیں ہوتی ہیں اور آخر شرم و حیا کے حجابات اُٹھ جاتے ہیں، اس لئے نظر کی فتنہ سامانی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔    مذہبی اور اخلاقی نقطۂ نظر سے تو شاید ہی کوئی سلیم الفطرت انسان اس بات سے انکار کر سکے کہ یہ اختلاط اخلاق کے لئے تباہ کن ہے؛ لیکن علاوہ اس کے تعلیمی اور انتظامی لحاظ سے بھی اس کی مضرتیں سامنے آتی رہتی ہیں، چھیڑ چھاڑ اور فقرہ بازی اب ایسی درس گاہوں کے معمولات میں ہیں، اس سے درس گاہ کا ماحول بے وقار اور غیر مامون ہو جاتا ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ ’’ طلبہ ٔ عزیز ‘‘ کے ساتھ ساتھ بعض اوقات ’’ اساتذۂ گرامی قدر ‘‘ بھی اس حمام میں اُتر جاتے ہیں اور پھر پولیس کیس بھی بنتا ہے، اغواء کے واقعات بھی پیش آتے ہیں، وقتی محبت میں فرار اور بعد میں ندامت کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں اور کتنی ہی ناگفتنی پیش آتی ہے۔  یہ مخلوط تعلیم کا انتظامی پہلو ہے، اب خالص تعلیمی نقطۂ نظر سے دیکھئے، تعلیم در اصل دوباتوں کا نام ہے، جس مضمون کا درس ہو رہا ہے، اسے پوری طرح سمجھنا اور ذہن کی گرفت میں لانا، دوسرے اس مضمون کو اپنے حافظہ اور یاد داشت میں محفوظ رکھنا، ان دونوں باتوں کے لئے ضروری ہے کہ طالب علم پوری طرح اپنے مقصد میں منہمک اور یکسو ہو اور یکسوئی کے لئے دو باتوں کی ضرورت ہوتی ہے، ایک یہ کہ جو پڑھ رہا ہے یا سُن رہا ہے اس کی طرف پوری توجہ ہو، دوسرے ہر طرح کے خوف و خطر اور اندیشوں سے اس کا ذہن محفوظ و مامون ہو۔ اب اول تو بہ تقاضۂ سن و سال یہ مخلوط بیٹھک لڑکوں اور لڑکیوں کی توجہ کو منتشر کرتی رہتی ہے، دوسرے شریف لڑکیاں اوباش لڑکوں کی طرف سے ایک طرح کے اندیشہ سے دو چار رہتی ہیں، اور سہمی سہمی درس گاہ میں اپنا وقت گزارتی ہیں۔ ایسے ماحول میں تعلیم و تعلم  پوری یکسوئی، توجہ اور اِنہماک کے ساتھ کیوں کر انجام پاسکتا ہے؟ کیوں کہ: رُسوا کیا اس دَور کو جلوت کی ہوس نے  روشن ہے ہوس آئینۂ دل ہے مکدر  بڑھ جاتا ہے جب ذوقِ نظر اپنی حدوں سے  ہوجاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر   میرا خیال ہے کہ اگر کوئی ادارہ یا شخص ان طلباء و طالبات کا سروے کرے جو جداگانہ نظام میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ان کا جو مخلوط درس گاہوں میں زیر تعلیم رہے ہیں، تو غالباً تعلیمی اعتبار سے وہ لڑکے اور لڑکیاں زیادہ کامیاب ہوں گے جنہوں نے پہلی قسم کی درس گاہوں میں تعلیم پائی ہے۔ اگر ہم نے موجودہ حالات میں جب کہ ٹی وی اور انٹرنیٹ نے معاشرہ کو بگاڑنے کے لئے صور قیامت پھونک رکھا ہے اور ایک زبر دست یلغار ہے جو مشرقی تہذیب و ثقافت پر پوری قوت سے جاری و ساری ہے، جداگانہ نظامِ تعلیم نہ اختیار کریں، لڑکیو ںکے لئے علاحدہ اسکول کا صحیح بندو بست اور اعلیٰ فنی تعلیم کے ادارے قائم نہ کریں اور ان کے حسب ِحال نصاب نہ مقرر کریں، تو ہمارے لئے اپنی سماجی اورمذہبی قدروں کا تحفظ ممکن نہ ہوگا اور مغرب کی غیرسنجیدہ نقالی ہمیں کہیں کا نہ رکھے گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK