Inquilab Logo

کورونا متاثرین کیلئے ٹھوس سرکاری لائحہ عمل کی ضرورت

Updated: May 24, 2020, 11:00 AM IST | Dr Mushtaque Ahmed

اگر سماجی مسائل کا بروقت حل نہیں ہوا تو صرف مزدور طبقہ ہی متاثر نہیں ہوگا بلکہ پورا سماج اس سے پریشان اور متاثر ہوگا۔ یہ وقت انسانی سماج کیلئے ایک امتحان کاہے ، جس میں سنجیدہ حکمت عملی ہی سے کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے

Migrant Worker - Pic : PTI
مہاجر مزدور ۔ تصویر : پی ٹی آئی

 لاک ڈاؤن کے چوتھے مرحلے کا اعلان ہو چکا ہے۔ اس میں مرکزی حکومت نے ریاستی حکومتوںکو یہ آزادی دی ہے کہ وہ اپنے طورپر لاک ڈائون میں رعایت اور مفادِ عامہ میں جو کام ضروری ہیں، اسے انجام دینے کی اجازت دے سکتی ہیں۔ اس لاک ڈائون نے ملک کی معاشیات کو  بہت بڑا خسارہ پہنچایا ہے اور تمام شعبۂ حیات سے تعلق رکھنے والے افراد کی زندگی اس سے متاثر ہوئی ہے ۔ بالخصوص مزدور طبقے کے سامنے روزی روٹی کا سب سے بڑا مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے۔ اب حکومت نے ان مزدوروں کو بھی اپنے آبائی وطن لوٹنے کی اجازت دے دی ہے اور خصوصی ٹرینیں بھی چلائی جانے لگی ہیں تو مزدوروں کی ایک بڑی تعداد اپنی ریاستوں میں داخل ہو رہی ہیں۔پیدل چلنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے اور روز ان کی بدحالی کی تصویریں سامنے آرہی ہیں۔ اگرچہ قومی میڈیا میں ان مزدوروں کی بد تر حالت کو جگہ نہیں مل رہی ہے لیکن سوشل میڈیا کے ذریعہ تصویریں خوفناک منظر پیش کرتی ہیں ۔جہاں تک مزدوروں کی ہجرت کا سوال ہے تو اس میں سب سے زیادہ اتر پردیش ، بہار،مغربی بنگال  اور جھارکھنڈ کے مزدور ہیںدوسری ریاستوں سے اپنی ریاستوں کی طرف واپس رہے ہیںاور اب ان تمام ریاستوں کے سامنے ایک بڑا مسئلہ ہے کہ ان بیروزگار مزدوروں کو روزگار کس طرح مہیا کرایا جائے تاکہ وہ زندہ رہ سکیں۔
  واضح ہو کہ بڑے شہروں سے گائوں واپسی کے بعد دیہی علاقوں میں کئی طرح کے مسائل پیدا ہوں گے۔ اقتصادی بدحالیاں اپنے ساتھ کئی برائیوں کو لے کر آتی ہیں، اسلئے مقامی سطح پر طرح طرح کے سماجی مسائل بھی پیدا ہوں گے ۔ جرائم کے واقعات میں بھی اضافہ ہوگا ، آپسی تصادم بھی بڑھیں گے اور گھریلو تنازعات میں بھی اضافہ ہوگا۔اس لئے اب حکومت کو کوئی ایسا ٹھوس لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا کہ جو مزدور برسوں بعد اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں انہیں فوری طور پر روزگار مل سکے کیوں کہ بیشتر مزدوروں کی زندگی یومیہ مزدوری پر منحصر ہے۔ حکومت نے انہیں دو ماہ تک مفت راشن دینے کا اعلان کیا ہے اورمرکزی حکومت کی طرف سے جن دھن یوجنا کے کھاتے میں پانچ سوروپے بھی دیئے گئے ہیں ۔ یہ امداد وقتی راحت تو دے سکتی ہے لیکن مزدوروں کے مسائل کا یہ حل نہیں ہے کیوں کہ ایک خاندان میں دس سے پندرہ لوگ ہوتے ہیں اور اس میں مزدوری کرنے والے دو تین افراد ہی ہوتے ہیں ۔ باقی بچے اور بوڑھے ہوتے ہیں اور ان کی ذمہ داری انہی دو تین کام کرنے والوں پر ہوتی ہے۔  ایسی صورت میں کورونا کے بعد جو منظر نامہ سامنے آیا ہے اس کے مطابق روزگار کے مواقع بھی پیدا کرنے ہوں گے اور مزدوروں کو یقینی طورپر سال میں کم سے کم دو سو دنوں تک روزگار مل سکے اس طرح کا ٹھوس لائحہ عمل بنانا ہوگا۔
 اب تک منریگا اسکیم میں مزدوروں کو سو دنوں تک روزگار دینے کی گارنٹی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ سو دن بھی روزگار نہیں مل پاتے۔ پہلے گائوں کے بیشتر یومیہ مزدور بڑے شہروں میں تھے اس لئے گائوں میں کام کرنے والے کم لوگ تھے تو کوئی بڑا مسئلہ سامنے نہیں آرہا تھا ۔ اب جب کہ ہر گائوں میں ہزار سے دو ہزار تک لوگ واپس لوٹے ہیں اور ان سب کو زندگی جینے کیلئے کام چاہئے اور ہر طرح کا کام چاہئے۔ ہمارے یہاں منریگا اسکیم کے تحت مٹی کاٹنے اور سڑک بنانے کا کام لیا جاتا ہے لیکن بڑے شہروں سے جو ہزاروں کی تعداد میں بے روزگار ہو کر گائوں لوٹے ہیں ان میں سب مٹی کاٹنے والے مزدور نہیں ہیںبلکہ کل کارخانوںمیں کام کرنے والے بھی ہیں۔زراعت کے شعبے سے جڑے ہوئے بھی مزدور اپنے گائوں کو لوٹے ہیں۔ جہاں تک بہار کا سوال ہے تو یہاں کیلئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بہار میں کوئی بڑا صنعتی ادارہ نہیں ہے اور چھوٹے چھوٹے صنعت بھی دم توڑ چکے ہیں۔ شمالی بہار میں جہاں ہر سال سیلاب آتا ہے یہاں صرف اور صرف زراعت پر مبنی صنعت ہی لگائی جا سکتی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ زراعت پر مبنی صنعت میں چینی ملیںاور جوٹ ملیں برسوں سے بند پڑی ہیں ۔
 شمالی بہار میں دربھنگہ اور مدھوبنی ضلع میں تین چینی ملیں سکری شوگر فیکٹری، ریام اور لوہٹ چینی ملیں اس علاقے کے کسانوں کے ساتھ ساتھ مزدوروں کیلئے روزگار کا ایک بڑا مرکز تھا۔یہاں سے ہزارو ں لوگوں کو روزگار ملتا تھا ۔ایک طرف کسان گنّا کی کھیتی کرتے تھے جس سے ان کی اقتصادی حالت بہتر ہوتی تھی تو دوسری طرف گنّے کے کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو بھی روزگار ملتا تھااور جب چینی ملیں چلتی تھیں تو وہاں  ہزاروں مزدوروں کو یومیہ مزدوری بھی مل جاتی تھی جس کی وجہ سے اس علاقے میں خوشحالی تھی لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ تین دہائیوں سے بہار کی بیشتر چینی ملیں بند پڑی ہیں۔ اسی طرح سمستی پور اور کٹیہار کی جوٹ ملیں دم توڑ چکی ہیں ۔ ریاست بہار کا ایک بڑا کاغذ بنانے والا اشوک پیپر مل دو دہائیوں سے بند ہے۔ اگر اب ان ملوں کو کھولا جاتا ہے تو ممکن ہے کہ بڑے شہروں سے جو مزدور لوٹے ہیں، انہیں کام مل سکے ۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اعلان کیا ہے کہ باہر سے جتنے بھی مزدور لوٹیں گے ان کیلئے روزگار مہیا کئے جائیں گے۔ انہو ں نے منریگا اسکیم کے تحت سال میں دو سو دنوں کام کو یقینی بنانے کااعلان کیا ہے اور مفت راشن دینے کی بھی بات کہی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ دائمی حل نہیں ہے ۔ اگر واقعی بہار لوٹنے والے مزدوروں کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنا ہے اور انہیں پھر شہروں کی طرف جانے سے روکنا ہے تو ان کیلئے ریاست میں بند پڑے صنعتی کل کارخانوں کو کھولنا ہوگا اور زراعت پر مبنی چھوٹے بڑے نئے صنعتی ادارے قائم کرنے ہوں گے کیوں کہ اس کورونا کی وجہ سے بہار کے کروڑوں مزدوروں کی زندگی اذیت ناک ہوگئی ہے ۔ فی الوقت روزانہ ہزاروں کی تعداد میں مختلف شہروں سے مزدور اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں اور سرکاری انتظامیہ انہیں پہلے کوارینٹائن مرکز میں رکھ رہی ہے کہ ان مزدوروں کی واپسی کے بعد کورونا پوزیٹو کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن جب یہ سبھی مزدور کوارینٹائن سنٹر سے اپنے گائوں کو جائیں گے تو انہیں زندگی جینے کیلئےسہارا درکار ہوگا اور وہ صرف اور صرف مزدوری ہے۔
  اس لئے کورونا کے بعد شہروں سے زیادہ گائوں میں مسائل پیدا ہونے والے ہیںاور اس کے حل کیلئے مقامی سطح سے لے کر مرکز تک کو سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ سرکاری اعلانات کو زمین پر کیسے اتارا جائے گا اور سرکاری فنڈ سے واقعی جو ضرورت مند ہیں وہ مستفیض ہو رہے ہیں یا نہیں اس کیلئےبھی ایک سسٹم طے کرنا ہوگا۔ ورنہ یہ حقیقت تو عام ہے کہ خالی من شیطان کا ہوتا ہے اور نفسیاتی الجھن میں گرفتار انسان طرح طرح کے مسائل کو جنم بھی دیتا ہے۔ اسلئے سماجی سروکار رکھنے والوں کو بھی اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ مقامی سطح پر ہی سماجی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ حال ہی میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن نے ملک کی تمام یونیورسٹیوں کو کووڈ۔۱۹؍سے پیدا شدہ مسائل پر غوروفکر کرنے اور اصلاحی خاکہ تیار کرنے کی بات کہی ہے ۔ 
 غرض کہ حکومت بھی فکر مند ہے کہ بڑے شہروں سے جو مزدوروں کی گھر واپسی ہوئی ہے، اس سے مقامی سطح پر طرح طرح کے مسائل پیدا ہوں گے ۔ ظاہر ہے کہ تمام مسائل کا حل صرف حکومت کے ہاتھوں میں نہیں ہے بلکہ سماجی سطح پر بھی ان کے حل کیلئے متمول طبقے کو آگے آنا ہوگا کہ اگر سماجی مسائل کا بروقت حل نہیں ہوا تو اس سے صرف مزدور طبقہ ہی متاثر نہیں ہوگا بلکہ پورا سماج اس سے پریشان اور متاثر ہوگا۔یہ وقت انسانی معاشرے کیلئے ایک امتحان کاہے اور اس میں سنجیدہ حکمتِ عملی ہی سے کامیابی حاصل ہو سکتی ہے ۔اسلئے ہر شخص کو اپنی اپنی سطح سے مثبت فکر وعمل کا مظاہرہ کرنا ہی ملک وقوم کے مفاد میں ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK