Inquilab Logo

نئی تعلیمی پالیسی اور اُردو

Updated: August 07, 2020, 8:58 AM IST | Parvez Hafiz

اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا جاتا رہا ہے کہ انگریزی کی طرف بڑھتے رجحان اور انگریزی اسکولوں کے پھیلتے جال کے سبب معاشرے میں بچوں کے درمیان ایک خلیج پیدا ہوئی ہے جو دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ اسلئے یہ ضروری ہے کہ ابتدائی تعلیم سب کی ایک جیسی ہو تاکہ بچوں میں بڑا چھوٹا ہونے کا احساس نہ پیدا ہو۔ مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کے جو فائدے ہیں وہ بھی شک و شبہ سے بالاتر ہیں اس لئے نئی تعلیمی پالیسی کے اس شق کا استقبال کیا جانا ضروری ہے۔

Students - Pic : INN
طلبہ ۔ تصویر : آئی این این

انفرادی اجتماعی زندگی میں تبدیلی کے ساتھ معاشرتی نظام جس طرح بدلتا رہا ہے اس کا اثر ہمارے تعلیمی نظام اور تعلیمی پالیسی پر مرتب ہونا فطری تھا اس لئے ہر حکومت اپنی تعلیمی پالیسی تبدیل کرتی رہی ہے۔ انگریز جو تعلیمی نظام چھوڑ گئے تھے وہی آج بھی قائم ہے البتہ وقفے وقفے سے اس میں تبدیلیاں کی جاتی رہی ہیں۔ پچھلی تبدیلی ۳۴؍ سال پہلے کی گئی تھی۔اب جو تبدیلی کی گئی ہے اس پر سیاستدانوں اور ماہرین تعلیم نے الگ الگ ردِ عمل ظاہر کئے ہیں۔ مگر عمومی حیثیت سے یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ حکومت نے بہت غور و فکر کے بعد اس تعلیمی پالیسی کو تیار اور پھر نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہمارے لئے مناسب یہ ہے کہ مذہبی لسانی اقلیت کا ایک فرد ہونے کے ناطے ہم یہ دیکھیں کہ اس پالیسی میں ہمارے لئے کیا ہے؟ یا ہم کیا حاصل کرسکتے ہیں؟ سب سے پہلے تو تعلیمی پالیسی میں کی گئی تبدیلیوں پر نظر ڈالیں۔
 نئی تعلیمی پالیسی میں تعلیمی نظام کا دائرہ بڑھاتے ہوئے اس میں تین سال کی ’’ پری اسکولنگ مدت ‘‘ بھی شامل کردی گئی ہے اور کم از کم پانچویں تک تعلیم کا میڈیم مادری زبان / علاقائی زبان / مقامی زبان کو بنانے کی بات کہی گئی ہے۔ یہ بہت پرانا مطالبہ تھا۔ تمام ماہرین تعلیم یہی سفارش کرتے رہے ہیں کہ ابتدائی تعلیم مادری زبان میں ہونا چاہئے۔ کچھ لوگوں کو اس سے اختلاف بھی ہے کہ اس زمانے میں انگریزی کے بغیر تعلیم کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ انگریزی ہی کی بدولت ہندوستان کے طلبہ نے جدید تر تکنالوجی میں اپنی دسترس کا مظاہرہ کیا ہے۔ مگر ایک نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ انگریزی تعلیم کے باوجود ہمارے طلبہ اور تعلیمی اداروں نے عالمی سطح پر جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے وہ امید افزا نہیں ہے۔ اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا جاتا رہا ہے کہ انگریزی کی طرف بڑھتے رجحان اور انگریزی اسکولوں کے پھیلتے جال کے سبب معاشرے میں بچوں کے درمیان ایک خلیج پیدا ہوئی ہے جو دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ابتدائی تعلیم سب کی ایک جیسی ہو تاکہ بچوں میں بڑا چھوٹا ہونے کا احساس نہ پیدا ہو۔ مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کے جو فائدے ہیں وہ بھی شک و شبہ سے بالاتر ہیں اس لئے نئی تعلیمی پالیسی کے اس شق کا استقبال کیا جانا ضروری ہے۔
 البتہ اُردو والوں کو یہ سوچنا اور حکومت سے رجوع کرنا ضروری ہے کہ مہاراشٹر جیسی ریاست میں جہاں اُردو اسکولوں کا جال پھیلا ہوا ہے مگر اُردو اسکولوں کی تعلیم معیاری نہیں ہے وہاں اُردو اسکولوں کے تعلیمی معیار اور ماحول کو بہتر کیسے بنایا جائے۔ دوسری بات جس پر غور کیا جانا پہلی بات سے بھی زیادہ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جن ریاستوں میں اُردو ذریعۂ تعلیم اختیار کرنے والوں کی خاصی تعداد موجود ہے مگر اُردو اسکول نہیں ہیں وہاں ابتدائی درجات کے اُردو اسکول کیسے شروع کئے جائیں؟ نئی تعلیمی پالیسی میں یہ ذمہ داری ریاستی حکومت اور اسکول انتظامیہ پر ڈالی گئی ہے۔ ریاستی حکومت کیا کرے گی اس کا بہت کچھ انحصار اس پر ہے کہ اسکول انتظامیہ کیا فیصلہ اور پھر کیا اقدام کرتی ہے! اس سلسلے میں تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ خود اُردو کی ترقی کا نعرہ بلند کرنے اور اُردو اسکول چلانے والوں نے اُردو اسکولوں کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ایسے پری پرائمری اور پرائمری اسکولوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جہاں  بچوں  سے فیس لے کر انگریزی تعلیم دی جاتی ہے حالانکہ بچے کے گھر کا جو ماحول ہے اس میں وہ تعلیم بیشتر رائیگاں ہی جاتی ہے۔ پری پرائمری اور پرائمری پرائیویٹ اُردو اسکول شروع کئے جانے کا سلسلہ تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ اگر میونسپل کارپوریشن اور ضلع پریشد کے پرائمری اُردو اسکولوں میں تعلیمی معیار بہتر بنانے کے ساتھ انگریزی کو بہتر بنانے کی تدابیر کی گئی ہوتیں تو حالات آج اتنے خراب نہ ہوتے۔
 حکومت نے ہندوستانی زبانوں کو ترقی دینے اور ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دینے کا جو خواب دیکھا ہے وہ بہت مبارک ہے مگر یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ ۱۹۶۸ء میں جب سہ لسانی فارمولا پیش کیا گیا تھا تب بھی اُردو تعلیم کے بڑے امکانات تھے مگر اُردو والوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ہندوستانی زبانوں کو ترقی دینے اور مختلف سطح پر ان کو تعلیم سے جوڑنے کی عملی صورتوں کے جون ۲۰۲۱ء تک سامنے آنے کا امکان ہے۔ کیا یہ ضروری نہیں کہ تمام اُردو والے اس بات کو سوچیں کہ ہمارا بچہ پرائمری سطح پر اُردو میں یا بعد میں مضمون کی حیثیت سے اس زبان کو کیسے سیکھے جس سے ہماری تہذیبی زندگی کی صورت گری ہوتی ہے۔ صرف درجہ پانچ تک ہی بچہ صحیح طریقے سے اُردو سیکھ لے اور ساتھ ہی انگریزی اور کمپیوٹر میں اپنی صلاحیت بڑھاتا رہے تو کسی بھی سطح پر اس کو کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ مگر اس کام میں دو بڑی رکاوٹیں ہیں۔ پہلی رکاوٹ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے جو تہذیبی زیاں کو زیاں مانتے ہی نہیں۔ دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ اُردو تعلیم کے ہم نوا اول تو اُردو کے پرائمری اور پری پرائمری اسکول کے معیار و ماحول کو بہتر بنانے کی کوشش نہیں کرتے دوم یہ کہ نئے اسکول کھولنے میں بھی دلچسپی نہیں لیتے۔
 اُردو ایک خوبصورت زبان ہی نہیں مکمل تہذیب بھی ہے اگر اُردو اسکولوں کی انتظامیہ اور اساتذہ کم سے کم خرچ میں بہتر سے بہتر تعلیم دینے ساتھ اُردو تعلیم کی طرف دوسروں کو متوجہ کرنے کا منصوبہ بنائیں تو آج بھی اُردو زبان کا ڈنکا بج سکتا ہے۔ حکومت نے پرائمری تعلیم مادری یا مقامی زبان میں دینے کا جو پروگرام مرتب کیا ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ خواب پورا کیا جاسکتا ہے جو تقسیم ہند کے بعد پراگندگی کا شکار ہوگیا تھا۔ اس ملک کی سب سے منظم جماعت جو خود کو غیر سیاسی کہہ کر بھی حکومت کو پوری طرح کنٹرول کرتی ہے مادری زبان میں تعلیم دینے کی زبردست حامی ہے مگر اس کے ذمہ داروں اور ہمدردوں کے ذہنوں میں یہ غلط فہمی پروان چڑھ رہی ہے کہ اُردو ہندوستان کی زبان نہیں ہے یا ہندوستانیت سے اس کا رشتہ کچھ کمزور ہے یا یہ زبان و تہذیب ایسے ذہن کی آبیاری کرتی ہے جس سے حب الوطنی مجروح ہوتی ہے۔ یہ تمام خدشات مصنوعی ہیں ان کو دور کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اُردو والوں کے سامنے کوئی لائحہ عمل ہو اور وہ اس پر عمل بھی کریں۔ ہماری کمزوری یہیں عیاں ہوتی ہے کہ خود ہم اپنی زبان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK