Inquilab Logo

آنے والی قربانی کے لئے ہمارا لائحہ عمل

Updated: July 10, 2020, 11:13 AM IST | Mudassir Ahmed Qasmi

امتحان کوئی بھی ہو، اس میں کامیابی کی شرطِ اولیں محنت، جد و جہد اور لگن ہے اور اِن سب کی بنیاد قربانی پرہے۔شریعتِ اسلامیہ میں عید الاضحی کے موقع سے جو قربانی مطلوب ہے دراصل وہ بھی ایک امتحان کا استعارہ ہے۔

Mosque - Pic : INN
مسجد ۔ تصویر : آئی این این

 اِس امتحان کے پہلے طالب علم سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے، جنہوں نے امتحان کی ایسی تیاری کی تھی کہ امتحان گاہ میں صد فیصد کار کردگی پیش کرکے، کامیابی کا  لازوال تمغہ اپنے سر پر سجا لیا۔اِس امتحان کے دوسرے طالب علم سیدنا اسماعیل علیہ السلام نے بھی امتحان میں جاں نثاری کا وہ نمونہ پیش کیا کہ کارگہہ حیات میں اُن کی کامیابی بنی نوعِ انسان کے لئے معیار و معراج قرار پائی۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ رَضی اللہ عنہم نے دریافت کیا کہ ’’یا رسولؐ اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ فرمایا: تمہارے باپ اِبراہیم علیہ السلام کا طریقہ (یعنی اُن کی سنت) ہے، صحابہ نے عرض کیا کہ پھر اس میں ہمارے لئے کیا (اجر وثواب) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا: (جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی۔ اُنہوں نے عرض کیا کہ (دُنبہ وَغیرہ اگر ذبح کریں تو اُن کی) اُون (میں کیا ثواب ہے؟) فرمایا: کہ اُون کے ہربال کے بدلے ایک نیکی۔‘‘(مشکوٰۃ)
امتحان میں جاں نثار باپ اور بیٹے کی  بڑی کامیابی کے صدقے میں پرچہ ٔسوال قیامت تک آنے والے تمام انسانوں پر ظاہر کر دیا گیا ہے۔  اب تمام لوگوں کی ذمہ داری  ہے کہ اُن سوالات کی روشنی میں اپنی زندگی کو جواب بنا کر پیش کریں تاکہ اُنہیں بھی کامیابی کا پروانہ مل جائے۔ علمائے شریعت کے مطابق اِ س پرچۂ سوال میں بنیادی طور پر عید الاضحی کے موقع پر اور اسی طریقے پر زندگی کے دیگر مرحل میں تمام انسانوں سے دو طرح کی قربانیوں کا سوال کیا گیا ہے: (۱) صورتاً قربانی(۲) روحانی قربانی۔
اول الذکر قربانی یہ ہے کہ ہر مکلف انسان عید الاضحی کے موقع پر مطلوبہ جانوروں کی قربانی کا نذرانہ پیش کرے۔ اسی حوالے سے نبی اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:’’ جو شخص استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔‘‘(ابن ماجہ) 
از روئے شریعت یہ قربانی ہر صاحبِ نصاب پر واجب ہے،یعنی جس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو،  یا تجارت کا سامان، یا ضرورت سے زائد اتنا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہوتو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔ یاد رہے کہ قربانی واجب ہونے کے لئے نصاب کے مال، رقم یا ضرورت سے زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے۔
عید الاضحی کے موقع پرکسی انسان کے صورتاً قربانی کی قبولیت کی علامت یہ ہے کہ زندگی کے دیگر مواقع پر جب جب بھی مال کی شکل میں کو ئی قربانی مطلوب ہو تو وہ وہ بِلا پس و پیش صورتاً قربانی پیش کردے۔اسی نکتے سے ہمیں کسی قسم کے تقاضے پر مالی قربانی پیش کرنے کا واضح تصور ملتا ہے۔موجودہ وقت میں جب کہ پوری دنیا کورونا وائرس کے نتیجے میں مالی مشکلات سے دوچار ہے تو آنے والی عید الاضحی میں صورتاً قربانی کی مختلف شکلوں کو ہمیں اپنانا ہوگا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جن پر قربانی واجب ہے، وہ اولاً اپنی جانب سے مفوضہ جانوروں میں سے کسی ایک جانور کی قربانی پیش کردیں؛کیونکہ کوئی اور صدقہ واجب قربانی کا متبادل نہیں ہے؛ دوسرے یہ کہ جانور کی قربانی سے جاں نثاری کا جو جذبہ پیدا ہوتا ہے وہ کسی اور صدقے سے پیدا نہیں ہوتا۔
قربانی کے بعد تین حصوں میں سے غریبوں اور احباب و رشتہ داروں کا جو حصہ ہے، اسے پورے طور پر اُن لوگوں تک پہنچا دیا جائے۔ لاک ڈائون کے عرصے میں کتنے ہی کنبے ایسے ہیں جنہوں نے گوشت کی شکل تک نہیں دیکھی ہوگی، لہٰذا ہم اُن تک گوشت پہنچا کر دُہرے اجر کا مستحق بنیں؛ ایک قربانی کا گوشت تقسیم کرکے اور دوسرا ایک ضرورت مند کے چہرے پر مُسکراہٹ لا کر۔ اسی طرح ہمیں معلوم ہے کہ صاحبِ ثروت فیملی ایک سے زائد قربانی پیش کرتی ہے اور پھر گوشت کو ریفریجریٹر میں رکھ کر بعد میں مہینوں تک استعمال کرتی ہے؛ اگرچہ از روئے شریعت یہ ممنوع نہیں ہے لیکن ہمیں خود اپنے آپ سے سوال کرنا ہے کہ کیا موجودہ حالات میں جب لوگ دانے دانے کو ترس رہے ہیںہمارا یہ عمل مناسب ہوگا؟
مضمون کے شروع میں جس روحانی قربانی کا تذکرہ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ عید الاضحی کے موقع پر جو قربانی ہم پیش کرتے ہیں، وہ ہم اخلاصِ نیت سے اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے پیش کریں اور  زندگی کے تمام مراحل میں کسی بھی عمل کو انجام دیتے وقت ہماری یہی نیت ہو۔ اسی کے تعلق سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’اللہ تعالیٰ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا؛ بلکہ اس کے پاس تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے۔‘‘(سورہ حج : ۳۷)
 چونکہ سالِ رواں ہم وبائی مرض کورونا وائرس کے قہر کے درمیان بقرعید منانے جارہے ہیں؛ اس لئے، یہ ضروری ہے کہ ہم حالات کے اعتبار سے قربانی کے لئے قبل از وقت منصوبہ بندی کریں تاکہ اس کا نفع عام ہو۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں اِس درمیان برادرانِ وطن کے جذبات اور حکومت کے احکامات کا بھی خیال رکھنا ہے۔ بلا شبہ صورت اور روح دونوں اعتبار سے قربانی پیش کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK