Inquilab Logo

جسمانی فاصلے، ذہنی فاصلوں میں تبدیل نہ ہوں

Updated: November 29, 2020, 9:25 AM IST | Mubarak Kapdi

کورونا وائرس کی ابتلا کے دوران پہلی مرتبہ جسمانی فاصلے کی اصلاح وجود میں آئی البتہ زندگی آپسی میل جول اور اجتماعی سوجھ بوجھ کا نام ہے۔ آج وبا اور لاک ڈائون سے تعلیمی و معاشی نظام تہہ و بالا ہوچکا ہے اسلئے نئی نسل کی ذہنی کیفیت، جذبات و احساسات کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ جنریشن گیپ نہ پیدا ہو

Mental Health - Pic : INN
ذہنی صحت ۔ تصویر : آئی این این

دو نسلوں کے درمیان کے ذہنی فاصلے کو جنریشن گیپ کہتے ہیں۔ یہ وہ ذہنی فاصلہ ہے جو اکثر ناقابلِ قبول حد تک محسوس ہونے والی تبدیلیوں کی بنیاد پر پیدا ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا جملے میں سب سے کلیدی الفاظ ہیں ’ناقابلِ قبول حد‘ کہ آخر ذہنی فکر کے یہ اختلافات اس حد تک کیوں پہنچ جاتے ہیں؟ ہوتا صرف یہ ہے کہ جب دو مختلف انسان مختلف زمانوں، علاحدہ حالات اور جداگانہ ماحول  میں آنکھیں کھولتے ہیں تو ان کے معیار و مزاج اور سوچ و فکر وغیرہ میں مماثلت کیسے ہوسکتی ہے؟ البتہ وہ دونوں مختلف انسان بضد رہتے ہیںکہ ان کے ہر فعل، عمل و سوچ میں یکسانیت ہی ہو جس کا امکان نہیں ہوتا، اسلئے ایک دراڑ پیدا ہوتی ہے جسے جنریشن گیپ کہتے ہیں۔ 
 جنریشن گیپ ہی کی بنا پر دو نسلوں کے محاذ پر ہمیشہ فوجیں تنی کھڑی رہتی ہیں۔ دو ملکوں کی سرحد پر جو تنائو رہتا ہے اتنا ہی دو نسلوں کی سرحدوں پر بنا رہتا ہے اور یہاں’ سیز فائر‘ کہنے کیلئے بھی کوئی نہیںرہتا بلکہ ان جنگوں سے کئی لوگ لطف اُٹھاتے ہیں اورا س میں گھر،خاندان، محلے، تعلیمی و سماجی ادارے حتّیٰ کہ قومیں بکھر جاتی ہیں۔
 اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جنریشن گیپ کیوں اور کیسے پیدا ہوتا ہے؟ ہوتا یہ ہے کہ ایک ہی چیز کو دو نسلیں الگ الگ نظر اور نظریے سے دیکھتی، پرکھتی اور تولتی ہیں۔ دونوں مصر بھی رہتی ہیں کہ وہی درست ہیں۔ان دو نسلوں میں کبھی کبھی ہم خیالی آتی بھی  ہے مگر محض انا اور ہٹ دھرمی کی بنا پر وہ متفق ہوتے ہوئے بھی ’مختلف‘ بن جاتے ہیں۔ اتفاق ہوتے ہوئے بھی اختلاف کے پہلو ہی ڈھونڈتے رہنا شرپیدا کرتا ہے، اسی بنا پر جنریشن گیپ کو ختم یا کم کرنا بے حد ضروری ہے۔ 
 ہمارے موجودہ معاشرے ہیں جنریشن گیپ کی وجہ سے والدین اور اولاد کے درمیان دراڑ  بڑھتیجارہی ہے۔ہوتا یہ ہے کہ والدین اور اولاد کے درمیان فکر کی اُڑان، ترجیحات، نظریات، رویّے، برتائو، تنظیم الاوقات اور ویژن وغیرہ کے ضمن میں چند وقتی اور معمولی اختلافات بھی آگے چل کر ایک بڑی خلیج پیدا کردیتے ہیں۔ دو نسلوں میں سوچ، فکر اور عمل میںانحراف بمشکل ۲۰۔۲۵؍درجہ سے شروع ہوتا ہے، البتہ وہ پھر اپنی انتہا یعنی ۱۸۰؍درجہ تک پہنچ جاتا ہے کچھ اس طرح کہ ان دو نسلوں کیلئے مفاہمت کی کوئی گنجائش بھی نہیں رہتی۔ اس ضمن میں بنیادی بات ہمیں یہ یادرکھنا ہے کہ کوئی بھی بچّہ لگ بھگ ۱۰؍ سال کی عمر تک اپنے والدین کا صرف ’نقل چی‘ ہوتا ہے۔ لگ بھگ ۱۲؍سال کی عمر کے بعد اختلاف کی ہوا شروع ہوجاتی ہے جو والدین کی خواہش و مرضی کے بالکل مخالف سمت میںچلتی ہے۔ اس معاملے میں شدّت لگ بھگ ۳۰؍سال کی عمر تک رہتی ہے۔ اس کے بعد والدین اور بچّوں میں مفاہمت کا ماحول بن بھی جاتا ہے مگر ایک طویل، بے مطلب انا کی جنگ لڑنے اور اس پروسیس میں تباہی کے بعد! 
 دو نسلوں میں ذہنی و فکری تصادم کی آخر اصل وجوہات کیا ہیں؟ بڑوں سے جب اس ضمن میں استفسار کیا جاتا ہے تب وہ کہتے ہیں : (۱) انھیں نئی نسل کی فکر ہے (۲) وہ دل کی گہرائی سے نئی نسل کا بھلا چاہتی ہے (۳)انھیں زندگی کی ٹھوکریں کھاتے دیکھ نہیں سکتے (۴) زمانے کی نیرنگیوں سے انھیں بچانا ہے (۵) نئی نسل کو باخبر اور آگاہ کرنا ہے (۶) اسے مثالی بنانا ہے (۷) یہ نسل بے ادب ہے، اسے ادب سکھانا ہے(۸) یہ نسل ٹیکنالوجی کے نشے میں چُورہے، اسے ہوش میں لانا ہے(۹)یہ نسل دین بیزار ہے، انسان بیزار بھی ہے، اس کی یہ بیزاری ختم کرنی ہے وغیرہ۔ اچھی بات ہے مگر اس کیلئے کیا طریقۂ کار اپنا رہے ہیں؟ لگ بھگ چار دہائی قبل  ہم نے نئی نسل کو ’ہپّی جنریشن ‘ کا لقب دیا تھا کیوں کہ وہ بڑے و لمبے بالوں کے شوقین تھی، پھر اسے ایم ٹی وی جنریشن کہا گیا کہ وہ ہر لمحے میوزک پر تھرکنا پسند کرتی تھی، الیکٹرانک چیزوں سے اُسے پیار ہوا تو وہ ڈیجیٹل جنریشن کہلائی اور اب اُسے سیلفی جنریشن کہہ کر چڑاتے ہیں۔ اس طرح کی تضحیک سے آخر حاصل کیا ہوگا؟ اس طرح کیا کسی ایک نوجوان میں بھی کوئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے؟ 
 دراصل بدگمانی جنریشن گیپ کی ماں ہے۔ دیکھئے :ہم کہہ رہے ہیںکہ نئی نسل میںاخلاقی قدروں کا فقدان ہے، وہ صرف مذاق اُڑانا جانتی ہے، بڑوں کے سامنے ڈھنگ سے بیٹھنے تک کا شعور نہیں ہے۔ نئی نسل کا کہنا ہے کہ بڑے بزرگ ہم پر صرف حکمرانی کرنا چاہتے ہیں، اپنی بزرگی کا دم بھرکر ہمیںخاموش کرنا چاہتے ہیں اور وہ ہماری کسی خوبی اور کسی صلاحیت کا اعتراف تک نہیں کرتے۔ دراصل جنریشن گیپ کے بینر تلے جو جنگ چلتی ہے وہ ہے: ’ہمارے زمانے میں ‘ بمقابلہ ’موجودہ زمانے میں‘۔ ہم ’ہمارے زمانے میں‘ کی ڈفلی بجاتے رہتے ہیںاور کسی بھی قیمت پر اپنے زمانے سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں  ہیں۔ نئی نسل بس اپنی دنیا میں مست ہے۔ وہ بڑوں پر احساسِ محرومی کا الزام لگاتی ہے کہ ان کے پاس ایک ٹرانسسٹر یا ریڈیو تھا اور پھر بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی آگیااور اب وہ یہ برداشت نہیں کر پارہے ہیں کہ نئی نسل ان سب سے زیادہ طاقتور اسمارٹ فون اپنے جیب میںلئے پھرتی ہے۔ دراصل نئی نسل کو ہر بار بے موقع وبے محل’ ہمارے زمانے‘کی رٹ پسند نہیں ہے۔ مثلاً بڑے اگر یہ کہیں کہ ہمارے زمانے میں ہم ۱۰۰؍صفحات کی ایک بیاض میں ایک طرف تاریخ، دوسری طرف جغرافیہ اوردرمیان میں شہریت کے نوٹس لکھتے تھے اور اب تو ہر طالب علم کو نہ جانے کتنی کتنی درجن بیاضیں درکار ہوتی ہیں۔ یا وہ یہ کہیں کہ ہمارے زمانے میںہم برگد کے درخت کے نیچے ’دائروی قطار‘ میں بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور اُسے پکنک کہتے تھے اور آج کی نسل ریسٹورنٹ میں جشن مناتی ہے یا یہ کہا جائے کہ پہلے سائیکل بھی سبھوں کے پاس نہیں تھی اور اب تو ہر جگہ موٹر سائیکل دکھائی دیتے ہیں۔ان تبدیلیوں کے ضمن میں بڑوں کو یہ سمجھنا ہے کہ پکنک کے بجائے وہ ریو پارٹی مناتے ہیں تو اس پراعتراض بالکل بجا ہے۔ آپ کے زمانے کی کبڈّی اور گلّی ڈنڈا کے بجائے پوکومین، بلیو وہیل یا مومو کو اپناتے ہیں تو آپ کی فکر جائز ہے یعنی دو نسلوں کے ذہنی ٹکرائو کو ختم کرنے کے اعتدال پسندی واحد حل ہے۔ ایک نسل کو دوسری نسل کو رعایت دینی ضروری ہے۔ قصّہ مختصر یہ کہ جنریشن گیپ ختم کرنے کیلئے ہمیں یہ اقدامات کرنے ہیں: 
(۱) وقت کے بدلتے مزاج کو سمجھیں۔ 
(۲) دونوں نسلیںبے ضرر تبدیلیوں کو قبول کریں۔
(۳) بڑے ہمیشہ یاد رکھیںکہ اُن کا سلوک چھوٹوں کے ساتھ اگر جارحانہ ہوگا تو چھوٹوں کا رویّہ بڑوں کے ساتھ گستاخانہ ہوسکتا ہے۔
(۴) دونوں نسلیں اس حدیث بنویؐ سے رہنمائی حاصل کریں کہ ’’جوچھوٹوںپر شفقت نہیںکرتا اور بڑوں کا احترام نہیں کرتا، وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ اس حدیث سے بڑوںکا فرض او ر چھوٹوں کی ڈیوٹی دونوں واضح ہوجاتی ہے۔ 
(۵) والدین کو اپنے بچّوں کے دوست بننے سے جو مثبت نتائج حاصل ہوں گے وہ داروغہ بن کر حاصل نہیں ہوسکتے۔ 
(۶)اگر موجودگان (موجودہ نسل) ، آئندگان (نئی نسل) سے بہتر اخلاق، عادات وبرتائو کی اُمّید رکھنا چاہتی ہے تو اُن کو اپنے گذشتگان (نئی نسل کے دادا ، دادی، نانا،نانی)سے احسن طریقے سے پیش آنا پڑے گا کہ اُن کا سلوک و برتائو ہی نئی نسل کیلئے مشعل راہ ثابت ہوگا۔ 
 والدین اور بچّوںمیںفکری و قلبی ہم آہنگی ہی سے دو نسلوں کے درمیان کے ذہنی فاصلے یعنی جنریشن گیپ کو صرف کم نہیں بلکہ ختم بھی کیا جاسکتا ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK