Inquilab Logo

اے محمدؐ! آپؐ نے ہدایت پائی اور آپؐ کی اُمت نے بھی ہدایت پائی

Updated: September 18, 2020, 10:24 AM IST | Maolana Nadeemul Wajidi

سیرت نبی ٔ کریم ؐ کی اس خصوصی سیریز میں گزشتہ ہفتے آپؐ کی بیت المقدس میں تشریف آوری، انبیاء علیہم السلام کی جماعت اور آپؐ کی امامت کا احوال پیش کیا گیا تھا۔ آج آپؐ کے سفر معراج اور آسمانِ دنیا کی سیر کا ذکر ملاحظہ فرمائیے

Aqsa Mosque - Pic : INN
مسجد اقصیٰ ۔ تصویر : آئی این این

 بعد ازاں آپ کی خدمت میں تین برتن پیش کئے گئے، ایک برتن میں دودھ تھا، دوسرے میں شراب تھی، اور تیسرے میں پانی تھا، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک نقل کرتے ہیں کہ جس وقت یہ تین برتن میرے سامنے لائے گئے، میں نے ایک آواز سنی، کوئی شخص کہہ رہا تھا کہ اگر پانی کا برتن لیا گیا تو یہ بھی غرق ہوجائیں گے اور ان کی امت بھی ڈوب جائے گی، اور اگر شراب کا پیالہ اختیار کیا گیا تو خود بھی گمراہ ہوجائیں گے اور امت بھی گمراہ ہوجائے گی اور اگر انھوں نے دودھ کا پیالہ لیا تو خود بھی ہدایت پر رہیں گے اور امت بھی ہدایت پائے گی۔ میں نے دودھ کا پیالہ اٹھا لیا، اور اس میں سے کچھ دودھ پیا، جبریلؑ امین نے مجھ سے کہا: اے محمدؐ! آپؐ نے ہدایت پائی اور آپؐ کی امت نے بھی ہدایت پائی۔(تفسیر ابن کثیر: ۵/۲۸، المجمع للہیثمی: ۱/۷۸، الخصائص الکبری: ۱/۲۶۸) بعض روایات میں دو برتنوں کا ذکر ہے، ایک میں دودھ تھا اور دوسرے میں شہد۔ (صحیح البخاری: ۷/۲۸۸۷، باب المراج، صحیح مسلم: ۱/۲۵۹، کتاب الایمان باب الاسراء) 
 حافظ ابن حجر اپنی شرح بخاری میں فرماتے ہیں کہ رواۃ کے درمیان برتنوں کی تعدادمیں بھی اختلاف ہے اور برتنوں کے اندر جو چیز تھی اس میں بھی اختلاف ہے، بعض صحابہ نے وہ ذکر کیا ہے جو دوسرے نے نہیں کیا، اور اگر ان روایات میں تطبیق کی صورت اختیار کی جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پیالے چار تھے، اور ان میں چار مشروبات تھے، اور یہ چارمشروبات ان چار طرح کی نہروں سے لائے گئے تھے جو سدرۃ المنتہی کی جڑ سے نکل کر بہہ رہی تھیں اور معراج میں آپؐ نے ان نہروں کا مشاہدہ بھی فرمایا تھا، قرآن کریم میں بھی ان کا ذکر ہے۔ سورہ محمد، آیت نمبر ۱۵؍ میں  فرمایا:
 ’’اس (جنت) میں ایسے پانی کی نہریں ہیں جو خراب ہونے والا نہیں، ایسے دودھ کی نہریں ہیں جس کا ذائقہ نہیں بدلے گا، ایسی شراب کی نہریں ہیں جو پینے والوں کے لئے سراپا لذت ہوں گی اور ایسے شہد کی نہریں ہیں جو نتھرا ہوا ہوگا۔‘‘  
(فتح الباری: ۷/۲۵۶)
 یہ تمام واقعات عالم مثال میں پیش آئے، مسلمان فلاسفہ اور موجودہ دور کے سائنس داں بھی اس بات پر متفق ہیں کہ عالم مثال ایک متوازی دنیا ہے اور اس دنیا کا ہر وجود اور شے عالم مثال میں بھی ظاہر ہوتی ہے۔ امام المحدثین حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اس نظرئیے کو احادیث سے ثابت کیا ہے، ان کے نزدیک کائنات میں ایک ایسا عالم بھی پایا جاتا ہے جو غیرمادی ہے، اس عالم میں معانی یعنی حقائق کے لئے بھی جسم ہیں، یہ اجسام مثالی ہیں، ہر معنی کو اس کا لحاظ کرتے ہوئے جسم دیا جاتا ہے، جیسے دنیا کو بوڑھی عورت کا اور بزدل کو خرگوش کا، اس دنیا میں چیزیں پائے جانے سے پہلے عالم مثال میں پائی جاتی ہیں، جیسے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان مشاہدات سے پتہ چلتا ہے کہ جس طرح کا عذاب گناہ گاروں کو دیا جائے گا وہ پہلے ہی عالم مثال میں مجسم کرکے دکھایا گیا، حضرت شاہ صاحبؒ نے عالم مثال پر دلالت کرنے والی انیس احادیث پیش کی ہیں جن میں مختلف حقائق کے لئے اجسام کا ذکر ہے، جیسے موت کے لیے دنبے کا اور علم کے لئے دودھ کا، ان روایات کو ان کے ظاہر پر محمول کرکے تسلیم کرنا چاہئے۔ (حجۃ اللہ البالغہ) 
lمعراج کا سفر
اب یہاں سے معراج کا سفر شروع ہوتا ہے، اس سلسلے میں روایات متعدد ہیں، کچھ مختصر اور کچھ مفصل، حافظ ابن اسحاقؒ نے حضرت ابوسعید الخدریؓ کی ایک روایت ذکر کی ہے، اس کے ساتھ ہی انہوںنے اور روایتیں بھی شامل کتاب کی ہیں، حافظ ابن کثیرؒ نے بھی اپنی تفسیر میں واقعہ ٔ  معراج پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ حافظ ابن القیمؒ نے بھی متعدد احادیث بیان کی ہیں، ان سب روایات میں جمع و تطبیق کے بعد سفرِ معراج کی جو تفصیلات سامنے آتی ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں:
حضرت ابوسعیدالخدریؓ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادمبارک نقل کرتے ہیں کہ ’’میں جب بیت المقدس کے معاملات (امامت اور ملاقات وغیرہ) سے فارغ ہو کر باہر نکلا تو ایک سیڑھی لائی گئی، میں نے اس سے زیادہ حسین اور خوبصورت سیڑھی کبھی نہیں دیکھی تھی، اسی سیڑھی کی طرف مرتے وقت تمہاری میتیں دیکھتی ہیں‘‘ بعض روایات میں ہے کہ یہ سیڑھی زمرد اور زبرجد  (ایک قسم کا زمرد) کی بنی ہوئی تھی، آپؐ اس سیڑھی کے ذریعے آسمان پر تشریف لے گئے، آپؐ کے دونوں طرف فرشتے موجود تھے، جو اپنے جلو میں آپؐ  کو لے کر اوپر چڑھ رہے تھے۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آپؐ براق کے ذریعے تشریف لے گئے، لیکن حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں کہ آپؐ سیڑھی کے ذریعے تشریف لے گئے، براق بدستور مسجد اقصیٰ کے باہر صحن میں بندھا رہا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم براق پر تشریف فرما ہوئے اور براق کو سیڑھی پر سوار کرایا گیا، اس طرح دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت نکل آتی ہے۔ اور اگر یہ بات صحیح ہے تو اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور بڑھ جاتی ہے کہ آپ کو سیڑھی پر چڑھنے کی زحمت نہیں دی گئی بلکہ براق کو چڑھایا گیا، جب کہ آپ براق پر ہی تشریف فرما رہے۔ مہمان کا اس سے بڑھ کر اور کیا اعزاز ہوسکتا ہے کہ اس کو میزبان کے گھر آنے میں ذرا تکلیف نہ ہو۔ اب آئیے پھر حضرت ابوسعید الخدری کی حدیث کی طرف، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’مجھے میرے رفیق جبریل امین نے سیڑھی پر چڑھایا، یہاں تک کہ میں آسمان کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچ گیا، اس دروازے کو ’’بابُ الحَفَظَۃ‘‘  کہا جاتا ہے، اس دروازے پر ایک فرشتہ متعین رہتا ہے، جس کا نام اسماعیل ہے، اس کے ماتحت بارہ ہزار فرشتے ہیں، پھر ہر فرشتہ بارہ ہزار فرشتوں کی قیادت کرتاہے۔‘‘ حضرت ابوسعید الخدریؓ فرماتے ہیں کہ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت بھی تلاوت فرمائی :’’اور آپ کے پروردگار کے لشکروں کو اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔‘‘(المدثر:۳۱) 
بہرحال آپؐ پہلے آسمان تک پہنچے، حضرت جبریلؑ نے دروازہ کھٹکھٹایا، جو فرشتہ اس دروازے پر متعین تھا اس نے پوچھا تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوںنے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، پوچھا: کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، فرشتے نے مرحبا کہا اور دعائے خیر دی اور دروازہ کھول دیا۔
lآسمانِ دنیا کی سیر
اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کی ایک جھلک حافظ ابن اسحاقؓ نے ایک روایت کے حوالے سے کچھ اس طرح دکھلائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب میں آسمانِ دنیا میں داخل ہوا تو مجھ سے فرشتوںنے ملاقات کی اور جو فرشتہ بھی مجھ سے ملا خندہ روئی اور بشاشت کے ساتھ ملا، ہر فرشتے نے خیر کے الفاظ کہے اور میرے حق میں دعائیہ کلمات ادا کئے، البتہ ایک فرشتہ ملا جس نے خیر کے الفاظ بھی کہے اور دعا بھی دی مگر اس کے چہرے پر نہ بشاشت نظر آئی اور نہ وہ مسکراتا ہوا ملا، میں نے جبریلؑ سے کہا کہ یہ فرشتہ کون ہے جو دوسرے فرشتوں کی طرح مجھ سے ہنستا ہوا اور مسکراتا نہیں ملا۔ جبریلؑ نے کہا کہ اگر یہ آج سے پہلے کبھی ہنستا یا آج کے بعد کبھی مسکراتا تو آج بھی اس کے چہرے پر مسکراہٹ ضرور ہوتی، لیکن وہ ہنستا نہیں ہے۔ یہ دوزخ کا نگہبان مالک نامی فرشتہ ہے، میں نے جبریلؑ سے کہا کہ یہ فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس مقام پر فائز ہے جس کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا گیا ہے: ’’وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے وہ امانتدار ہے‘‘(التکویر:۲۱) 
میں نے جبریل سے یہ بھی کہا کہ تم مالک سے کہو کہ وہ مجھے دوزخ دکھلائے۔ جبریلؑ نے جواب دیا کیوں نہیں! پھر مالک سے کہا اے مالک! محمد ؐ کو دوزخ دکھلائو، مالک نے دوزخ کا پردہ ہٹا دیا، اس میں آگ کی لپٹیں اوپر اٹھ رہی تھیں، مجھے ایسا لگا کہ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں وہ سب اس کی نذر ہوجائیگا، میں نے جبریلؑ سے کہا کہ مالک سے کہو وہ دوزخ کو اس کی حالت پر واپس لے آئے، مالک نے ایسا ہی کیا۔
اس روایت کے متعلق ’’سیرت ابن ہشام‘‘ کے حاشیہ نگار نے لکھا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، اس کی سند منقطع ہے، اسراء و معراج کے متعلق صحاحِ ستہ میں جس قدر روایات ہیں ان میں کہیں یہ نہیں ہے کہ دوزخ کے داروغہ مالک سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات پہلے آسمان پر ہوئی بلکہ صحیحین کی روایت کے مطابق آسمانِ اوّل پر آپ کی ملاقات حضرت آدم ؑسے ہوئی۔ مسلم شریف کی کتاب الایمان میں جو روایت حضرت ابوہریرہؓ سے منقول ہے اس میں سرکار دو عالمؐ سے یہ الفاظ روایت کئے گئے ہیں: فحانت الصلوۃ فأمَّمْتُھُمْ، فلَمّا فرغت من الصلاۃ، قال قائل: یا محمد ھٰذا مالک صاحب النار، فسلّم علیہ فالتفت الیہ فبدأنی بالسلام۔ (صحیح مسلم۱؍۱۵۶، ۱۵۷، رقم الحدیث:۲۷۸) ’’اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا، میں نے ان کو (انبیاء کرام اور ملائکہ کو) نماز پڑھائی، جب میں نماز سے فارغ ہوا تو کسی کہنے والے نے کہا: یامحمدؐ! یہ دوزخ کے نگراں مالک ہیں، ان کو سلام کر لیجئے، میں ان کی طرف متوجہ ہوا، انہوںنے مجھ سے پہلے ہی مجھے سلام کرلیا۔‘‘
اب پھر ہم حضرت ابوسعید الخدریؓ کی روایت کی طرف واپس چلتے ہیں، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب میں آسمانِ دنیا میں داخل ہوا تو میں نے وہاں ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا، ان کے سامنے بنی نوع انسان کی روحیں پیش کی جارہی تھیں، جب ان کے سامنے کسی نیک اور سعادت مند روح کو پیش کیا جاتا تو وہ خوشی کااظہار کرتے ہوئے فرماتے کہ یہ پاکیزہ روح ہے جو پاکیزہ بدن سے نکلی ہے، جب وہ کسی برے انسان کی روح کو دیکھتے تو  اُف کہہ کر اپنی تکلیف کا اظہار کرتے، ان کے چہرے پر تکدر کے آثار نظر آتے اور یہ فرماتے کہ یہ خبیث روح ہے، خبیث بدن سے نکل کر آئی ہے۔ میں نے جبریل امین سے دریافت کیا کہ یہ بزرگ کون ہیں؟انہوں نے جواب دیاکہ یہ ہمارے باپ حضرت آدم علیہ السلام ہیں، ان کے سامنے ان کی اولاد و احفاد کی روحیں لائی جاتی ہیں، جب وہ کسی نیک انسان کی روح سے ملاقات کرتے ہیں تو ان کو خوشی ہوتی ہے اور جب کسی برے آدمی کی روح کو دیکھتے ہیں تو انہیں تکلیف ہوتی ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت آدم ؑ کو سلام کیا، حضرت آدم ؑ نے سلام کا جواب دیا، مرحبا کہا اور آپؐ کیلئے دعائِ خیر فرمائی۔  صحیحین کی روایات میں یہ مضمون بھی ہے کہ اس وقت آپؐ نے یہ دیکھا کہ کچھ صورتیں حضرت آدم ؑ کے بائیں طرف ہیں اور کچھ دائیں جانب ہیں، بائیں جانب والی صورتوں کو دیکھ کر انہیں رونا آتا ہے اور دائیں جانب والی صورتیں دیکھ کر انہیں خوشی ہوتی ہے، حضرت جبریل ؑ نے بتلایا کہ بائیں جانب ان کی وہ ذریت ہے جن کے نامہ ٔ اعمال گناہوں سے سیاہ ہیں، یہ اصحابِ شمال اور اہل نار ہیں، ان کو دیکھ کر حضرت آدم ؑ روتے ہیں اور دائیں طرف ان کی نیک اولاد ہے، یہ اصحابِ علیین اور اہل جنت ہیں، ان کو دیکھ کر آپ خوش ہوتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK