Inquilab Logo

کانگریس کی صدارت کا معمہ

Updated: August 11, 2020, 10:14 AM IST | Editorial

گزشتہ روز (۱۰؍ اگست کو) سونیا گاندھی کی عبوری صدارت کا ایک سال پورا ہونے پر یہ اُمید کی جارہی تھی کہ کانگریس کی جانب سے نئے صدر کے تعلق سے کوئی اعلان ہوگا مگر نہیں ہوا۔

Gandhi Family - Pic : INN
گاندھی خاندان ۔ تصویر : آئی این این

گزشتہ روز (۱۰؍ اگست کو) سونیا گاندھی کی عبوری صدارت کا ایک سال پورا ہونے پر یہ اُمید کی جارہی تھی کہ کانگریس کی جانب سے نئے صدر کے تعلق سے کوئی اعلان ہوگا مگر نہیں ہوا۔ سونیا گاندھی نے ۱۹۹۸ء سے ۲۰۱۷ء تک پارٹی کی قیادت کے فرائض احسن طریقے سے انجام دیئے۔ اُنہی کی قیادت میں ۲۰۰۴ء میں کانگریس کو ازسرنو اقتدار نصیب ہوا تھا۔ اس کے بعد ۲۰۰۹ء میں بھی پارٹی اس قابل تھی کہ اپنا اقتدار جاری رکھتی۔ اس طرح سونیا گاندھی کی قیادت کے ۱۹؍ برسوں میں ۱۰؍ برس کانگریس کے اقتدار سے معنون تھے مگر ۲۰۱۴ء کے بعد سے صورتحال بگڑی اور اب تک بگڑتی چلی جارہی ہے۔ راہل گاندھی نے صدارت کی ذمہ داریاں سنبھالیں مگر ۲۰۱۹ء کے پارلیمانی انتخابات میں شرمناک شکست کے بعد اُنہوں نے یہ کہتے ہوئے استعفےٰ دے دیا کہ اب گاندھی خاندان کا کوئی بھی فرد صدارت کی کرسی قبول نہیں کریگا۔ یہ الگ بات کہ ایسا نہیں ہوا، خرابی ٔ صحت کے باوجود عارضی صدر کے طور پر سونیا گاندھی ہی کو آگے آنا پڑا۔ اب جبکہ صدارت کا خلاء ایک بار پھر کانگریس کیلئے چیلنج بنا ہوا ہے، پانچ امکانات سامنے ہیں: 
 (۱) سونیا گاندھی ہی اس ذمہ داری کو سنبھالتی رہیں۔ (۲) راہل گاندھی توبہ توڑ دیں اور جس عہدہ پر دوبارہ کبھی نہ لوٹنے کا عہد کیا تھا، اسے بحالت مجبوری نہیں بلکہ بخوشی قبول کرکے پارٹی کو مزید پشیمانی سے بچائیں۔ (۳) راہل گاندھی کے اس اعلان کے باوجود کہ گاندھی خاندان کا کوئی بھی فرد صدارت قبول نہیں کریگا، چونکہ سونیا گاندھی نے عبوری صدر کی ذمہ داریاں سنبھالیں اس لئے ایک متبادل یہ بھی ہے کہ پرینکا گاندھی کو ترقی دی جائے۔ (۴) متحدہ قیادت (کلیکٹیو لیڈرشپ) کے بارے میں سوچا جائے جس میں ایک بورڈ یا پینل ہو جو کلیدی فیصلے کرے۔ اور (۵) قیادت کو گاندھی خاندان کے باہر تلاش کیا جائے اور جس طرح پارٹی کی حالیہ تاریخ میں پی وی نرسمہا راؤ اور سیتا رام کیسری کو صدر منتخب کیا گیا تھا اسی طرح کسی غیر گاندھی شخصیت کو اس عہدہ پر فائز کیا جائے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کانگریس ورکنگ کمیٹی کیا فیصلہ کرتی ہے مگر جو بھی اور جب بھی فیصلہ ہوگا، اُسے انہی پانچ میں سے کسی ایک متبادل کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔
 جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، یہ خبر آرہی ہے کہ جب تک صدارت کے سلسلے میں کوئی واضح فیصلہ نہیں کرلیا جاتا، سونیا گاندھی ہی اس عہدہ پر متمکن رہیں گی۔ مگرکانگریس کے نئے صدر کے انتخاب میں جتنی تاخیر ہوگی، پارٹی کیلئے ہر دن شرمساری اور ہزیمت کا ہوگا۔ ایک ایسی پارٹی جس نے جدوجہد آزادی میں کلیدی کردار ادا کیا، جس نے آزادی کے بعد سے اب تک سب سے زیادہ عرصہ تک ملک کی قیادت کی اور جس نے آزاد ہندوستان کی تشکیل و تعمیر میں قائدانہ کردار ادا کیا وہ آج اس موڑ پر آگئی ہے کہ کئی درجن اہم لیڈروں کی موجودگی کے باوجود اسے کوئی ایسی شخصیت سجھائی نہیں دے رہی ہے جو پارٹی کی قیادت کے خلاء کو پُر کرسکے۔ پارٹی میں ایک عمودی لکیر صاف دکھائی دیتی ہے جس کی ایک طرف سونیا گاندھی کے حامی اور ہمنوا ہیں اور دوسری طرف راہل گاندھی کے حامی اور ہمنوا۔ اس لکیر کو، جو خلیج نہیں ہے، کچھ تو مخالف پارٹی اشیو بناتی ہے اور کچھ میڈیا۔ اور یہ صرف اس لئے ہورہا ہے کہ کانگریس سے اپنا ہی گھر سنبھل نہیں رہا ہے۔ پارٹی کی مرکزی قیادت کے خلاء سے ریاستی اکائیوں کی قیادتیں بھی اپنی ذمہ داریوں کو بہتر اور بھرپور طریقے سے نبھا نہیں سکتیں۔ کاش کوئی سمجھ سکے کہ اُنہیں اپنے کارکنان کے سامنے نیچا دیکھنا پڑتا ہوگا۔ 
 کانگریس کے مسلسل بکھراؤ کو روکا نہیں جاسکتا جب تک مرکزی قیادت پوری قوت سے کمان نہ سنبھالے اور پارٹی کو سمت و رفتار نہ عطا کرے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا، پارٹی میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو کوئی نہیں روک سکتا 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK