Inquilab Logo

جیتیں گے تو یہی

Updated: February 21, 2020, 3:07 PM IST | Editorial

ارض فلسطین پر اسرائیل کے مسلط کئے جانے کی تاریخ ۷۰؍ سال کا طویل سفر طے کرچکی ہے۔ کہتے ہیں وقت ہر زخم کا مرہم ہے مگر یہ زخم ایسا ہے کہ جسے وقت بھی مندمل نہیں کرسکا۔ آج بھی یہ اتنا ہی ہرا ہے جتنا کہ کل تھا۔

فلسطینی ۔ تصویر : آئی این این
فلسطینی ۔ تصویر : آئی این این

 ارض فلسطین پر اسرائیل کے مسلط کئے جانے کی تاریخ ۷۰؍ سال کا طویل سفر طے کرچکی ہے۔ کہتے ہیں وقت ہر زخم کا مرہم ہے مگر یہ زخم ایسا ہے کہ جسے وقت بھی مندمل نہیں کرسکا۔ آج بھی یہ اتنا ہی ہرا ہے جتنا کہ کل تھا۔ زمانے نے اہل فلسطین کو اتنا دُکھ دیا ہے کہ یہ سارے دُکھ زمین پر رکھ دیئے جائیں تو زمین کا سینہ شق ہوجائے۔ یہ تو اہل فلسطین کی شجاعت اور عزیمت ہے کہ اس دکھ کو اپنے سینوں میں لئے ابتلائے زمانہ سے روزانہ لوہا لے رہے ہیں۔ نام نہاد معاہدۂ صدی (ڈیل آف دی سنچری) امن کے نام پر اتنا بڑا دھوکہ ہے کہ پورے عالم اور تاریخ عالم میں کسی قوم کو اُس کے اپنے وطن سے بے دخل کرنے اور اُس کی شناخت ختم کرنے کی اتنی بڑی سازش مشکل ہی سے ملے گی۔ ٹرمپ انتظامیہ اس حقیقت کوبھول رہا ہے کہ غیرت مند قومیں اپنے اجداد کی سر زمین، اپنی تاریخ، معاشرت، احساسات و جذبات اور غیرت و خودداری کا سودا کبھی نہیں کرتیں، کسی قیمت پر نہیں کرتیں، ۵۰؍ ارب ڈالر تو بہت معمولی رقم ہے جو ایک سبز باغ کی طرح اہل فلسطین کو دکھائی جارہی ہے۔ صدی کی ڈیل نہیں، صدی کے اس خوفناک فریب کے خلاف اب تک پوری دُنیا کو اُٹھ کھڑا ہونا چاہئے تھا مگر دُنیا میں رہنے بسنے والے عوام کے دل بھلے ہی تڑپتے ہوں، حکومتوں کو اپنے مفاد کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا یہی وجہ ہے کہ دل تڑپنا تو دور اُن کے سربراہان کے ماتھے پر شکن تک نہیں ہے۔ پوری دُنیا تو جانے دیجئے، فلسطین کے تحفظ کی خاطر عرب اور مسلم ممالک میں بھی وہ فکرمندی اور ہر ممکن سفارتی تدبیر کو بروئے کار لانے کی وہ تڑپ نہیں ہے جو کہ نبیوں اور قبلۂ اول کی اس سرزمین کا حق ہے۔ ہر جانب بے اعتنائی اور بے بسی اس حد تک سرایت کرچکی ہے کہ اقبال کے ان الفاظ کی عملی تفسیر جاگتی آنکھوں سے دیکھی جاسکتی ہے کہ ’’بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے=مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے۔ ‘‘
  فلسطینی اُمور کے عالمی شہرت یافتہ تجزیہ کار رمزی بارود نے راکھ کے اسی ڈھیر میں چند ایک چنگاریوں کے باقی رہ جانے کی اُمید کرتے ہوئے اپنے تازہ مضمون میں لکھا ہے کہ  ’’اگر عرب اور مسلمان، امریکہ اور اسرائیل کی اس سازش کے خلاف سینہ سپر ہونا چاہیں تو اُنہیں اس غیر عملی سیاسی مشق کے محبس سے باہر نکلتے ہوئے اپنے آپ میں اتنا خلوص اور جرأت پیدا کرنی ہوگی کہ واشنگٹن کےبچھائے ہوئے مکروفریب کے جال کو اُٹھا کر پھینک دیں۔ اس کیلئے اُنہیں اپنے سیاسی بیانات کو حقیقی، مشترکہ اور متحدہ اقدام میں ڈھالنا ہوگا۔ اُن کے پاس وہ معاشی وسائل ہیں کہ جن کے بہترین استعمال سے زمین کی کسی بھی طاقت کو جھکایا جاسکتا ہے۔ اتنے وسائل کا کیا فائدہ اگرآپ فلسطین اور اس کے عوام کا مؤثر دفاع نہ کرسکیں؟ ‘‘
 عربوں اور مسلمانوں کی طاقتور مگر شرم و غیرت سے عاری قیادتوں کے مقابلے میں بے بس اور محصور فلسطینیوں کا عزم آج بھی عزیمت کی تاریخ رقم کررہا ہے۔ ۵۰؍ ارب ڈالر کے معاشی پیکج کو جنس حقیر و بے قیمت قرار دے کر مسترد کرنے والے یہ لوگ ٹرمپ انتظامیہ سے صاف اورواضح لفظوں میں کہہ رہے ہیں کہ  ’’جو چیز آپ کی ملکیت نہیں ہے، وہ آپ کسی کو کیسے دے سکتے ہیں! ‘‘ اُنہوں نے یہ بھی کہ دیا ہے کہ اتنےبرسوں کی مسلسل قربانیوں کے بعد ہمیں اپنا ملک اور اس ملک کی آزادی درکار ہے، معاشی امداد نہیں۔ ہم اس پلان کو پیروں تلے روندتے ہوئے اپنی جدوجہد کو جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہیں۔
 اس جرأت سے، آپس ہی میں لڑنے، ایک دوسرے سے ٹکرانےاور ایک دوسرے کو زیر کرنے میں مصروف مسلم ملکوں کا کوئی علاقہ نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس کیلئے اُنہیں دشمن کو گھر بلانے یا اس کے گھر جانے یا خاموشی سے کوئی سمجھوتہ کرلینے میں بھی شرم محسوس نہیں ہوتی۔اس کے باوجود ہمیں اہل فلسطین کی غیرت و شجاعت سے بڑی اُمید ہے، فتح شاید اب بھی دور ہو مگر جیتیں گے تو یہی

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK