Inquilab Logo

دہلی میں عوام کے درمیان سیاسی رابطے کی نئی شکل

Updated: January 19, 2020, 5:24 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

کیجریوال حکومت کے ذریعہ سیاست اور عوام کے درمیان رابطے کی جو نئی شکل پیش کی جارہی ہے وہ اس اعتبار سے لائق ستائش ہے کہ حکمراں پارٹی آئندہ انتخابات میں عوام کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے بہت واضح طور پر یہ کہہ رہی ہے کہ اگر اس نے اپنی پانچ سال کی میعاد میں واقعی عوام کیلئے کام کیا ہے تو ہی اسے دوبارہ ووٹ دئیے جائیں۔

اروند کیجریوال ۔ تصویر : ٹویٹر
اروند کیجریوال ۔ تصویر : ٹویٹر

بادی النظر میں یہ بات کچھ عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ سیاست کا عوام سے رابطہ ایسی صورت اختیار کرلے کہ پھر اس نکتے پر غور و فکرکا عمل شروع ہو جائے کہ سیاسی معاملات میں عوام کی حیثیت کیا ہے؟یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کسی بھی سیاسی نظام کا تصور عوام کی شمولیت کے بغیر مکمل نہیں ہوتااور جمہوری طرز سیاست میں عوام کوجو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے اس کے تناظر میں اس قسم کے سوال کا کوئی جواز ہی نہیں پیداہوتا لیکن معاصر سیاسی منظرنامہ پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ اگر چہ اصولی سطح پر سیاست سے عوام کا رابطہ ناگزیر حیثیت رکھتا ہے تاہم عمل کی سطح پر بیشتر سیاسی معاملات میں اقتدار کے مفاد کو ہی فوقیت حاصل ہے ۔یہ صورتحال عالمی سیاست اور ملکی سیاست میں یکساں طور پر نظر آتی ہے۔اس سلسلے میں یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ اقتدار کے ذریعہ جو بھی اقدامات یا سیاسی فیصلے کئے جاتے ہیں، ان میں عوام کی فلاح و بہبود کے متعلق اقتدار کی فکر مندی کی تشہیر خصوصی طور پر کی جاتی ہے لیکن ان اقدامات یا فیصلوںکے نفاذ میں اقتدار اپنے مفاد کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ہر ممکنہ کوشش کرتا ہے۔اس کوشش میںکامیابی کی خاطر وہ ایسے حربے استعمال کرتا ہے جو ظاہری طور پر عوام کے تئیں اس کی فکر مندی اور ہمدردی کو نمایاں کرتے ہیں لیکن درحقیقت ان کے ذریعہ اقتدار کی بالادستی کی راہ ہموار کی جاتی ہے ۔
 معاصر سیاست میں عوام اور اقتدار کے مابین رابطہ کی یہ شکل خصوصی طور پر ان ایام میں نمایاں ہوتی ہے جب ریاستی یا مرکزی اقتدار کیلئے انتخاب کا عمل شروع ہوتا ہے۔ جمہوری طرز حکومت میں انتخابی سیاست فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے اور یہی وہ موقع ہوتا ہے جب مختلف سیاسی پارٹیاں عوام کی زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے اپنے اپنے سیاسی منصوبوں کی تشہیر عوام کے درمیان کرتی ہیں۔ اس تشہیری مہم کا تانابانا کچھ اس طور سے تیار کیا جاتا ہے کہ ہر سیاسی پارٹی کا انتخابی منشور عوامی مسائل کے تئیں اس کی سنجیدہ فکر مندی کو ظاہر کرتا ہے ۔اس حوالے سے اگر وطن عزیز کی موجودہ سیاسی سرگرمیوںپر نظر ڈالی جائے تو سیاست اور عوام کے درمیان رابطہ کی ایک ایسی پیچیدہ صورت سامنے آتی ہے جو انتخابی عمل میں عوام کی شراکت کو بس اس حد تک محدود کرتی ہے کہ وہ سیاسی پارٹیوں کیلئے محض ووٹ حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بن کر رہ گیا ہے۔اس عمل کی تکمیل کے بعد جب کوئی سیاسی پارٹی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو وہ عوامی مسائل کے متعلق اپنی فکر مندی کو ظاہر کرنے والے ان تمام وعدوں کوبھی اکثر و بیشتر فراموش کر دیتی ہے جن کے سہارے اسے اقتدار حاصل ہوتا ہے ۔وطن عزیز کی سیاست میں یہ رویہ اور روش تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں میں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہے۔
 ایسے سیاسی ماحول میں دہلی کی کیجریوال حکومت کے ذریعہ سیاست اور عوام کے درمیان رابطہ کی جو نئی شکل پیش کی جارہی ہے وہ اس اعتبار سے لائق ستائش ہے کہ حکمراں پارٹی آئندہ انتخابات میں عوام کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے بہت واضح طور پر یہ کہہ رہی ہے کہ اگر اس نے اپنی پانچ سال کی میعاد میں واقعی عوام کے لیے کام کیا ہے تو ہی اسے دوبارہ ووٹ دئیے جائیں۔ دہلی کی ریاستی حکومت نے اپنے اس اعلان کے ذریعہ یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ انتخابی سیاست میں عوام کے ووٹ حاصل کرکے ان کے مسائل سے عدم توجہی برتنا سیاست کے ان اصولوں کے منافی ہے جو اقتدار اور عوام کے رابطہ کو مستحکم بنانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ عوامی مسائل کے متعلق اقتدار کا خود غرضی پر مبنی یہ رویہ معاشرتی اور معاشی سطح پر ایسے مسائل پیدا کرتا ہے جن کا حل تلاش کرنا بجائے خود ایک مشکل مرحلہ بن جاتا ہے ۔وطن عزیز کی موجودہ سیاست عمومی طور پر عوام کے معاشرتی اور معاشی مسائل کو مذہب اور قوم سے وابستہ جذباتی معاملات میں الجھائے رکھنے کی خوگر ہو گئی ہے ۔ سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ عوام کا یہ جذباتی استحصال ان کیلئے اقتدار کی راہ کو کسی قدر آسان تو بناتا ہے لیکن اس طرز سیاست سے عوام کی زندگی میں ترقی اور خوشحالی کا کوئی ایسا امکان نہیں پیدا ہوتا جو ان کے معیار زندگی کو بہتر بنا سکے۔قومی سطح پر نمایاں حیثیت رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کے درمیان عام آدمی پارٹی کی سیاست ان معنوں میں مختلف اور منفرد نوعیت کی حامل رہی ہے کہ اس نے اپنے آغاز سے ہی عوامی مسائل کو ترجیح دی ہے۔
 دہلی کی ریاستی حکومت کے ذریعہ عوام کی زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کو آسان بنانے کے سلسلے میں جو اقدامات کیے گیے ان سے معاشرتی اور معاشی ہر دو سطح پر دہلی کے عوام کوفائدہ ہوا۔ پارٹی سیاست کی سطح سے اوپر اٹھ کر اگر کیجریوال حکومت کے گزشتہ پانچ برسوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نے بجلی، پانی، تعلیم، صحت اور خواتین کے تحفظ کے معاملے میں ایسے اقدامات کیے جو عوام کے لیے مفید اور کار آمد ثابت ہوئے ۔ اس ضمن میں خصوصی طور سے تعلیم اور صحت کے شعبوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے ۔ معاشی اعتبار سے سماج کے کمزور طبقہ کے لیے تعلیم اور صحت کے مسائل کو آسان بنانے میں کیجریوال حکومت نے ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کیے۔ دہلی کے سرکاری اسکولوں کو تعلیم کے اعلیٰ معیار تک پہنچانے کا کام ریاستی حکومت کی بہتر کارکردگی کا نمایاں ثبوت ہے۔ اس وقت دہلی کے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کی علمی صلاحیت اور لیاقت ان مہنگے پرائیویٹ اسکولوں کے طلبا جیسی ہو گئی ہے جو ماہانہ فیس کے طور پر خطیر رقم وصول کرتے ہیں۔ دہلی کے سرکاری اسکولوں کا انفراسٹکچر اور نصاب دونوں جدید دور کے ان تعلیمی تقاضوں کی تکمیل کرتا ہے جو طلبا کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔تعلیم کے ذریعہ طلبا کی ہمہ جہت ترقی کا مناسب بندوبست دہلی کی کیجریوال حکومت کی بہتر کارکردگی کا نمایاں ثبوت ہے اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سیاست میں عوام کے مسائل اور معاملات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
 تعلیم کے علاوہ تحفظ صحت کے سلسلے میں بھی ریاستی حکومت کی کارکردگی اس کی عوام دوستی کا ثبوت فراہم کرتی ہے ۔دہلی میں زندگی بسر کرنے والے معاشی اعتبار سے کمزور طبقہ کے لیے محلہ کلینک کاقیام اقتدار کی عوام دوستی کا نمایاں ثبوت ہے ۔ غریب عوام کے حفظان صحت کے لیے ریاستی حکومت نے اپنی سنجیدہ فکرمندی کو موثر انداز میں عملی شکل دی ہے ۔ اس کے علاوہ عوام کو بجلی اور پانی کے مسائل سے نجات دلانے میں ریاستی حکومت کی کارکردگی اہمیت کی حامل ہے ۔ بجلی اور پانی کی فراہمی کا جو نظم ریاستی حکومت نے قائم کیا ہے اس سے عوام کو بجلی اور پانی کے مہنگے بل ادا کرنے سے راحت ملی ہے اور ساتھ ان قدرتی وسائل کے ضائع ہونے کا امکان بھی کم ہوگیا ہے۔  اس معاملے میں دہلی حکومت کی حکمت عملی ان دوسری ریاستی حکومتوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے جو نجی کمپنیوں کے دباؤ میں آکر عوام کے اوپر مہنگے بل کا بوجھ ڈالنے میں  کوئی ہچکچاہٹ نہیں محسوس کرتیں۔ 
 معاصر ہندوستانی سیاست میں مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کے سہارے اقتدار کے بلند ترین مدارج تک پہنچنے والی سیاسی پارٹی کو خصوصی طور سے دہلی کی کیجریوال حکومت کی عوام دوست حکمت عملی سے سبق سیکھنا چاہیے۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی عوام کا اعتبارحاصل کرنے کے لیے انھیں مسلسل جذباتی معاملات میں الجھا کر تادیر اپنا بھرم قایم نہیں رکھ سکتی۔ ممکن ہے کہ اس حکمت عملی سے اسے عارضی طور پر کچھ کامیابی حاصل ہو جائے لیکن اس کامیابی کو دوام اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جبکہ سیاست اور عوام کے مابین رابطہ کو استحکام دینے میں عوام کے معاشرتی اور معاشی مسائل کا موزوں حل تلاش کرنے کی مخلصانہ کوشش کی جائے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دہلی کی کیجریوال حکومت نے اپنے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کئی جہتوں میں مخلصانہ کوشش کی اور اسی کوشش کی بنیاد پر آئندہ انتخابات کے لیے اس نے ’کام کوووٹ‘ کا نعرہ دیا ہے ۔اس ملک کی پیچیدہ انتخابی سیاست کے تناظر میں حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی یہ کوشش کس حد تک کامیاب ہوگی لیکن اگر اسے دوبارہ حکومت بنانے میں کامیابی ملتی ہے تو یہ اس ملک کی سیاست کے لیے نیک فال ثابت ہوگا اور اس طرح سیاست کو عوام مرکوز بنانے میں ایک اہم پیش رفت بھی ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK