Inquilab Logo

بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے

Updated: August 07, 2020, 9:16 AM IST | Mudassir Ahmed Qasmi

زندگی میں اطمینان اور سکون کی تلاش سب کو ہوتی ہے لیکن اس کی تلاش میں وہی شخص کامیاب ہوتا ہے جو مشکل حالات اورسخت آزمائش میں بھی مثبت رویہ اپناتا ہے اور پیش آمدہ حالات ہی میں امید کی کرن دیکھ لیتا ہے

Muslim - Pic : INN
مسلم خاتون ۔ تصویر : آئی این این

زندگی میں اطمینان اور سکون کی تلاش سب کو ہوتی ہے لیکن اس کی تلاش میں وہی شخص کامیاب ہوتا ہے جو مشکل حالات اورسخت آزمائش میں بھی مثبت رویہ اپناتا ہے اور پیش آمدہ حالات ہی میں امید کی کرن دیکھ لیتا ہے۔ اسلامی تاریخ ایسے اشخاص سے بھری ہے جو مشکل حالات میں اعتماد، اطمینان، پاکیزگی اور مثبت طرز عمل کی روشن مثال تھے۔ حضرت بلالؓ، حضرت حسینؓ، حضرت خدیجہؓ اور حضرت فاطمہؓ طویل فہرست میں سے چند وہ نام ہیں جنہوں نے صبر آزما دور کا اس قدر الو العزمی سے سامنا کیا کہ آنے والے تمام وقتوں کو انہوں نے اپنے مثبت اور مثالی کردار سے نہ صرف منور کیا بلکہ حق کی راہ پر چلنے والے تمام افراد کے لئے رہنمائی کے اصول بھی طے کر دیئے۔ ان عالی مرتبت شخصیات کی زندگیوں سے ہمیں مشکل حالات میں حق پر قائم رہنے، پُر اعتماد، پُر سکون اور مطمئن رہنے کا عظیم پیغام ملا۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ زندگی کی گاڑی ہمیشہ یکساں نہیں چلتی؛ اچھے وقت کے ساتھ بُرا  وقت بھی آتا ہے  اور اکثر اچھے لوگوں کو بھی مشکل وقت کا سامنا ہوتا ہے۔ اِن سب کے درمیان ہمارے لئے جو مثبت بات ہے وہ ہے اچھی حالت کی طرف واپس جانے کی ہماری فطری صلاحیت۔ بس شرط یہ ہے کہ ہم ہمت نہ ہاریں، تاریکی میں روشنی کی کرن تلاش کرتے رہیں، حا لات سے سبق سیکھیں اور آگے بڑھنے کی کوشش جاری رکھیں۔ اگر ہم پُر عزم ہیں اور ہمارا اعتماد متزلزل نہیں ہے تو قرآن حالات کے سازگار ہونے کی ہمیں بشارت دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’یقیناً ہر تنگی (پریشانی) کے بعد آسانی ہے۔‘‘ (الم نشرح: ۵)
 بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر یقیناً مسلمانان ہند کے لئے ایک کربناک لمحہ ہے لیکن یہ وہ وقت ہے جب ہمیں اپنے آپ پر قابو رکھتے ہوئے، اچھی حالت کی طرف جانے کی اپنی فطری صلاحیتوں کو بیدار کرکے بہتر مستقبل کی منصوبہ سازی کرنی چاہئے تاکہ پریشانی کے بعد آسانی کا فارمولہ ہمارے مستقبل کی بنیاد اور ضمانت بن جائے۔
عملی زندگی میں ہمیشہ چیزیں اس طرح واقع نہیں ہوتیں جیسا ہم چاہتے ہیں؛ کبھی ہمارے منصوبے ناکام ہوجاتے ہیں تو کبھی ہماری توقعات پر پانی پھر جاتا ہے۔ حالیہ کورونا کی مدت ہی اس کی بہترین مثال ہے؛ اِس مدت کے لئے ہم میں سے بہت سوں نے کچھ نہ کچھ منصوبہ  بنایا تھا؛ لیکن  ان منصوبوں کا کیا بنا؟ اِس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ اس طرح کے حالات میں ہمیں ذہنی الجھن کا شکار ہونے کے بجائے مندرجہ ذیل آیت پر غور کرنا چاہئے: ’’…اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘ (سورہ انفال: ۳۰) زندگی میں مقاصد، منازل طے کرنا اور بلند خواب دیکھنا یقیناً اہم ہے لیکن اِس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ اِن تمام چیزوں کے حصول کیلئے اللہ کی ذات پر مکمل یقین نہایت ضروری ہے۔ اس یقین میں یہ احساس بھی شامل ہو کہ یقیناً اللہ نے ہمارے لئے بہتر انتظام کررکھا ہے۔ اِس سوچ کے ساتھ مخالف حالات بھی ہمارے راستے ہموار کر دینگے ، ان شا ء اللہ۔ 
ہم اپنی زندگی کو کبھی کبھار اپنی سوچ اور طرز عمل سے بھی مشکل بنا لیتے ہیں؛ مثال کے طور پر کوئی شخص ہمارے ساتھ زیادتی یا ظلم کرتا ہے اور ہم اُس کو معاف بھی کر دیتے ہیں لیکن اُس کی زیادتی کو ہمیشہ کیلئے سینے سے چپکائے رہتے ہیں اور  اُس کو یاد کر کر کے کُڑھتے رہتے ہیں جس سے لازمی طور پر ہماری زندگی کے سکون پر فرق پڑتا ہے؛ جبکہ اس طرح کے حالات میں سکون کا واحد نسخہ معاف کرنا اور بھول جانا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں نبی اکرم ﷺ کا اسوہ یاد کرنا چاہئے کہ آپ نے اپنے بد ترین دشمنوں کو فتح مکہ کے موقع سے نہ صرف معاف کیا بلکہ اُن کی زیادتی کو بُھلاکر اُنہیں امان اور پناہ بھی دی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُن کی اکثریت دامنِ رسول ﷺ وابستہ ہوگئی۔
موجودہ حالات میںکچھ برادرانِ وطن کی طرف سے زیادتی کے  باوجود اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ لوگ ہم سے مانوس ہوں اور ہمارے اخلاق کے گرویدہ ہوں تو ہمیں بھی اخلاقِ نبوی کا مظہر بننا ہوگا، ان شاء اللہ، اِس سنت کو زندہ کرنے پر آنے والا وقت ہمارا ہوگا۔ 
بسا اوقات ہماری زندگی اس وجہ سے بھی مشکل ہوجاتی ہے کہ ہم اپنے حوالے سے دوسروں کے تبصروں، تجزیوں اور تنقیدوں کو اپنے حواس پر حاوی کر لیتے ہیں ۔ اس کی ایک مثال عورتوں کا حجاب ہے۔ حجاب مسلمان عورتوں کی شناخت ہے اس پر دوسروں کی تنقیدوں سے آزردہ خاطر ہوئے بغیر ہمیں فخر کرنا چاہئے۔ اسی طرح زندگی کے مختلف مراحل میں جو کام بھی ہم سوچ سمجھ کر اسلامی دائرہ میں رہ کر کرتے ہیں اُس پر دوسروں کے بے جا تبصروں سے بلا وجہ ہمیں پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ یاد رکھئے! محض دوسروں کے بُرا کہنے سے آپ بُرے نہیں ہوتے؛ یہ تو محض اُن کی سوچ ہے، اس لئے ہمیں محض اپنی نیت پر توجہ دینی چاہئے اور اپنے اعمال کو درست رکھنا چاہئے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: ’’اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔‘‘(مسلم)
اپنی مشکل زندگی کو آسان بنانے کا ایک اہم نسخہ جذبۂ شکر گزاری ہے۔اارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اگر تم شکر گزاری کروگے تو اور زیادہ (نعمت) دوں گا اور اگر نا شکری کروگے تو میرا عذاب بھی سخت ہے۔‘‘  (سورہ ابراہیم: ۷) اللہ کا  شکر گزار ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیں ہر اُس شخص، جماعت یا اداروں کا شکر گزار ہونا چاہئے، جنہوں نے ہمارے لئے کچھ کیا یا ہمیں دیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ حقیقتاً اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔
 خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ نکات محض مثال کے طور پر پیش کئے گئے ہیں؛ ویسے اسلام آیا ہی ہے انسانی زندگی کو آسان بنانے کے لئے؛ اس لئے ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہماری مکمل زندگی اسلام کا آئینہ بن جائے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK