Inquilab Logo

انسان پرمصیبتوں کے کتنے ہی پہاڑٹوٹ جائیں لیکن اسلام خودکشی کی اجازت نہیں دیتا

Updated: July 10, 2020, 11:17 AM IST | Mohammed Asaad Falahi

دین مبین میں انسانی جان کو بیش قیمت قرار دیا گیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی دوسرے فرد کو ناحق قتل کر دیا ،تو اسلام اسے پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیتا ہے ۔اسلام خودکشی کو حرام قراردیتا ہے ۔ انسان کا اپنا جسم اور زندگی درحقیقت اس کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ امانت ہیں۔ ان میں خیانت کرنے والا آخرت میں اللہ کے حضور جوابدہ ہوگا ۔

Suicide - Pic : INN
خودکشی ۔ تصویر : آئی این این

ہر انسان کو زندگی عزیز ہوتی ہے ۔دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو زندگی کو پسند نہ کرے۔ لیکن دنیا میںبہت سے ایسے لوگ بھی مل جاتے ہیں جو حقیقی معنوں میں تو زندہ نہیں ہوتے البتہ سانس لے رہے ہوتے ہیں اور بسا اوقات چھوٹی سی محرومی ان کی زندگی کے مقاصد کی نفی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ کبھی وہ  دنیاوی الجھنوں سے گھبرا کر اپنے اعزاء و اقارب سے منہ پھیر کر ایسی جگہ جانے کا ارادہ کر لیتے ہیں جہا ں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ اسی عمل کو خودکشی کہا جاتا ہے ۔
خود کشی ایک ایسا فعل ہے جس میں انسان اپنے ارادہ سے اور اپنے ہاتھوں اپنی جان گنوا تا ہے۔  اس میں مرنے والے کے ارادہ کا مکمل دخل ہوتا ہے۔ اس کا تعلق انسان کے اندرون سے ہے۔ اس کی اندرونی، ذہنی، قلبی، جذباتی اور سوچنے کی کیفیت اس کو اس مقام پر لے جاتی ہے جہاں وہ اپنی زندگی کا خاتمہ خود کر بیٹھتا ہے۔گویا اندر رہنے والی ’غیر مادی ‘ چیز ہی تو  انسانیت کا جوہر ہے۔اس کے ہونے ہی سے سب کچھ ہے ۔ اسی کو ’روح‘ کہتے ہیں ۔ یہ جسم بلکہ ساری کائنات اسی کی خدمت پر ما مور ہیں۔ اسی کا نام ’نفس ‘بھی ہے ۔ یہی دراصل انسان کو خودکشی کے اقدام پر مجبور کرتا ہے ۔
  اسبا ب و وجوہ
٭ خودکشی کی ایک بڑی وجہ نفسیاتی مسائل ہیں ۔ جوں جوں انسان ترقی کی راہ پر گامزن ہے، اسی کے بہ قدر اس کے نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان مسائل کی سب سے بڑی وجہ میڈیا ہے۔ ٹی وی پر دکھائےجانے والے تقریباً ہر پروگرام، سیریل، ڈرامے، فلم یہاں تک کہ کارٹون میں بھی مرد اور عورت کی محبت دکھائی جاتی ہے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر نوجوانوں پر پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ان کے دل و دماغ پرایسا خمار چھا جاتا ہے کہ وہ محبت کو اپنی زندگی کے حقیقی مقاصد سے زیادہ اہمیت دینے لگتے ہیں۔ پھر لوگ پروگرام کے ان مصنوعی کرداروں کو اپنی حقیقی زندگی میں عملی جامہ پہنانے کے لئے کوشاں ہو جاتے ہیں  اور جب محبت کے حصول میںانہیں ناکامی نظر آنے لگتی ہے تو ان پر مایوسی پوری طور سے حاوی ہو جاتی ہے۔ نتیجتاً وہ ایسے خطرناک فعل کو انجام دیتے ہیں جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتااور ان کا یہ ’کارنامہ‘ والدین اور اعزا و اقرباکے لئے پوری عمر کا پچھتاوا بن جاتا ہے ۔
٭اس کی دوسری بڑی وجہ والدین کی جانب سے اولاد کی تربیت میں لاپروائی ہے۔ والدین کو اولاد کی تربیت اس طرح کرنی چاہئے کہ وہ اپنا ہرمعاملہ ان سے بیان کر سکیں اور اپنے ہر مسئلہ میں ان سے رائے لیں اور والدین کو بھی اپنی اولاد کے احساسات و جذبات کا احترام کرنا چاہئے کیوں کہ بسا اوقات ان کی طرف سے سختی اور لاپروائی جذباتی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بنتی ہے۔ اس طرح وہ لوگ نفسیاتی طور پرکمزور ہو جاتے ہیں اور انتہائی قدم اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
٭ خود کشی کی ایک وجہ سوشل میڈیا کا بے جا استعمال بھی ہے۔ اس نے جہاں رشتوں میں دوریاں پیدا کردی ہیں وہیں والدین کو بھی اس حد تک مصروف کر دیا ہے کہ ان کے پاس اپنی اولاد کے لئے وقت ہی نہیں ہے۔ عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سے لوگ اپنے سے کوسوں دور کسی دوسرے شخص کے لئے تو پریشان نظر آتے ہیں، لیکن  اپنے ہی گھر میں بسنے والے افراد کی حالت سے ناواقف ہو تے  ہیں ۔
اولاد میں باغیانہ خیالات کی ایک بڑی وجہ والدین  کا حد سے زیادہ لاڈ پیار اور حد سے زیادہ سختی بھی ہے۔ دونوں ہی صورتیں نقصان کا باعث بنتی ہیںاور والدین اور اولاد کے درمیان حدفاصل قائم کر دیتی ہیں ۔
ان کے علاوہ خود کشی کے اور بھی بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں مثلاً مقصد کے حصول میں ناکامی (مطلوبہ مقام پر شادی نہ ہونا، امتحان میں فیل ہوجانا )، گھریلو جھگڑے (اولاد اور والدین، شوہر اور بیوی، ساس اوربہو، بھابھی اور نند کے درمیان)، غربت و تنگ دستی، قرض، بیٹیوں کی شادی کا مسئلہ، بے روزگاری، بیماری، بدنامی( مثلاً کسی پوشیدہ گناہ کے آشکار ہو جانے کا) خوف، جانی و مالی نقصان (کاروبار تباہ ہو جانا،کسی بہت عزیز شخص کا انتقال کر جانا) وغیرہ۔ خودکشی کرنے والا شخص خود تو اپنی زندگی کو ہلاکت میں ڈالتا ہی ہے، اپنے اعزاء و اقارب کو جن ذہنی اذیتوں میں مبتلا کر جاتا ہے وہ بھی کچھ کم نہیں ۔اگر خودکشی کرنے والا شخص اس بات پر غور کرلے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے اہل خانہ کن مصائب سے دوچار ہوں گے تو شاید وہ اپنے ارادہ کو ترک کر دے اور زندہ رہنے کو ترجیح دے ۔
  اسلامی نقطۂ نظر
اسلام میں انسانی جان کو بیش قیمت قرار دیا گیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی دوسرے فرد کو ناحق قتل کر دیا، تو اسلام اسے پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیتا ہے۔ اسلام خود کشی کو حرام قراردیتا ہے۔ انسان کا اپنا جسم اور زندگی درحقیقت اس کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ رب العالمین کی عطا کردہ امانت ہیں۔ ان میں خیانت کرنے والا آخرت میں  اللہ کے حضور جوابدہ ہوگا۔
زندگی اور موت کا حقیقی مالک اللہ تبارک و تعالی ہے۔ جس طرح بلا وجہ کسی دوسرے شخص کو موت کے گھاٹ اتارنا پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے، اسی طرح اپنی زندگی کو ختم کرنا یا اسے بلا وجہ ہلاکت میں ڈالنا بھی سخت ناپسندیدہ ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
’’اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو۔ احسان کا طریقہ اختیار کرو، اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے ۔‘‘ (البقرۃ: ۱۹۵)۔ دوسری آیت میں فرمایا گیا کہ ’’اپنے آپ کو قتل نہ کرو ،یقین مانو اللہ تمہارے اوپر مہربان ہے۔ جو شخص ظلم و زیادتی کے ساتھ ایسا کرے گا اس کو ہم ضرور آگ میں جھونکیں گے اور یہ اللہ کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔‘‘
(النساء :۲۹۔۳۰)
دنیا مومن کےلئے آزمائش 
 اللہ تعالی نے دنیا اس طرح بنائی ہے کہ یہاں خوشی بھی ہے اور غم بھی، راحت بھی ہے اور تکلیف بھی، تنگ دستی بھی ہے اور خوش حالی بھی۔ ان حالات سے ہر انسان کا سابقہ پڑتا ہے۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ ان حالات سے انسان کی آزمائش مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر کرنے والا بھی ۔‘‘(ا لملک :۲)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس لئے پیدا کیا تاکہ ان کا امتحان لے اور دیکھے کہ وہ کیسے اعمال انجام دیتے ہیں۔  قرآن کریم کی دیگر متعدد آیات (الکہف:۷، الانبیاء : ۳۵، محمد : ۳۱، دھر :۲) میں بھی یہ بات مذکور ہے کہ انسانوں کی پیدائش کا مقصد ان کا امتحان لینا اور انہیں آزمانا ہے  تاکہ معلوم ہو کہ کون اللہ کا شکر گزار ہے اور کون نا شکرا؟ کون صبر کا دامن تھامے رہتا ہے اور کون غلط راستہ اختیار کرتا ہے ؟
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
’’اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی،  جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔ اور (ایسے حالات میں) صابرین کیلئے بشارت ہے۔‘‘  (البقرۃ : ۱۵۵)
صبر ہی واحد حل 
انسانی زندگی میں دکھ  اورسکھ ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔انسان کے حصے میں کبھی خوشیاں آتی ہیں اور کبھی اس کا سامنا مصیبتوں سے ہوتا ہے۔ جس طرح ایک طالب علم کو امتحان میں کچھ مشکل اور کچھ آسان سوالات دیئے جاتے ہیں ویسے ہی انسان کا دشواری اور آسانی دونوں طرح سے ٹیسٹ لیا جاتا ہے۔ اس صورت حال میں قرآن تلقین کرتا ہے کہ انسان کو آسانی کی حالت میں اپنے رب کا شکر گزار ہونا چاہئے اور مشکل حالات میں صبر سے کام لینا چاہئے۔ مشکل حالات میں صبر نہایت مثبت عمل ہے، جب انسان اس امتحان میں کھرا اترتا ہے تو خدائی قوتیں اس کی حمایت میں آجاتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ جیسی عظیم الشان ہستی کا بھی بارہا آزمائشوں سے سامنا ہوا۔ ایسے مواقع پر آپؐنے جو رویہ اختیار فرمایا وہ ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے۔ مشکل حالات میں آپؐ ہمیشہ اپنے رب کی طرف رجوع کرتے اور نماز ادا کرتے تھے۔ اولاد کی وفات کا صدمہ ہو یا نادان مخاطبین کی جانب سے پتھرائو، منافقین کی چالبازیاں ہوں یا کفار کے حملے۔ ان سب حالات میں آپؐ اپنے رب کے حضور کھڑے ہوتے اور نماز اور صبر کے ذریعہ مدد طلب کرتے۔ صبرکی اہمیت اس اعتبار سے بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صبر کرنے والوں کو اپنی معیّت کا اعزاز بخشا ہے۔ اس کا ارشاد ہے : ’’یقیناً اللہ صابروں کے ساتھ ہے ۔‘‘ (البقرۃ: ۱۵۳)
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ انسان کو اللہ کا سہارا صبر کرنے کی صورت میں ملے گا۔ اس دنیا میں بے شمار مواقع آتے ہیں، جب ہمیں اللہ کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس آیت میں ایک نفسیاتی پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ صابر شخص کو پہلے ہی مرحلے میں ایک نفسیاتی تفوق حاصل ہوتا ہے، وہ یہ کہ مصائب اور مشکلات پر چیخنے چلانے اور ان سے گھبرانے کے بجائے وہ ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے۔ صبر ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان ایک موقع پر دو عمل کر رہا ہوتا ہے: ایک مصیبت کو برداشت کرنا اور دوسرے برے  اقدام سے رکے رہنا۔ یہ چیز انسان کو  دُہر ے اجر کا مستحق بناتی ہے ۔
خودکشی کی مما نعت
اللہ کے رسول ﷺ نے خود کشی کا ارتکاب کرنے والے شخص کو دُہرے عذاب کا مستحق قرار دیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ؐ نےفرمایا:
’’جس شخص نے خود کو پہاڑ سے گرا کر ہلاک کر دیا تو وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ وہیں رہے گا اور جس نے زہر کھا کر اپنے آپ کو ختم کیا تو وہ زہر دوزخ میں بھی اس کے ہاتھ میں ہوگا، جسے وہ برابر کھاتا رہے گا اور ہمیشہ وہیں رہے گا۔ جس شخص نے اپنے آپ کو لوہے کے ہتھیار سے قتل کیا تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گااور ہمیشہ دوزخ میں ہی رہے گا ۔‘‘ ( بخاری)
حضرت ثابت بن ضحاکؒ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے کسی چیز سے خود کشی کی تو اسے جہنم کی آگ میں اسی چیز سے عذاب دیا جاتا رہے گا ۔ ‘‘ ( بخاری )
حضرت جندب ابن عبداللہ البجلیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’پچھلی امتوں میں ایک شخص کے جسم پر ایک پھوڑا نکلا جب اسے اس میں زیادہ تکلیف محسوس ہونے لگی تو اس نے اپنے ترکش  سے ایک تیر نکال کر اس پھوڑے کو چیر ڈالا، جس سے مسلسل خون بہنے لگا ۔ اس کی وجہ سے وہ شخص مر گیا۔ اللہ نے فرمایا:میں نے اس پر جنت حرام کردی۔ ‘‘    (مسلم )
حضرت جابر بن سمرۃ ؓ کہتے ہیں کہ’’ حضور ﷺ کے سامنے ایک شخص لایا گیا، جس نے اپنے آپ کو نیزے سے ہلاک کر لیا تھا ، آپؐ نے اس کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھائی۔‘‘ (ابوداؤد)
اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ انسان پر مصیبتوں کے کتنے ہی پہاڑ ٹوٹ جائیں لیکن اسلام اس کو خودکشی کی اجازت نہیں دیتا ، بلکہ صبر کرنے کی تلقین کرتا ہے اوراس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر کا وعدہ ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK