Inquilab Logo

بنیادی خبروں کا دائرہ سمٹنے سے جمہوریت کا نقصان ہوگا

Updated: November 20, 2022, 10:59 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

یہ صرف ہندوستان کی بات نہیں، پوری دُنیا میں اخبارات و جرائد کے وسائل کم ہوتے جارہے ہیں جو کہ بنیادی خبروں کی ترسیل کا ذریعہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا براہ راست اثر جمہوریت پر پڑے گا۔

The resources of newspapers and magazines are decreasing all over the world
پوری دُنیا میں اخبارات و جرائد کے وسائل کم ہوتے جارہے ہیں

اس سال کے اوائل میں ایک اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اخبارات (پرنٹ میڈیا) کو حاصل ہونے والے اشتہارات جو کہ ۲۰۲۰ء میں ۱۲؍ ہزار کروڑ کے تھے، ۲۰۲۱ء میں بڑھ کر ۱۶؍ ہزار کروڑ تک پہنچ گئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس سال اشتہارات کی مالیت ۱۸؍ ہزار کروڑ تک پہنچ سکتی ہے اور یہ اشتہارات کی مجموعی مارکیٹ کا ۲۰؍ فیصد کے قریب ہے۔ اگر یہ صورت حال ہے تو اسے عالمی اشتہاراتی صورت حال سے بہتر سمجھنا چاہئے جو کہ صرف ۵؍ فیصد ہے (پرنٹ کیلئے)۔ رپورٹ میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ کیا ۲۰۲۲ء میں اخبارات کو اُتنے ہی اشتہارات ملیں گے جتنے کہ ۲۰۱۹ء میں ملے تھے؟ 
 اخبارات کو ملنے والے اشتہارات کا منظرنامہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ ۲۰۰۵ء میں جتنے اشتہارات جاری ہوتے تھے اُن کا ۵۳؍فیصد اخبارات اور رسائل و جرائد کو ملتا تھا۔ ۲۰۲۲ء میں عالم یہ ہے کہ ۴۵؍ فیصد ڈجیٹل کی طرف جارہا ہے، ۴۰؍ فیصد ٹی وی کی طرف جارہا ہے اور پرنٹ، ریڈیو اور آؤٹ ڈور کو باقی ماندہ اشتہا ر مل رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت کم ہے۔ مگر یہ صرف ہندوستان میں نہیں ہورہا ہے۔ امریکہ میں پرنٹ یعنی اخبارات اور رسائل و جرائد کو ملنے والے اشتہارات کی تعداد پچھلے پانچ سال میں نصف ہوگئی ہے۔ امریکہ کی مارکیٹ ہندوستان کی مارکیٹ سے بہت بڑی ہے مگر مجموعی اشتہارات کی مارکیٹ جو کہ ۲۰۱۷ء میں ۲۰؍بلین ڈالر کی تھی (یعنی کم و بیش ایک لاکھ ساٹھ ہزار کروڑ) وہ بھی اب آدھی رہ گئی ہے۔ یہ گراوٹ بتدریج آئی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس دوران اخباری کاغذ اور چھپائی کے اخراجات میں پریشان کن اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستان میں اخبارات شائع کرنے والے اداروں کیلئے سب سے بڑا خرچ اخباری کاغذ ہی کا ہے کیونکہ اخبار کی قیمت سے یعنی جس قیمت پر اخبار فروخت ہوتا ہے، طباعت اور تقسیم کے تمام اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ قاری فی کاپی لاگت کا صرف پانچواں حصہ قیمت کی شکل میں ادا کرتا ہے۔ ۸۰؍ فیصد لاگت کی بھرپائی اشتہارات کے ذریعہ ہوتی ہے اور اگر اشتہارات ملنے کا سلسلہ اس طرح غیر معمولی طور پر کم ہوجائیگا تو کیا ہوگا؟ مگر، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اگر ہندوستانی معیشت کی کارکردگی بہتر ہوجائے تو اخبارات اور رسائل کی صحت بھی بہتر ہوجائیگی کیونکہ جو ادارے صارفین کی اشیاء فروخت کرتے ہیں وہ معیشت کی بہتری کی صورت میں چاہیں گے کہ اُن کی تیارکردہ اشیاء فروخت ہوں اور اس کیلئے اُنہیں اخبارات کا سہارا لینا ہی پڑے گا۔ اگر ایسا نہیں ہوا یعنی معیشت کی بحالی کمزور رہی تو اخبارات کو اشتہار ملنے کا سلسلہ کم کم ہی رہے گا۔ 
 یہ صرف اخبارات اور اشتہارات کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ وسیع ہے اور یہ تشویش کی بات ہے۔ جو لوگ جانتے ہیں کہ صحافت کیسے ہوتی ہے انہیں اندازہ ہے کہ پرنٹ کی صحافت سے رپورٹروں کی بڑی تعداد جڑی رہتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ماضی میں مَیں جس گجراتی اخبار سے وابستہ تھا اس کے رپورٹروں کی مجموعی تعداد ۳۰۰؍ تھی ۔ یہ لوگ الگ الگ ریاستوں اور شہروں میں الگ الگ نوعیت کی ، مثلاً کارپوریشن ، تعلیم، جرائم اس طرح کی رپورٹنگ کرتے تھے۔ ٹی وی چینلوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ انہیں اخبارات کی طرح رپورٹر کی بڑی تعداد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کا کام مباحثوں سے چل جاتا ہے جس میں چند ماہرین اور سیاستدانوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ ان مباحثوں سے قاری یا ناظر کو بنیادی خبر نہیں ملتی۔ اسے یہ نہیں پتہ چلتا کہ اس کے علاقے کی سرکاری اسکول یا اسپتال میں کیا ہورہا ہے۔ ایسی خبریں دیکھنے کے لئے قاری کو اخبار ہی استفادہ کرنا پڑتا ہے جہاں شہر کی ، محلے کی اور ریاست یا ملک کے الگ الگ شہروں کی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ بنیادی اور اہم خبروں کے لئے اخبارات واحد ذریعہ ہیں ۔ 
 اس میں شک نہیں کہ کچھ ویب سائٹس بہتر صحافت کررہی ہیں  مگر ان کا اطلاعاتی ڈھانچہ ویسا نہیں ہے جیسا اخبارات کا ہوتا ہے ، بالفاظ دیگر ویب سائٹ کی صحافت میں بھی رپورٹروں کی تعداد کم ہے۔ اس کے باوجود اگر اس ذریعے سے اچھی صحافت ہورہی ہے تو یہ قابل قدر ہے۔
 اب یہ دیکھئے کہ اخبارات میں اشتہارات ہی کم نہیں ہورہے ہیں ، ملازمت کے امکانات بھی کم ہورہے ہیں۔ سینٹر فار مانیٹرنگ دی انڈین اکنامی کے ایک ڈیٹا کے مطابق میڈیا میں ملازمتوں کی تعداد گھٹ رہی ہے ۔ اس سلسلے میں ستمبر  ۲۰۱۶ء میں یہ تعداد دس لاکھ بتائی گئی تھی جو اگست ۲۰۲۱ء میں گھٹ کر ۲ء۳؍لاکھ ہوگئی ۔
 یہ صورت حال میڈیا میں موجود  لوگوں کو حیرت میں ڈال دے  ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ انہوں نے بہت سے اخبارات کو بند ہوتے دیکھا ہے۔ میں اس کی مزید تفصیل میں نہیں جانا چاہتا لیکن اس سوال سے بحث کرنا چاہتا ہوں کہ اخبارات کی تعداد میں کمی یا اخبارات میں وسائل میں تخفیف کا جمہوریت پر کیا اثر پڑتا ہے۔ سرکاری امور کی خبروں سے واقفیت کا سب سے بڑا ذریعہ اخبارات ہیں ۔ کوئی دوسرا ذریعہ اس کی بھرپائی نہیں کرسکتا۔ ٹیلی ویژن اور ڈجیٹل جرنلزم بھی اخبارات کے خلا کو پُر نہیں کرسکتے۔ اخبارات سماج کی خدمت کرتے ہیں۔ یہ عوام کو باخبر ہی نہیں بیدار بھی کرتے ہیں۔  اگر اخبارات کی تعداد کم ہوتی ہے یا وسائل کی کمی کی وجہ سے ان کا معیار متاثر ہوگا یا اُن میں چھپنے والی خبریں کم ہوں گی یا بنیادی خبریں  بھی نہیں ہوں گی تو قاری کو حکومت کی کارکردگی کا مکمل طور پر علم نہیں ہوسکے گا۔  چنانچہ وہ بہت سی اہم باتوں سے بے خبر رہے گا۔ اسے یہ علم نہیں ہوگا کہ اسکولوں ، اسپتالوں ، پولیس اسٹیشنوں اور سرکاری دفاتر میں کیا ہورہا ہے۔ اس لاعلمی کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ وہ حکومت کی کارکردگی کو صحیح طریقے سے جانچ نہیں سکے گا اور یہ فیصلہ نہیں کرپائے گا کہ کون سا ادارہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کررہا ہے اور کون سا ادارہ ناقص کارکردگی کا۔ اگر اخبارات کو اشتہارات کم ملتے ہیں تو ہم سمجھیں گے کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے مگر آپ نے مذکورہ تفصیل سے سمجھ لیا ہوگا کہ اس کا تعلق جمہوریت سے ہے ۔ جمہوریت کی صحت کا بڑا تعلق اخبارات کی صحت سے ہے۔ n

 

delhi news Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK