Inquilab Logo

چینی بیٹیوں کا درد زِن رن اور اُن کی کتاب کے حوالے سے

Updated: February 26, 2020, 3:48 PM IST | Shahid Nadeem

اس کتاب کا نام ’ گڈوومن آ ف چائنا ‘ ہے جو ان گمنام عورتوں کو ان کی آواز ہے جنہیں چینی معاشرے میں ظلم و زیادتی اوراستحصال کا نشانہ بنایا گیا، ۲۷؍ زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے

عالمی شہرت یافتہ ادیبہ زِن رن ۔ تصویر : ویکپیڈیا
عالمی شہرت یافتہ ادیبہ زِن رن ۔ تصویر : ویکپیڈیا

 سال  ۱۹۸۹ء  میں زِن رن رات کو ریاستی ریڈیو ’ نن جنگ‘ پر پروگرام پیش کررہی تھیں، جو سات برس تک چلا، ملک میں یہ پہلا شوتھا جو چینی عورتوں کے ذاتی مسائل پر آواز اٹھاتا تھا۔ یہ پروگرام بہت مقبول تھا۔زِن رن کو ہر روز ہزاروں فون اور خطوط موصول ہوتے ، جو زندگی کے ہر پہلو سے وابستہ عورتوں کے مسائل کے بارے میں ہوتے، عصمت دری ، ظلم  و زیادتی اور انہیں نظرانداز کرنے کے بارے میں۔ انہیں پڑھ اور سن کر زِن رن کی آنکھیں نم ہوجاتیں۔
 آٹھ برس بعد انہوںنے ریڈیو کے ذمہ داروں کو کسی طرح آمادہ کرلیا کہ وہ لندن میں چینی زبان کی تعلیم دینا چاہتی ہیں  اور ۱۹۹۷ء میں وہ اوراپنے ساتھ یہ کہانیاں بھی لے آئیں۔ وہ رن کی زندگی کو بہتر بنانا چاہتی تھیں۔ یہاں تک کہ اس کے لئے انہوںنے اپنی جان کا خطرہ مول لے لیا۔ لندن یونیورسٹی سے تدریسی ملازمت سے گھر لوٹتے وقت چنداُچکوں نے ان کا  بیگ چھیننے کی کوشش کی مگر ناکام رہے ۔ بیگ میں ان کی پہلی کتاب ’ گڈوومن آ ف چائنا ‘ ہیڈن وائس کا اکلوتا مسودہ تھا۔ و ہ ان گم نام عورتوں کو ان کی آواز کو یوں ہی کھونا نہیں چاہتی تھیں۔ ۲۰۰۲ء  میں جب وہ امریکہ گئیں تو ان کی یہ کتاب عالمی سطح پر مقبول ہوچکی تھی۔ ۲۰؍ ممالک کی ۲۷؍ زبانوں میں اس کا  ترجمہ ہوچکا تھا۔ ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ ان دنوں چین میں اگر میں یہ کتاب لکھتی تو یقیناًجیل بھیج دی جاتی۔‘‘
 ایک عرصہ ہوا، چین میں اکلوتے بچے کی پالیسی رائج تھی، دوسری اور تیسری اولاد کو ملک کے قانون کے مطابق غیر قانونی تسلیم کیاجاتا تھا۔ چینی معاشرے میں لڑکوں کی اہمیت زیادہ تھی، اس لئے بڑی تعداد میں لڑکیوں کو قانونی یا غیر قانونی طریقہ  سے گودلینے کے لئے دیگر  ممالک روانہ کردیاجاتا تھا۔ ۲۰۰۶ء کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ستائیس ممالک میں ایک لاکھ ۲۰؍ ہزار بچے گود لینے والے خاندانوں کے ساتھ پل رہے ہیں ۔ وہاں کے ادب میں بھی اس علاحدگی کا کرب جھیلنے والی ماؤں کا درد جھلکتا ہے۔ اس دور میں چین کی کئی ماؤں نے اپنے بچوں کو ظلم وزیادتی سے بچانے کے لئے ملک سے باہر روانہ کردیا تھا، زن رن نے بھی اپنی بیٹی کو بیرون ملک بھیج دیا تھا۔ اپنے والدین سے دور پلنے بڑھنے والی ایسی ہی ایک چینی لڑکی نے اپنی اصل ماں کے نام خط میں لکھا تھا۔
 ’’ہیلو! میرا نام چارلوٹ ہے ۔ مگر جب میں چین میں تھی تو میرا نام شاشاتھا، امید ہے کہ آپ اچھی ہوں گی ۔ معاف کیجئے، مجھے آپ کو ماں کہنا مشکل ہے۔   میں جانتی ہوں کہ آپ ہی ہیں جنہوںنے مجھے جنم دیا لیکن آپ وہ نہیں ہیں جس نے اب تک میری پرورش کی ،یہ وہ عورت ہے جسے میں ماں کہتی ہوں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں  آپ کو ردکررہی ہوں اورکبھی یاد نہیں کرتی۔ میں آپ کو کبھی بھلا نہیں سکتی۔ میری رگوں میں آپ کا خون دوڑ رہا ہے اور میرے بچوں کی رگوں میں بھی دوڑتا رہے گا۔ میں آپ کا حصہ ہوں، یہ ایسی چیز ہے جسے کبھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔  میں ۱۸؍ برس کی ہوں اور ایسے شہر میں زندگی گزار رہی ہوں جو فرانس  میں پیرس سے قریب ہے،جسے مونٹریل کہتے ہیں۔
 اس خط میں وہ چینی نژاد لڑکی لکھتی ہے ، جیسا کہ میں نے زِن رن  سے بتایا کہ اس کتاب کو آخر تک پڑھنا میرے لئے مشکل تھا۔اکثر میں اس کتاب کو بند کردیتی ، آنکھیں نم ہوجاتیں، سوچتی میں شاید اسے کبھی ختم نہ کرسکوں، بالآخر میں نے اسے آخری صفحہ تک پڑھ ڈالا۔ اور اب زِن رن کا شکریہ کہ مجھے چند سوالوں کے جواب مل گئے، جسے میں بے صبری  سے جاننا چاہتی تھی۔ آپ نے مجھے جلا وطن اس لئے کیا کہ آپ مجھ سے پیار کرتی تھیں۔ آپ جانتی تھیں کہ میری پرورش نہیں کرسکتی تھیں، اور روشن مستقبل نہیں دے سکتی تھیں۔اس لئے آپ نے یہ بڑی قربانی دی۔ یہ جانتے ہوئے کہ کوئی دوسری عورت مجھے یہ پیار دے سکتی ہے مجھے ساری خوشیاں اور روشن مستقبل دے سکتی ہے۔ اپنی ماں کے بغیرآ پ نے مجھے زندہ رہنے کا ایک موقع فراہم کیا، میں وہ نہیں ہوسکتی تھی جو آج میں ہوں، میں یہ تصور بھی نہیں کرسکتی کہ آپ مجھ سے کتنا پیار کرتی تھیں کہ مجھے چھوڑ دیا ۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ آپ کو مجھے چھوڑنے کا کتنا دکھ ہوا ہوگا۔ میں نہیں جانتی کہ آپ آج مڈغاسکر  میں ہیں یا آسمانوں سے پَرے دور جاچکی ہیں۔ مگر مجھے یقین ہے کہ آپ جہاں بھی ہوں، میرے بارے میں ضرور سوچتی ہوں گی اور امید رکھتی ہوں گی میں خیریت سے ہوں، میں اچھی ہوں، حالانکہ روز مرہ کی  زندگی بوجوہ آسان نہیں ، بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر بھی آپ کی شکر گزار ہوں ۔اس قربانی کا شکریہ جو آپ نے میرے لئے دی۔ شکریہ میری بہتر زندگی کے لئے آپ نے جو کچھ کیا، آپ کی محبت کا شکریہ، میں آپ سے کبھی نہیں ملی۔ مگر مجھے اس کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی، میں آپ سے پیارکرتی ہوں۔‘‘ اس کتاب کی تحریک انہیں کیسے ملی، اس کی بھی ایک داستان ہے۔
  ایک دن جب وہ اپنا رات کا پروگرام نشر کرنے ریڈیو اسٹیشن جارہی تھیں تو دیکھا کہ خون میں سَنا ہوا گوشت کا لوتھڑا پیشاب خانے کے باہر سڑک پر پڑا ہے۔ زِن رن نے بچے کو اٹھاکراسپتال پہنچایا ، رات جب وہ اپنا پروگرام پیش کررہی تھیں اور اس واقعہ کو بیان کررہی تھیں تو ایک عورت نے گھبرائی آواز میں فون پر بتایا کہ مجھے مجبوری میں جو کچھ کرنا پڑا اس کے لئے شرمندہ ہوں۔ اورانہیں ایسی ماؤں کے بارے میں لکھنے کاخیال آیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK