Inquilab Logo

میری دعوت یہ ہے کہ تم اللہ کو ایک مانو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہرائو

Updated: November 27, 2020, 2:03 PM IST | Maolana Nadeemul Wajidi

سیرت نبی ٔ کریم ؐ کی اس خصوصی سیریز میں مکہ مکرمہ کیلئے موسم حج کی اہمیت کا تذکرہ جاری ہے جس میں دور دور سے لوگ حج کا فریضہ ادا کرنے کے لئے آیا کرتے تھے اور آپؐ ان تک دعوت دین پہنچاتے ۔ آج ملاحظہ کیجئے آپﷺ کی مختلف وفود سے ملاقات میں آپﷺ کے ہمراہ کون ہوتا تھا ، ملاقات کب اور کس طرح ہوتی تھی اور اس کے پیچھے کیا حکمت تھی ۔ یہ تفصیل بھی پڑھئے کہ وفود اور قبیلے والوں کا رویہ کیسا ہوتا تھا۔

Hajj
حج

 مؤرخ مقریزیؒ کہتے ہیں کہ ایام حج میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جن قبیلوں کی قیام گاہوں پر پہنچ کر دعوتِ اسلام پیش فرمائی وہ بہت سے ہیں۔ واقدی نے اپنی کتاب میں ان تمام قبیلوں کے نام لکھے ہیں اور ان کے متعلق ضروری معلومات بھی فراہم کی ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے قبیلۂ کندہ کے پاس تشریف لے گئے، پھر بنو کلب کے پاس، اس کے بعد بنی حنیفہ کی قیام گاہ پر، پھر بنی عامر کے یہاں۔ آپؐ   نے قبیلۂ غسّان، بنو مرارۃ، بنو مرہ، بنو سلیم، بنو عبس، بنو نصر، بنو ثعلب بن عکابہ، بنوالحارث بن کعب، بنو عذرہ، بنو قیس بن الخطیم، بنوابوالیسر انس بن ابی رافع وغیرہ قبائل کے ذمہ داروں سے ملاقاتیں کیں۔ آپؐ قبیلے کے کسی شخص سے مل کر اس سے فرماتے کہ کون ہے جو مجھ کو اپنے قبیلے کے ذمہ داروں سے ملا سکتا ہے؟ میں تمہاری قوم تک اللہ کا پیغام پہنچانا چاہتا ہوں۔ قریش تو یہ پیغام سننا نہیںچاہتے۔ ابولہب آپؐ کے پیچھے پیچھے یہ کہتا ہوا پھرتا رہتا لوگو! اس کی بات مت سننا۔  
(امتاع الاسماع المقریزی ۱؍۳۰،۳۱)
دعوت کا طریقہ اور منہج
 قبائل عرب کو دعوت اسلام پیش کرنے کا طریقۂ کار اور منہج و اسلوب یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان قبائل کے ذمہ داروں اور سربراہوں سے براہِ راست ملاقات فرماتے، کیوںکہ وہی اصل ہوتے ہیں، باقی سب لوگ اُن کے تابع ہوتے ہیں، ان لوگوں سے نہ سرِراہ ملاقات فرماتے اور نہ خانۂ کعبہ میں کہیں ان سے ملتے، بلکہ ان کی قیام گاہوں پر تشریف لے جاتے، ان ملاقاتوں کے لئے رات کے وقت کا انتخاب کیا جاتا، کیوںکہ عام طور پر دن کا وقت مصروفیت کا ہوتا ہے، لوگ قیام گاہوں کے بجائے خانۂ کعبہ کے طواف و زیارت میں مشغول زیادہ رہتے ہیں یا خرید و فروخت کے لئے بازاروں میں گھومتے پھرتے ہیں، رات کے وقت سب ایک جگہ جمع ہوتے ہیں، سکون کا وقت ہوتا ہے، اطمینان سے بات کی جاتی ہے، توجہ سے سنی جاتی ہے اور غور و فکر کے بھی کافی مواقع ہوتے ہیں، پھر رات کے وقت ملاقات اور گفتگو میں یہ حکمت بھی پوشیدہ تھی کہ قریش کے لوگوں کو اس کی خبر نہ ہو، ان لوگوں نے کرائے کے ٹٹو چھوڑے ہوئے تھے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل و حرکت پر پوری طرح نظر رکھتے اور اپنے آقائوں کو اس کی خبر پہنچاتے۔ جیسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سے ملاقات کے لئے اس کی قیام گاہ پر تشریف لے جاتے، ابولہب جیسے لوگ فوراً آدھمکتے اور لوگوں کو ورغلانا شروع کردیتے، اس لئے یہ طے کیا گیا کہ رات کی تاریکی میں ملاقاتیں کی جائیں تاکہ قریش کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ اوس و خزرج جیسے قبائلِ مدینہ کے وفود سے ملاقات رات ہی کے وقت ہوئی اور نتیجہ خیز بھی رہی، عنقریب اس کی تفصیل بیان کی جائے گی۔
 ان ملاقاتوں کے دوران حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت علی المرتضیٰؓ بھی ساتھ ساتھ رہتے، ان حضرات کو ساتھ رکھنے کی حکمت یہ تھی کہ قبائل کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا نہ سمجھیں اور نہ یہ خیال کریں کہ ان کے ساتھ خود ان کے خاندان والے بھی نہیں ہیں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ حضرت ابوبکرؓ قبائل عرب سے اچھی خاصی واقفیت رکھتے تھے، وہ جانتے تھے کہ کس قبیلے کا کون سا شخص ذی حیثیت ہے اور کس سے بات کرنا زیادہ مناسب ہے، ان کی نشان دہی پر ہی گفتگو کی جاتی۔ ملاقات سے پہلے یہ بھی معلوم کرلیا جاتا کہ اس قبیلے کا تحالف کس قبیلے سے ہے اور تخالف کن قبائل سے ہے۔ اس طرح کی معلومات سے یہ نتیجہ نکالا جاتاتھا کہ اگر فلاں قبیلے نے اسلام قبول کرلیا اور اس کی مخالفت کی گئی تو فلاں قبیلہ اس کی اعانت کے لئے آگے آسکتا ہے۔ کیوں کہ آپؐ ان قبائل سے اپنا اور مسلمانوں کا تحفظ بھی چاہتے تھے۔ مکے کی سرزمین آپؐ کے لئے تنگ ہوتی جارہی تھی، مستقبل کے لئے آپؐ کی حکمت عملی یہ تھی کہ کسی مضبوط قبیلے کی پشت پناہی حاصل ہو جائے تاکہ قریش کے مظالم سے نجات مل جائے اور دعوت کا کام آزادانہ ماحول میں انجام دیا جاسکے۔ غرضیکہ یہ اہم کام تھا اور اہم کاموں کے جو ضروری تقاضے ہوتے ہیں وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر رہتے تھے اور سب کی تکمیل کی جاتی تھی۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ۲؍۵۲۰۴۴، البدایہ والنہایہ لابن کثیر ۳؍۱۴۰)
قبائل عرب کارد عمل
 تقریباً تمام قبائل کا ردّعمل یکساں تھا، ہوسکتا ہے ان کے عوامل مختلف رہے ہوں، لیکن جواب سب ایک ہی دیتے تھے۔ کہتے کہ ہم آپ کی بات نہیں مان سکتے، ہم آپ کا کہا تسلیم نہیں کرتے، حالانکہ آپؐ  نہایت نرمی، تواضع اور انکساری کے ساتھ خدا کا پیغام پہنچایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ بنو کلب کی ایک شاخ بنو عبداللہ کی قیام گاہ پر تشریف لے گئے اور ان کو اللہ کی طرف بلایا اور بتلایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی گفتگو کا آغاز اس طرح فرمایا: ’اے بنو عبداللہ! اللہ نے تمہارے باپ کا نام کتنا اچھا رکھا ہے‘ مگر انہوں نے اس اندازِ تخاطب کے بعد بھی آپؐ کی بات قبول نہیں کی۔(دلائل النبوۃ للبیہقی ۲؍۴۱۸، البدایہ والنہایہ لابن کثیر ۳؍۱۳۹) بنو کندہ کے سربراہ ملیح نے بات سنی اور معذرت کردی۔ (تاریخ الطبری؍۵۵۶) بعض قبائل کا جواب بڑا تلخ اور سخت ہوتا تھا، جیسا کہ مورخین نے لکھا ہے کہ بنوکندہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر جو کچھ کہا اس سے زیادہ برا جواب کسی اور قبیلے کا نہیں تھا۔(البدایہ والنہایہ ۳؍۱۳۹)۔ حافظ ابن اسحاقؒ امام زہریؒ سے نقل کرتے ہیں کہ آپؐ بنو عامر بن صعصعہ کے پاس بھی تشریف لے گئے، پہلے انہیں اللہ کو اپنا معبود قرار دینے کی دعوت دی، پھر ان کے سامنے اپنی حفاظت کا مسئلہ رکھا اور مکہ مکرمہ میں قریش کا جو طرزِ عمل تھا اس کے متعلق بات کی، ان کے ایک ذمہ دار شخص نے جس کا نام بعض روایتوں میں بَیحرہ بن فراس اور بعض میںفراس بن عبداللہ بن سلمہ آیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات غور سے سنی اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ واللہ! اگر یہ نوجوان میرے ساتھ آجائے تو میں پورے عرب کو ہضم کرجائوں یعنی سب پر فتح حاصل کرلوں، پھر اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: اگر ہم آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کرلیں، پھر اللہ تعالیٰ آپؐ  کو مخالفین پر غالب کردے تو کیا ہم آپ کے بعد حکومت و قیادت کے حق دار ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا یہ معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے، جسے چاہے گا اس کے سپرد فرمادے گا۔ کہنے لگا کہ اگر ایسا ہے تو ہم کیوں اپنی گردنیں عربوں کے تیر و سناں کے نشانوں پر رکھیں، ہماری مدد سے آپ غالب آجائیں اور آپ کے بعد دوسرے لوگ حکمراں اور قائد بنیں، ہم اتنے بے وقوف نہیں ہیں، آپ تشریف لے جائیں، ہم آپ کی مدد نہیں کرسکتے۔ (تاریخ الطبری ۱؍۵۵۶، البدایہ والنہایہ ۳؍۱۳۹) 
  بنوعامر کا یہ وفد اپنے کام سے فارغ ہو کر وطن پہنچا، واپسی کے بعد حجاج لوگ اپنے قبیلے کے بڑوں سے ملتے اور موسم حج میں جو خاص خاص واقعات پیش آتے ان کو سنایا کرتے تھے۔ ان بڑوں میں ایک عمر رسیدہ شخص بھی تھا، اس کے پائوں قبر میں لٹکے ہوئے تھے، کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ آنے والے برس میں کبھی مکے کا سفر کرپائے گا، جب اس شخص کو واقعات کے ضمن میں یہ بتلایا گیا کہ ایک قریشی جوان بنو عبدالمطلب میں سے ان کے خیمے میں آیا تھا، وہ کہہ رہا تھا کہ وہ اللہ کا نبی ہے، وہ ہم سے مدد کا طالب تھا اور کہہ رہا تھا کہ ہم اسے بچائیں اور دشمنوں سے اس کی حفاظت کریں اور اسے اپنے ساتھ لے کر چلیں، اس بوڑھے نے یہ سن کر اپنا سر پیٹ لیا اور کہنے لگا اے بنو عامر! یہ تم نے کیا کیا، اب تو اس کی تلافی بھی نہیں ہوسکتی، گزرا وقت واپس نہیں آتا، خدا کی قسم بنواسماعیل میں سے آج تک کسی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ نہیں کیا، بلاشبہ وہ جوان سچ کہہ رہا تھا، اس وقت تمہاری عقل کہاں چلی گئی تھی؟ (سیرت ابن ہشام ۱؍۳۰۷، ۳۰۸، الروض الا ٔنف ۲؍۱۸۱)
 حضرت علی ابن ابی طالبؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا کہ وہ عرب کے قبیلوں کے پاس جائیں اور انہیں اسلام کی دعوت دیں، اس حکم کے بعد آپؐ  قبائل کو دعوت دینے کے لئے تشریف لے جانے لگے، ایسے موقعوں پرمیں آپؐ کے ہمراہ ہوا کرتا تھا، ہمارا ایک قبیلے میںجانا ہوا، بڑے باوقار لوگ تھے، حضرت ابوبکرؓ نے آگے بڑھ کر انہیں سلام کیا اور پوچھا کون سے قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ انہوں نے بتلایا کہ ہم بنوشیبان بن ثعلبہ ہیں، یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مڑے اور عرض کیا یارسول اللہ! یہ لوگ سربرآوردہ اور معزز لوگوں میں شمار ہوتے ہیں، ان میں ایک شخص مفروق بھی تھا، جس کے حسن و جمال اور فصاحت لسانی کا بڑا شہرہ تھا، اس کے سر پر بالوں کی دو چوٹیاں تھیں جو اس کے سینے تک لٹکی ہوئی تھیں، یہ شخص حضرت ابوبکرؓ کے قریب بیٹھا ہوا تھا، اس لئے سوال و جواب اسی سے ہوئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس سے دریافت کیا کہ تم لوگ تعداد میں کتنے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ ہم ہزار سے کچھ زیادہ ہیں، اور ایسے ہیں کہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود عام طور پر مغلوب نہیں ہوتے۔ حضرت ابوبکرؓ نے سوال کیا تمہارا دفاعی نظام کتنا مضبوط ہے؟ مفروق نے جواب دیا کہ جب ہم میدانِ جنگ میںدشمنوں کے مقابل ہوتے ہیں تو ہم سے زیادہ غضبناک کوئی دوسرا نہیں ہوتا، ہم گھوڑوں کو اپنی اولاد پر اور ہتھیاروں کو اپنی کھیتیوں پر ترجیح دیتے ہیں۔فتح و نصرت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، آخر ہم فتح یاب ہوتے ہیں اور کبھی شکست ہمارا مقدر بن جاتی ہے، غالباً آپ لوگ قبیلہ  ٔ قریش سے تعلق رکھتے ہیں؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا شاید تم تک یہ خبر پہنچی ہوگی کہ عرب میں ایک نبی کا ظہور ہوا ہے، یہ وہی نبی ہیں۔ مفروق نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اے قریشی بھائی! آپ ہمارے پاس کس چیز کی دعوت دینے کے لئے تشریف لائے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: میری دعوت یہ ہے کہ تم اللہ کو ایک مانو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہرائو اور مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول تسلیم کرلو اور میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ تم مجھے اپنے قبیلے میںپناہ دو اورمیری مدد کرو کیوںکہ قریش اللہ کے مقابلے پر آگئے ہیں، اس کے رسول کو جھٹلا رہے ہیں، باطل کو مانتے ہیں اور حق کی تکذیب کرتے ہیں، اللہ بڑا بے نیاز اور بے حد لائق تعریف ہے۔ مفروق نے کہا اے قریشی! تم اور کس کس بات کی دعوت دیتے ہو، اللہ کی قسم میں نے آج تک اس سے اچھا کلام نہیں سنا۔ جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی:
  ’’آپ (ان سے) کہہ دیجئے کہ آئو! میں تمہیں پڑھ کر سنائوں کہ تمہارے پروردگار نے تم پر کون سی باتیں حرام کی ہیں، وہ یہ ہیں کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیں گے اور ان کو بھی اور بے حیائی کے کاموں کے پاس بھی نہ پھٹکو، چاہے وہ بے حیائی ڈھکی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی ہو اور جس جان کو اللہ نے حرمت عطا کی ہے اسے کسی برحق وجہ کے بغیر قتل نہ کرو، لوگو! یہ ہیں وہ باتیں جن کی اللہ نے تاکید کی ہے تاکہ تمہیں کچھ سمجھ آئے۔‘‘(الانعام:۱۵۱)
آیت سن کر مفروق نے کہا: خدا کی قسم! آپؐ مکارم اخلاق اورمحاسنِ اعمال کی دعوت دے رہے ہیں، آپؐ کی قوم کے لوگ بڑے کم عقل اور ناسمجھ ہیں، ان کو چاہئے کہ وہ آپ کو نہ جھٹلائیں اور نہ اللہ کے خلاف بغاوت کریں، پھر اس نے یہ معاملہ ہانی بن قبیصہ کے حوالے کردیا اور کہا کہ یہ ہانی ہیں، ہمارے بزرگ اور روحانی شیخ ہیں، ہانی نے کہا کہ میں نے آپؐ کی بات سنی ہے، میںسمجھتا ہوں کہ محض ایک ہی ملاقات میں اپنا دین ترک کرکے آپ کا دین اختیار کرلینا کم عقلی اور رسوائی کی بات ہوگی، جلد بازی میںاس طرح کے فیصلے نہیں کئے جاتے، ہمارے پیچھے بھی بہت سے لوگ ہیں، ہم ان کی عدم موجودگی میں کوئی ایسا معاملہ کیسے کرسکتے ہیں جس میں وہ بھی شریک ہوں، ہم یہاں سے واپس ہو کر سوچیں گے اور آپ کی بات پر غور کریں گے، ویسے یہ مثنّیٰ بن حارثہ ہیں، ان سے بات کرلیجئے، یہ ہمارے بڑے بھی ہیں اور سپہ سالار بھی ہیں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK