Inquilab Logo

میانمار کی حالت ِ زار

Updated: March 31, 2021, 6:42 PM IST

میانمار کی فوج اپنے تسلط کی خاطر وہی تاریخ جو ماضی میں رقم کی جاچکی ہے، ایک بار پھر رقم کررہی ہے۔ یہ تاریخ ظلم و جبر، حقوق انسانی کی پامالی اور جمہوریت کی پُرزور مخالفت سے عبارت ہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔تصویر :آئی این این

  میانمار کی فوج اپنے تسلط کی خاطر وہی تاریخ جو ماضی میں رقم کی جاچکی ہے، ایک بار پھر رقم کررہی ہے۔ یہ تاریخ ظلم و جبر، حقوق انسانی کی پامالی اور جمہوریت کی پُرزور مخالفت سے عبارت ہے۔ ابھی اس ملک میں جمہوریت پوری طرح لوَٹی بھی نہیں تھی اور جمہوری قدروں کو فروغ اور استحکام حاصل نہیں ہوا تھا کہ فوج نے یکم فروری کو اقتدار پر شب خون مار کر گزشتہ چند برسوں کی جمہوری سرگرمیوں کا ایک بار پھر راستہ بند کردیا۔ اس مرتبہ، فوج کا کہنا ہے کہ انتخابات میں زبردست دھاندلی ہوئی ہے۔ اس الزام میں معمولی سی بھی صداقت نہیں تھی۔ خود الیکشن کمیشن نے اس کی تردید کی۔ اس کے باوجود اگر فوج اِس خام خیالی میں مبتلا تھی کہ دھاندلی ہوئی ہے تب بھی وہ عدالت کا رُخ کرسکتی تھی مگر اقتدارکو طاقت کےبے جا استعمال کے ذریعہ ہتھیانا اُس بدنیتی کا مظہر ہے جس کے زیر اثر فوج نے میانمار کو جمہوری فضا میں سانس لینے کا یا کھل کر سانس لینے کا کبھی موقع نہیں دیا۔۲۰۱۰ء میں یہاں جو پارلیمانی انتخاب ہوا تھا وہ ۲۰؍ سال کے طویل عرصہ کے بعد ہوا تھا۔ اس سے فوج کے عزائم کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ اسے جمہوریت سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ 
  اِس مرتبہ یہ بھی ہوا کہ آن سان سوچی اور اُن کی پارٹی کے اہم اراکین کو حراست میں لے لیا گیا تاکہ وہ حکومت سازی میں پیش رفت نہ کرسکیں۔ اس طرز عمل کے خلاف عوامی غم و غصہ بھڑکا اور جمہوریت نواز سڑکوں پر آگئے تو بدنیت فوج نے اُن پر بے دریغ گولیاں برسائیں۔ ۲۷؍ مارچ کا دن فوج کی وحشیانہ کارروائی کا خونین دن تھا جب ۱۱۴؍ شہری موت کے گھاٹ اُتارے گئے۔ فوج نے یکم فروری کو اقتدار پر قبضہ کیا تھا، تب سے لے کر اب تک ۴۶۰؍ سے زائد مظاہرین کو ابدی نیند سلا دیا گیا جبکہ ڈھائی ہزار سے زیادہ کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ان مخدوش حالات میں اپنی جان بچا کر بھاگنے والوں کی تعداد بھی ہزارو ں میں ہے۔ ۵؍ کروڑ کی آبادی کا یہ ملک جسے بہت امن و سکون کے سائے میں ہونا چاہئے تھا، محض مٹھی بھر آمروں کے عتاب کا شکار ہے۔ ۲۰۱۰ء میں جمہوریت کی بظاہر بحالی کے بعد بیرونی سرمایہ کاروں نے اس مختصر سے ملک کا رُخ کرنا شروع کیا تھا مگر اب ایسا لگتا ہے کہ انہیں اپنا فیصلہ بدلنے اور رخت سفر باندھنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔اس میں کسی اور کا نہیں، میانمار ہی کا نقصان ہے۔ 
 عالمی برداری کو ان حالات کے خلاف تیزی سے حرکت میں آنا چاہئے تھا مگر اب تک بھی زبانی جمع خرچ اور اکا دکا غیر مؤثر کارروائیوں کے علاوہ عالمی برادری نے کچھ نہیں کیا ہے۔ امریکہ نے شدید غم و غصے کا مظاہرہ کیا، اقوام متحدہ نے بیان دیا، یورپی یونین نے فکرمندی کا اظہار کیا، روس نے تشویش ظاہر کی، اقوام متحدہ اور یونیسیف جیسے اداروں نے متنبہ کیا جبکہ کئی دیگر ملکوں نے بھی فوج کو طاقت کے بے دریغ استعمال سے باز رہنے کی تلقین کی ہے جو اس لئے زیادہ نتیجہ خیز نہیں ہوسکی کہ جس طرح عالمی برادری کو تشویش ظاہر کرکے مطمئن ہوجانے کی عادت ہے اسی طرح میانمار کے آمریت پسندوں کو جارحیت کی عادت ہے۔
 قدرتی گیس، پیٹرولیم اور معدنیات سے مالامال یہ ملک قابل ذکر ترقی کرسکتا ہے اگر وہ مٹھی بھر لوگ راہ راست پر لائے جائیں جو اس سرزمین کے ذرہ ذرہ کو یرغمال بنائے رکھتے ہیں۔ اب تک وہ روہنگیا مسلمانوں سے بلاوجہ کی دشمنی نبھا رہے تھے، اب غیر روہنگیا شہریوں کے خلاف بندوق تانے ہوئے گھوم رہے ہیں۔ عالمی برادری ان کے خلاف جتنی جلد ہوش میں آئے اُتنا بہتر ہوگا۔ n 

myanmar Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK