Inquilab Logo

صرف بن بیاہی مائیں گنہگار ہیں یا دوسرے بھی؟

Updated: January 07, 2022, 9:02 AM IST | Shamim Tariq | Mumbai

ء۲۰۱۵ اور ۲۰۲۰ء کے درمیان ملک بھر میں نوزائیدہ کو مار ڈالنے یا مرنے کیلئے چھوڑ دینے کے جو واقعات ہوئے ہیں ان میں ۱۸ء۳؍ فیصد (۱۱۸۴) صرف مہاراشٹر میں ہوئے۔

Between 2015 and 2016, to kill or leave a newborn in the country
ء۲۰۱۵ اور ۲۰۲۰ء کے درمیان ملک بھر میں نوزائیدہ کو مار ڈالنے یا مرنے کیلئے چھوڑ دینے

سقاطِ حمل کی مختلف صورتوں پر بحث ہوتی رہی ہے اور ان کو تو چھوڑیئے جو اسقاطِ حمل کو گناہ سمجھتے ہیں، جو لوگ اسقاطِ حمل کے حق میں ہیں وہ بھی اس کی بعض صورتوں پر کانپ جاتے ہیں۔ عدالتوں نے بھی اس سلسلے میں بہت اہم فیصلے صادر کئے ہیں۔ اب تو رحم مادر میں ہی بچے کو مار ڈالنے، پیدا ہوتے ہی بچے کو قتل کردینے یا مرنے کے بعد کسی نالے، ویران جگہ یا کوڑا کرکٹ پھینکے جانے کی جگہوں پر چھوڑ دیئے جانے کے معاملات بڑھتے جارہے ہیں۔ ایسے معاملات شہروں میں بھی رونما ہو رہے ہیں اور دیہی علاقوں میں بھی۔ نوزائیدہ کو مار ڈالنے یا پھینک دینے کے واقعات شہر میں اس لئے ہوتے ہیں کہ بچے کو کھلانا مشکل بھی ہوتا ہے اور سماج کو منہ دکھانا بھی۔ دیہی علاقوں میں بیشتر بن بیاہی مائیں ایسا کرتی ہیں تاکہ ان کے گناہوں پر پردہ پڑا رہے۔ کبھی کبھی وہ نوزائیدہ کو اس لئے بھی تنہا چھوڑ دیتی یا مار ڈالتی ہیں کہ وہ لڑکی ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس قسم کے گناہ یا جرائم کو روکنے کیلئے ہمارے ملک میں قانون نہیں ہیں۔ قانون تو ہیں۔ کسی بچے کو زندہ پیدا ہونے سے روکنے یا نوزائیدہ کو مرنے پر مجبور Infanticide کرنے والے کو تعزیرات ہند کی دفعہ ۳۱۵؍ کے تحت ۱۰؍ سال قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ جو بچہ ابھی رحم مادر میں ہے یعنی پیدا نہیں ہوا ہے اس کو مارنے یا اس کی موت Foeticide کا سبب بننے والے کو بھی دفعہ ۳۱۵؍ اور ۳۱۶؍ کے تحت دس سال کی قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ ماں باپ یا نگہداشت کرنے والا اگر ۱۲؍ برس سے کم عمر کے بچے کو تنہا چھوڑ دیتا ہے تو اس کو دفعہ ۳۱۷؍ کے تحت ۷؍ سال کی سزا دی جاسکتی ہے۔
 ظاہر ہے کافی معاملات میں قانون کی ان دفعات کا اطلاق ہوتا بھی رہا ہے یعنی بچوں کو پیدا ہوتے ہی یا رحم مادر میں ہی مار ڈالنے والوں کو یا ۱۲؍ سال سے کم عمر کے بچوں کو تنہا چھوڑ دینے والوں کو سزائیں ہوتی رہی ہیں اس کے باوجود شیطنت ہے کہ بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ۲۷؍ دسمبر ۲۰۲۱ء کو ٹائمز آف انڈیا (ممبئی) میں شائع ہونے والے ایک تجزیاتی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ:
٭ ۲۰۱۵ء اور ۲۰۲۰ء کے درمیان ملک بھر میں نوزائیدہ کو مار ڈالنے یا مرنے کیلئے چھوڑ دینے کے جو واقعات ہوئے ہیں ان میں  ۱۸ء۳؍ فیصد (۱۱۸۴) صرف مہاراشٹر میں ہوئے۔
٭ اس قسم کے واقعات کے رونما ہونے کی وجوہ جاننے کی کوشش کی گئی تو نتیجہ یہ سامنے آیا کہ غربت، جہیز، بن بیاہی ماں کو بچہ ہونے یا لڑکا چاہنے والی ماں کو لڑکی پیدا ہونے کے سبب اس کو پیدا ہوتے ہی مار دیا گیا، کہیں چھوڑ دیا گیا یا پیدا ہونے ہی نہیں دیا گیا۔
٭ ایک وجہ یہ بھی بتائی یا سمجھی جارہی ہے کہ نوزائیدہ اچھی شکل و صورت کا نہیںتھا اس لئے اس کو مار دیا گیا یا مرنے کیلئے کہیں چھوڑ دیا گیا۔
٭ ایسے واقعات دہلی، بنگلور، ممبئی، احمد آباد اور اندور جیسے بڑے شہروں میں زیادہ ہورہے ہیں یعنی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ حرکتیں وہ لوگ کررہے ہیں جو تعلیم اور تہذیب کی روشنی سے محروم ہیں۔ ایسا کرنے والوں میں غریبوں کے ساتھ متمول لوگ بھی ہیں اور شہر کے تعلیم یافتہ اور روشن خیال لوگ بھی۔
 روشن خیالی کا الگ الگ مفہوم ہوسکتا ہے لیکن کیا ایسے لوگوں کو روشن خیال کہا جاسکتا ہے جو اپنے بچوں کو پیدا ہوتے ہی اس لئے مار دیتے ہیں کہ اس کی صنف وہ نہیں تھی جو ان کو مطلوب تھی یا وہ نوزائیدہ اتنا خوبصورت نہیں تھا جیسا وہ چاہتے تھے؟
 سماج کے کسی حصے کو پسماندہ اور کسی حصے کو ترقی یافتہ قرار دینے کے معیار بتانے میں تو لوگ بہت ماہر ہیں لیکن نوزائیدہ کو مار ڈالنے یا بچوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی یعنی رحم مادر میں ہی مار ڈالنے کے واقعات ان کو شرمسار نہیں کرتے۔ کہا جاسکتا ہے کہ سوا سو کروڑ سے زیادہ کی آبادی والے ملک میں ایسے واقعات کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہیں ہے مگر اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایسے واقعات پولیس ریکارڈ میں بڑی مشکل سے آتے ہیں اور پھر یہ سوال بھی ہے کہ اگر ایسے واقعات بہت کم بھی ہیں تو کیا ان کے سنگین نوعیت کا جرم ہونے اور اس رجحان کے مسلسل بڑھنے سے انکار کیا جاسکتا ہے؟
 اس رجحان کے سنگین ہونے کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ ایک سابق ڈی جی پی نے سب کے آدھار کارڈ پر اس کا ڈی این اے درج کئے جانے پر اصرار کیا ہے تاکہ یہ معلوم کرنے میں آسانی ہو کہ کس نے نوزائیدہ کو مارا یا مرنے کیلئے چھوڑ دیا ہے۔ بچوں پر مظالم کی کچھ دوسری شکلیں بھی ہیں مثلاً بڑی بوڑھیوں سے سننے میں آیا ہے کہ فلاں اپنے بچوں کو اس لئے افیم استعمال کرواتی تھی کہ وہ سوتے رہیں اور شرارت نہ کریں۔ ایک دن افیم کی مقدار زیادہ ہوگئی اور بچہ مرگیا۔ ۲۷؍ دسمبر کے ہی ٹائمز آف انڈیا میں ایک یہ خبر بھی شائع ہوئی ہے کہ ممبئی سے قریب تھانے ضلع کے کلوا سے ۲۹؍ سال کی ایک خاتون کو اس لئے گرفتار کیا گیا ہے کہ اس نے اپنے بیمار بچے کو پہلے تو زیادہ مقدار میں کھانسی کا سیرپ پلا کر مار ڈالا اور پھر اس کی لاش کو پانی سے بھرے ایک ڈرم میں چھپا دیا۔ ایسے بھی کئی واقعات اخبارات میں شائع ہوچکے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شادی شدہ عورتیں اپنی بچی یا بچے کو ساتھ لے کر گئیں، ان کو کہیں ٹھہر کر انتظار کرنے کو کہا اور پھر اپنے آشنا کے ساتھ ہمیشہ کیلئے فرار ہوگئیں۔
 یہ تمام واقعات جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ بن بیاہی مائوں کے حرام نطفے ہی نہیں غیر ذمہ دار مائوں کے بچے بھی موت کا شکار ہوتے ہیں یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ مہذب سماج میں قانون کا بنایا جانا ضروری ہے مگر یہ سوچنا کہ تنہا قانون بنائے اور نافذ کئے جانے سے برائیاں ختم ہوجائیں گی صحیح نہیں ہے۔ جن گناہوں بلکہ جرائم کی طرف اس مضمون میں اشارہ کیا گیا ہے وہ ایامِ جاہلیت کی واپسی یا کم از کم ایامِ جاہلیت کی بو باس آج بھی باقی رہنے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ یہ جرائم تبھی ختم ہوسکتے ہیں جب ذہن و ضمیر میں بڑھتے اندھیروں کو دور کرنے اور نفس کی شرارتوں پر قابو پانے کی کوششیں کی جائیں۔ یہ کوششیں ہم آپ نہیں تو کون کرے گا؟ ناجائز نطفے پرورش پاکر بڑے ہونے کے بعد تو جو کرتے ہیں سو کرتے ہی ہیں، پیدا ہوتے ہی یا پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دیئے جانے کی صورت میں بھی انسانیت اور انسان کو شرمسار کرتے ہیں۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK