Inquilab Logo

اپوزیشن پارٹیوں کی تنگ نظری

Updated: January 12, 2023, 11:12 AM IST | MUMBAI

سال۲۰۲۴ء کی تیاری شروع ہوچکی ہے۔ دیکھا جائے تو ابھی ڈیڑھ سال کا طویل عرصہ ہے پارلیمانی انتخابات میں، مگر، اسے بدقسمتی نہیں تو اور کیا کہا جائے کہ گزشتہ آٹھ برس میں کچھ ایسا ماحول بن گیا ہے کہ انتخاب ہی سب کچھ ہوگیا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

سال۲۰۲۴ کی تیاری شروع ہوچکی ہے۔ دیکھا جائے تو ابھی ڈیڑھ سال کا طویل عرصہ ہے پارلیمانی انتخابات میں، مگر، اسے بدقسمتی نہیں تو اور کیا کہا جائے کہ گزشتہ آٹھ برس میں کچھ ایسا ماحول بن گیا ہے کہ انتخاب ہی سب کچھ ہوگیا ہے۔ ہر چیز کو انتخاب کے نقطۂ نظر سے دیکھا جانے لگا ہے۔ جمہوریت میں بلاشبہ انتخاب کی اہمیت ہے مگر انتخاب کو محورو مرکز بنالینا فہم سے بالاتر ہے۔ عوام کے متعدد طبقات اپنے آج سے نبردآزما ہیں۔ چھوٹے دکاندار سوچتے ہیں کہ آج اپنی آبرو بچا کر یعنی خاطرخواہ آمدنی لے کر گھر پہنچیں گے یا نہیں۔ ملازمت کے خواہشمند سوچتے ہیں کہ آج ہمیں ملازمت مل جائیگی یا روزانہ کی طرح مایوسی کی بھاری زنبیل لے کر ہی لوَٹنا پڑے گا۔ کسان سوچتا ہے کہ آج تو کوئی نہیں آئیگا قرض کا تقاضا کرنے والا؟ اور آج اُسے بیج اور کھاد مل جائیگی؟ ان تمام طبقات کو آج کی فکر ہے، اگر آج جیسے تیسے گزر گیا تو ان طبقات کو کل کی فکر لاحق ہوجاتی ہے، کل کی کوئی اُمید بن گئی تو پرسوں کی فکر دامن گیر ہوجاتی ہے مگر قومی سیاست کو ڈیڑھ سال بعد کی فکر ہے۔ انتخابات پر نگاہیں مرکوز کرنے، مرکوز رکھنے اور ہر چیز کو انتخابات کے زاویئے سے دیکھنے کی یہ ’’پرمپرا‘‘ بھارتیہ جنتا پارٹی نے شروع کی مگر اب تمام پارٹیاں اسی روش پر گامزن ہیں۔ اسی کی وجہ سے عوامی مسائل سے مسلسل چشم پوشی ہورہی ہے۔ 
 انتخابات کو ہمہ وقت پیش نگاہ رکھنے کے اسی طریق کار کی وجہ سے اپوزیشن کی تمام پارٹیاں حکمراں محاذ سے ناخوش ہونے کے باوجود اپنا جمہوری فرض نبھانے پر متحد و مرکوز نہیں ہیں۔ انہیں اس بات کی شکایت اور ناراضگی تو ہے کہ حکمراں محاذ نے مہنگائی، بے روزگاری، روپے کا روز افزوں زوال، معیشت کی مجموعی زبوں حالی اور سماج میں نفرت و انتشار کے خلاف ضروری چارہ جوئی کو پس پشت ڈال دیا ہے اور مسائل کو اپنی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی کے ذریعہ حل کرنا چاہتی ہے مگر یہ پارٹیاں خود کو متحد و منظم کرنے اور حکمراں محاذ سے جواب طلب کرنے کیلئے کمربستہ نہیں ہیں۔ ہر ایک کو انتخابات کی فکر ہے کہ کس طرح اپنی طاقت کو بحال رکھیں یا کس طرح مزید طاقت حاصل کریں۔ اِس کوشش میں اِن پارٹیوں کے ارباب حل و عقد بھول جاتے ہیں کہ عوام میں ساکھ مضبوط ہوگی تو انتخابی کامیابی کے امکانات خودبخود روشن ہوں گے۔ جمہوریت میں سب سے بڑی چیز عوام کا بھروسہ ہوتا ہے۔ اگر عوام نے اپنے کسی جذباتی فیصلے کے ذریعہ کسی پارٹی کو منتخب کربھی دیا تو جلد یا بہ دیر اُنہیں یہ احساس ہوگا کہ اُن کا فیصلہ غلط تھا اور وہ لوَٹ کر اُس پارٹی یا اُن پارٹیوں کی طرف آئینگے جن پر اُن کا بھروسہ زیادہ مضبوط ہے۔ 
 اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ بھارت جوڑو یاترا غیر معمولی کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور فی الحال پنجاب میں ہے۔ اب تک کے زبردست عوامی رِسپانس کا معنی یہ ہے کہ یہ یاترا عوام کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کررہی ہے۔ اس میں کانگریس کی حلیف پارٹیوں کے لیڈران نے تو شرکت کی ہے مگر اپوزیشن کی دیگر پارٹیاں ہنوز اس سے دور دور ہیں۔ ایس پی، بی ایس پی، بیجو جنتا دل، ترنمول کانگریس، بھارت راشٹریہ سمیتی، ’’آپ‘‘ اور دیگر، یاترا کی مقبولیت کا بغور مشاہدہ کررہے ہیں مگر ان کے لیڈروں نے اس میں شریک ہوکر ایک دوسرے کے قریب آنے اور ممکنہ اتحاد کی داغ بیل ڈالنے کا نہیں سوچا۔ اِن کا خیال ہے کہ کانگریس کو کیوں اہمیت دیں جبکہ انہیں یہ احساس ضرور ہوگا کہ بی جے پی کو شکست دینے کیلئے کانگریس کا مضبوط ہونا ازحد ضروری ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK