Inquilab Logo

نئی عوامی حکمت عملی سے معیشت میں بہتری آسکتی ہے

Updated: May 31, 2020, 4:21 AM IST | Mubarak Kapdi

ہندوستانی معیشت تنزلی کا شکار تو پہلے سے ہی تھی ، کورونا وائرس کے بحران میں غلط سیاسی فیصلوں نے اسے مزید تباہ کردیا۔ اربابِ حکومت اِن حالات میں بھی صرف سیاست پر آمادہ ہیں۔جی ڈی پی منفی سمت میں رواں ہے اور بے روزگاری کی شرح بھی مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔اِن حالات میں معاشرے کو اپنے طور پر نئی حکمت ِعملی اپنانے کی ضرورت ہے

Puri, Odisha - Pic : PTI
پوری، ادیشہ ۔ تصویر : پی ٹی آئی

سارے سیاست داں عوام کی ایک کمزوری بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔وہ یہ ہے کہعوام کی یاد داشت بڑی کمزور ہوتی ہے۔اس کمزوری کا یہ سیاست داں ہمیشہ اور بھرپور فائدہ اُٹھاتے رہتے ہیں۔ہربار الیکشن میں نت نئے وعدے کرتے ہیں،کوئی اُن سے یہ نہیں دریافت کرتا کہ پُرانے وعدوں سے تو اُنہوں نے کوئی پورا نہیں کیا۔ اب یہ الیکشن تو پانچ برسوں بعد آتا ہے البتہ اُن کے سالانہ وعدے یعنی بجٹ سے متعلق بھی کوئی سوال نہیں کرتا۔کیا ملک کے سارے عوام نسیان  کا شکار  ہیں؟جی نہیں یہ سیاست داں اپنے زرخرید ایجنٹوں کے ذریعے عوام کی عقل،خرد ویادداشت کو ہائی جیک کر دیتے ہیں۔آج یہ ملک آزادی کے بعدنازک ترین دَور سے گزر رہا ہے۔اس کا دس فیصد سبب کورونا وائرس اور ۹۰؍ فیصد وجہ ہے موجودہ حکومت کے جاہلانہ اور ظالمانہ اقدامات۔
 ان حالات میں جمہوری اداروں کی بقاء کیلئے ہمارے یونیورسٹی کے طلبہ کو اب کمر کس لینا ضروری ہوگیا ہے۔جونیئر کالج میں رہتے ہوئے ہی میں لگ بھگ اُنہیں ووٹ دینے کا حق حاصل ہوجاتا ہے، اب  اتنی قیمتی چیز کو کچرے کے ڈبے میںڈالنا نہیں ہے بلکہ اُسے جمہوریت کی بقاء کیلئے اپنا لازمی و سماجی فریضے کے طور پر استعمال کرناہےلہٰذا سیاست کو صرف سیاسی سائنس کے طلبہ ہی کو نہیں بلکہ کیمسٹری، لٹریچر، مکیانکس  اور اکنامکس کے طلبہ کو بھی بخوبی سمجھنی ہے۔
 آخر ہمارے نوجوان کیوں کر صرف خاموش تماشائی بن کر رہ سکتے ہیں جب وہ دیکھ رہے ہوں کہ آزادی کے بعدپہلی بار لاکھوں مزدور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہورہے ہیں اور اُن میں سے کئی بھوکے پیاسے اور پیدل بھی چل رہے ہیں۔ ۵۰۔۶۰ ؍ سال پہلے بھی کبھی ٹرین کے سگنل فیل نہیں ہوئے اور اب فیل ہو رہے ہیں کہ۲۴ گھنٹے میں ممبئی سے دھنباد جانے والی ٹرین چار دِن بعد ہاؤڑا پہنچ رہی ہے۔ کئی ٹرینوں کے ساتھ یہی ہُوا تو ہر ایک کے دِل میں یہ سوال اُٹھنا لازم ہے کہ کیا یہ مزدوروں کو سبق سکھانے کیلئے کیا جاتا ہے تاکہ آئندہ وہ اپنے گاؤں(اور وہ بھی مفت میں) جانے کی ضد کر کے راستے پر نہ اُتر آئیں،(انہی پٹریوں پر بلیٹ ٹرین چلانے کا بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے) ۔کہیں کوئی ماں اپنی اٹیچی پر اپنے بچے کو سُلا کر کھینچ رہی ہے اور کہیںکسی پلیٹ فارم پراپنی مردہ  ماں کو دو سال کا بچہ جگانے کی کوشش کر رہا ہے۔  ایسے میںنوجوانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سماج کو یہ تربیت دیں کہ عوام کو یہ مظالم برداشت نہیں کرنے ہیں۔اسی کے ساتھ سماج کو یہ بھی بتائیں کہ یہ سیاست داں ہر سانحے کو حادثے میں تبدیل کرنے کا فن  جانتے ہیں۔
 نوجوانو! چوتھا لاک ڈاؤن ختم ہونے کو ہے لیکن آثار نظر نہیں آتے کہ یہ سلسلہ ختم ہوگا۔ ایسا لگتا ہے ہمارے سیاستداں لاک ڈاؤن کی سلور جبلی منانا چاہتے ہیں کیونکہ تین ماہ  بعد بھی ابہام کی کیفیت ہے۔ اس افراتفری اور سماجی انتشار کی بنیادی وجہ یہ ارباب حکومت کی بد نیتی ہے۔ جیسے اس وبا یا بلاکو بھی ملک کے سربراہ نے زعفرانی رنگ دینے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی۔اس نے پہلے ہی دن اعلان کر دیا کہ مہابھارت کی جنگ ۱۸؍ دنوں میں جیتی گئی تھی،اب ہم کورونا کی جنگ ۲۱؍ دنوں میں جیت لیں گے۔اس اعلان کو ۷۰؍ دن گزر گئے اور کورونا مریضوں کی تعداد  ڈیڑھ لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی۔ملک بھر میں سرکاری اعداد و شمار کو مان بھی لیں کہ  روزانہ ایک لاکھ افراد کی میڈیکل جانچ ہو رہی ہے تو پھر اس رفتار سے ۱۳۵؍ کروڑ  کی آبادی والے اس ملک کے شہریوں کی شہریت ثابت کرنے والا این آر سی کا معاملہ کیسے پورا کریں گے؟ پورے ۳۶؍ سال گزر جائیں گے اور اس دوران ۶۵؍ کروڑ کی آبادی مزید بڑھ جائے گی۔نوجوانو! آپ کو محلہ تنظیموں کے ذریعے عوام کو بتانا ہے کہ سی اے اے وغیرہ کے ذریعے موجودہ حکمرانوں کو اصل مسائل سے ذہن بھٹکانا ہے اور اس لاک ڈاؤن کی آڑ میں اس کالے قانون پر احتجاج کر نے والوں کو حراست میں لے کر انہوں نے مزید واضح کر دیا کہ لاک ڈاؤن وغیرہ سے کورونا کو بھگانا نہیں ہے بلکہ جمہوری حقوق کی پامالی کرنی ہے۔
 نوجوانو! کورونا وائرس  سے نجات پانے کے بعد جب لاک ڈاؤن کھُل جائے گا بد بختی سے ہماری قوم کو کسی’شاہین باغ‘میں قرنطینہ میں قید ہونا ہے بے مدّت میعاد کیلئے اور وہاں بھی فیض کی نظمیں گنگنانی ہیں۔نوجوانوں کو پھر متحرک رہنا ہے،متحد ہونا ہے،بیدار رہنا ہے۔اس لاک ڈاؤن نے قوم کو بڑے زخم دئیے ہیں۔رمضان سائیں سائیں کرتے سناٹے میں گزرگیا اور عید پر نہ کسی سے گلے ملے، نہ مصافحہ کیا۔ اس دوران چھوٹوں کی عیدی کھو گئی۔’حامد‘عید گاہ نہیں جاسکا۔چھ برس کی چھوٹی سی ’سارہ‘نے پورے تیس روزے رکھے مگر ہتھیلی پر مہندی سجانے کی ضد نہیں کی۔محّلے سے جھولے غائب تھے،گاؤں میں برگد کے درخت پر سجنے والی رسّوں کی پینگیں بھی دیکھنے کو آنکھیں ترس گئیں۔اِن سب کے باوجود اس ابتلاء میں ہمارے نوجوانوں نے انسانیت کا سر اونچا کر نے والے کام کئے۔کہیں سیکڑوں اور ہزاروں بھوکوں کو کھانا کھلایا، پانی پلایا،مریضوں کو اسپتال پہنچایا۔اب انہیں نوجوانوں سے اُمید ہے کہ وہ فرقہ پرستوں کے سارے وائرس کا مقابلہ بھی بہادری  اورخوش اسلوبی سے کریں گے۔
 نوجوانو!معاشرت اور معیشت کا اٹوٹ رشتہ ہے۔ایک بگڑتی ہے تو دوسری متاثر ہوتی ہے۔اسلئے آئیے لاک ڈاؤن کے بعد کی معیشت کے منظر نامے کا جائزہ لیں۔ معیشت کی صورتِ حال صرف کامرس اور اکنامکس کے طلبہ نہیں بلکہ عام لوگ بھی سمجھ سکتے ہیں۔البتہ اس میں سب سے بڑی دشواری یہ ہے کہ حقیقی اعداد و شمار عوام کے سامنے آجائیں۔اگر صرف الیکشن کے دوران نہیں بلکہ عام دنوں میں بھی اشتہاری ایجنسیوں سے  خوبصورت اسکرپٹ اور جوشیلے و جذباتی نعرے لکھوائے جائیں۔ تب حقیقت کبھی سامنے نہیں آئے گی۔گزشتہ چھ برسوں میں ۴۰۔۴۵؍ نت نئے نعرے ان اشتہاری کمپنیوں نے لکھ کر دئیے اور وہ بڑے دلکش بھی تھے، اسلئے عوام ان نعروں میں کھو بھی گئی مگر اب ان نعروں کا اسٹاک ختم ہو گیا ہے اسلئے دُہرایا جا رہا ہے جیسے میک ان انڈیا کا اب ہندوستانی ترجمہ آتم نربھر بھارت پیش کیا گیا۔اُس سے چند ہفتے پہلے پانچ ٹریلین معیشت کا نعرہ دیا گیا تھا اور اب بیس لاکھ کروڑ کا پیکیج۔جی ہاں یہ نیا نعرہ ہے کیوںکہ ماہرین ِ اقتصادیا ت بتا رہے ہیں کہ یہ ایک لاکھ کروڑ کا بھی پیکیج نہیں ہے باقی سب قرضہ ہے۔کورونا کے دَور میں سرکاری امدادکو کل جی ڈی پی (مجموعی قومی پیداوار)کو حکمراں طبقہ دس فیصد بتا رہا ہے جبکہ ماہرین معیشت بتا رہے ہیں یہ ایک فی صد سے بھی کم ہے۔انہیں ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ معیشت کا پہیہ صرف رکا ہی نہیں بلکہ اُلٹی سمت میں چل پڑا ہے۔
  ان حالات میں ہمیں کرنا کیا ہے؟امیر اور غریب کے علاوہ دو مزید طبقے یہاں بستے ہیں،وہ ہیں مڈل کلاس اور لووَر مڈل کلاس۔جینا اور جینے کیلئے وسائل مہیا کرانا انہیں دو کلاس کیلئے مشکل ہے۔اس کیلئے ہمیں دو بہت پُرانے مگر کار آمد اُصولوں کو اپنانا پڑیگا اور وہ ہیں بڑی سختی سے میانہ روی کو اختیار کرنا اور اسراف سے بچنا۔ہم اس ضمن میں اپنے قوم کے حوالے سے بات کریں گے۔یہ قوم خرچ کرنے میں اُستاد ہے بلکہ نمبر ایک ہے جبکہکمانے میں ہمارا دسواں نمبر بھی نہیں ہے ۔ہمارے یہاں جیسے تیسے لوگ کما رہے ہیںاور اندھا دھند خرچ کر رہے ہیں۔یہ سارے اسراف قرض، کریڈیٹ کارڈ اوردوستوں سے اُدھاری لے کر کئے جاتے ہیں۔شادی اورولیمہ کے ساتھ ہی اب ’ماڈرن‘کہلانے کیلئے برتھ ڈے پارٹی وغیرہ منانا بھی عام بات ہے۔ایسا اسلئے ہےکیوں کہ ہر بار ہمارے شعور و لا شعور میں یہ آواز گونجتی رہتی ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں،پائندہ قوم ہیں جبکہ حقیقت بالکل برعکس ہے۔فضول خرچ کر نے والا شخص ہمیشہ یہ کہتے سُنائی دیتا ہے کہ ا س کی مرضی،اُس کے پاس خوب خوب دولت ہے،وہ خرچ کرے،صَرف کرے یا ضائع کرے۔کوئی اُسے سمجھائے کہ اُس کا یہ فعل محض سماج دشمنی کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ اُس کی بناء پرسیکڑوں اور ہزاروں افراد اُس کی فضول خرچی کی نقل کرتے ہیں چاہے اُنہیں قرض دَر قرض لینا پڑے یا عزت نفس داؤ پر لگ جائے۔لاک ڈاؤن کے بعد جو معاشی لاک ڈاؤن ہماری قوم کو درپیش ہے اُس کا ایک علاج یہ ہے کہ ہم ہمارے یہاں فضول خرچ اور نمائش کرنے والے افراد کو رول ماڈل بنانا دَرکنار بلکہ اُن کا بائیکاٹ کریں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK