Inquilab Logo

آئین کی قسم کھا کر آئینی قدروں کو پامال کرنےوالے سیاستداں

Updated: August 09, 2020, 3:18 PM IST | Jamal Rizvi

بی جے پی سے تعلق رکھنے والے تیجسوی سوریہ جیسے لیڈروں کے نفرت آمیز اور سماجی تفریق پر مبنی بیانات ان کیلئے سیاسی مفاد کی راہ تو ہموار کر سکتے ہیں لیکن اس سے سماجی سطح پرجو مسائل پیدا ہوتے ہیں وہ نہ صرف اس ملک کی قومی یکجہتی کی روایت کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ اس سے ہندوستان کی تاریخ اور تہذیب سے متعلق وہ غلط فہمیاں بھی پیدا ہوتی ہیں جو درحقیقت کبھی اس ملک کی تاریخ اور تہذیب کا جزو ہی نہیں رہی ہیں

bjp
بی جے پی

اس ملک کی سیاست میں ان دنوں ایک خرابی یہ پیدا ہو گئی ہے کہ آئین کے اصولوں اور قدروں کی پاسداری کا معاملہ قدرے پیچیدہ ہو گیا ہے ۔انتخابی سیاست میں کامیابی حاصل کرنے والے سیاستداں جب ریاست یا مرکز کے ایوان میں داخل ہوتے ہیں تو سب سے پہلے وہ یہی حلف لیتے ہیں کہ آئینی قدروں کا تحفظ اور سیاسی زندگی میں ان کی تعمیل کریںگے۔ملک کے جمہوری سیاسی نظام میں آئین وہ اہم دستاویز ہے جو اقتدار اور عوام کے روابط کی تشریح کرتا ہے۔ اس تشریح میں ان اصولوں اور ضابطوں کو امتیازی حیثیت حاصل ہے جو عوام کے بنیادی حقوق اور ملک کے سیکولر کردار کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ادھر گزشتہ کچھ برسوں میں ملک کے سیاسی نظام میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، ان میںایک یہ تبدیلی بھی بہت واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے کہ عوام کی نمائندگی کرنے والے سیاستدانوں کا ایک طبقہ ان آئینی قدروں کی مسلسل اَن دیکھی کرتا رہا ہے جن کی پیروی کرنا ان کے سیای منصب کیلئے لازمی ہے ۔اس ضمن میں ان نیتاؤں کا ذکر خصوصی طور سے کیا جا سکتا ہے جو اس وقت مرکز میں برسر اقتدار جماعت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ 
 بی جے پی میں ایسے لیڈر بہت منظم طور پر اپنے ان خیالات اور نظریات کی تشہیر عوامی سطح پر کرنے میں سرگرم ہیں جو اس ملک کے تکثیری سماج اور سیکولر کردار کے برعکس ہوتے ہیں ۔ان لیڈروں کے اس طرز کے بیانات میں نہ تو آئینی قدروں کی پاسداری اور نہ ہی عوامی زندگی کو در پیش ان مسائل کے تئیں فکرمندی نظر آتی ہے جن کے تدارک کی تدبیر ان کے سیاسی منصب کا لازمی حصہ ہے ۔بی جے پی سے تعلق رکھنے والے ان لیڈروں کے نزدیک ان کے ذاتی تحفظات اور تعصبات ہی اس ملک کی سیاسی اور سماجی زندگی کی حقیقت ہیں ۔ اس حقیقت کے اظہار میں وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اس سے سماج میں انتشار اور نفرت کے رجحان میں اضافہ ہوتا ہے ۔چونکہ ان لیڈروں کی ذہنی نشو ونما آر ایس ایس کی تربیت گاہوں میں ہوتی ہے لہٰذا وہ اس ملک کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کو ایک مخصوص زاویے سے دیکھتے ہیں۔ ان کے اس انداز نظر کا پہلاہدف ہندوستانی مسلمان اور اس کی سماجی و تہذیبی زندگی کے وہ معاملات ہوتے ہیں جن کی بنا پر ان کا قومی تشخص قائم ہوتا ہے۔۲۰۱۴ میں مرکز میں حکومت سازی کے بعد ہی سے بھگوا لیڈروں کے ایسے بیانات آئے دن میڈیا میں بحث کا موضوع بنتے رہے ہیں ۔ 
 اپنے سیاسی منصب اور آئینی تقاضوں کو نظر انداز کر کے صرف اپنی خواہش اور ذاتی پسند پر مبنی خیالات کو ملک کی تاریخ اور سیاست کے حقائق سے وابستہ کرنے والے بی جے پی کے ایسے لیڈروں میں ان دنوں تیجسوی سوریہ کا نام بہت نمایاں ہے ۔تیجسوی سوریہ نوجوان سیاستداں ہیں جو بنگلور سے اس پارٹی کے ایم پی ہیں ۔ تیجسوی نے وکالت کی پڑھائی کی ہے اور دوران تعلیم ہی وہ بی جے پی کی اسٹوڈنٹس ونگ میں بہت سرگرم رہے ہیں اور اب بنگلور شہر کے اس انتخابی حلقہ کی نمائندگی کرتے ہیں جہاں عموماً یہ مانا جاتا ہے کہ زیادہ تر پڑھے لکھے لوگ رہتے ہیں۔سماج کے تعلیم یافتہ افراد کی نمائندگی کرنے والے لیڈر سے کم ازکم یہ توقع تو کی ہی جاسکتی ہے کہ وہ خود بھی اس حد تک پڑھا لکھا ہوجو اس ملک کی سیاسی تاریخ،تہذیب اور سماجی زندگی کے ان حقائق سے واقف ہوگا جن کی بنا پر اس ملک کو دنیا کے دوسرے ملکوں کے درمیان امتیاز حاصل ہے لیکن تیجسوی کے بیانات سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ ان کی سیاست کا پہیہ صرف مسلم دشمنی کے مدار پر گردش کرتا ہے اور اس گردش میں وہ اکثر ایسے بیانات جاری کر تے ہیں جو نہ صرف سیاسی اور تاریخی اعتبار سے لغوبلکہ ایک مہذب اور تعلیم یافتہ سماج میں قابل نفرین ہوتے ہیں ۔یہ بیانات اگر وہ ایک عام انسان کی حیثیت سے دیں تو بھی اسے درست نہیں قرار دیا جا سکتا....اور اس صورت میں تو یہ بیانات بالکل بھی صحیح نہیں کہے جاسکتے جب کہ وہ ایک عوامی نمائندے کی حیثیت سے ان آئینی ضابطوں کی پاسداری کے سزاوار ہیںجن کی رو سے ان کے سیاسی منصب میں کسی بھی طرح کے تعصب کو قطعی درست اور جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ہندوستان جیسے سیکولر ملک کے جمہوری طرز سیاست سے وابستہ اس ٹھوس حقیقت کے باوجود تیجسوی جیسے نیتاؤں کے مسلمان مخالف بیانات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان نیتاؤں کو اپنے سیاسی منصب اور آئینی قدروں کی مطلق پروا نہیں ہے اور وہ اس حقیقت ہی کو مقدم جانتے ہیں جو اس ملک کو ایک مخصوص مذہنی آئیڈیالوجی کا حامل قرار دیتی ہے۔
 ۵؍ اگست کو ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کیلئے ہونے والے بھومی پوجن کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے تیجسوی نے یہ بیان دیا کہ اس ملک کا اقتدار ہندوؤں کے پاس رہنا ضروری ہے ۔ملک کے اقتدار پر ہندوؤ ں کی اجارہ داری کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ اسلئے ضرروی تاکہ ہندو مذہب اور ملک کے مندروں کو محفوظ رکھا جا سکے۔ بی جے پی کے نوجوان لیڈر کا یہ بیان مکمل طور پر اس ملک کے سیکولر سیاسی کردار اور آئین کے ان ضابطوں کے خلاف ہے جو جمہوری طرز سیاست میں اقتدار کو کسی ایک پارٹی یا مخصوص آئیڈیالوجی کے حامل افراد کی ملکیت نہیں تسلیم کرتا۔اس ملک کا آئین یہاں کے سماجی نظام میں بھی اس امتیاز کو درست نہیں قرار دیتا جس کی بنا پر کسی ایک مخصوص ذات یا طبقے سے وابستہ افراد کے اندر عدم تحفظ اور محرومی کا احساس پیدا ہو۔ آئین میں عوام کے جن بنیادی حقوق کا ذکر ہے، ان میں مذہبی آزادی کو بھی نمایاں حیثیت حاصل ہے ۔ ایسے میں ایک ذمہ دار شہری اور اپنے سینے پرعوامی نمائندگی کا ٹیگ لگا کر پھرنے والے سیاست داں کا یہ بیان یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ملک کے مرکزی ایوان میں پہنچ تو گیا ہے لیکن اسے اس ایوان کی عظمت کا احساس بالکل بھی نہیں ہے ۔
 تیجسوی سوریہ کا شمار بی جے پی کے ان لیڈروں میں ہوتا ہے جن کا سیاسی کریئر اسی لئے اس مقام تک پہنچ سکا کہ انھوں نے شروع ہی سے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز اور نفرت آمیز بنایات کے ذریعہ اپنی شناخت بنائی ۔ ملک کے مرکزی ایوان میں پہنچنے سے قبل جبکہ وہ کرناٹک میں ریاستی سطح پر بھگوا سیاست میں فعال تھے، اس وقت  ہی سے وہ مسلمانوں کے خلاف نازیبابیانات دیتے رہے ہیں۔  انھیں اپنے اس طرز گفتار پر فخر بھی ہے، اسی لئے ایک ٹویٹ میں انھوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ کوئی مجھے خواہ مذہبی جنون میں مبتلاشدت پسند کہے یا کچھ اور، میںیہ چاہتا ہوں کہ بی جے پی پوری طرح سے ایک ہندو سیاسی پارٹی کے طور پر اپنی شناخت بنائے۔جس طرح بی جے پی کے سینئر لیڈروں میں سبرامنیم سوامی مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیتے رہے ہیں، اسی طرح اس پارٹی کی نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والے تیجسوی بھی اسی طرز فکر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تیجسوی نے سی اے اے کے خلاف ملک گیر احتجاج کے دوران مسلمانوں کے خلاف جس طرح کے حقارت آمیز الفاظ استعمال کئے تھے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس قوم سے اپنے جذبہ ٔ عناد کے اظہار میں اپنی اس آئینی ذمہ داری کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں جو ایک عوامی نمائندے کی حیثیت سے ان سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ ملک کے سیاسی یا سماجی مسائل پر اظہار خیال کرتے وقت کسی بھی قسم کے تعصب یا نفرت کا مظاہرہ نہ کریں۔
 ہندوستانی سیاست کا یہ ایک اہم اور حساس مسئلہ ہے کہ نیتاؤں کے نزدیک آئینی قدروں اوران کے سیاسی منصب سے وابستہ ذمہ داریوں کے تئیں ان کی اپنی فکر کیا ہے؟ تیجسوی جیسے لیڈروں کے نفرت آمیز اور سماجی تفریق پر مبنی بیانات ان کیلئے سیاسی مفاد کی راہ تو ہموار کر سکتے ہیں لیکن اس سے سماجی سطح پرجو مسائل پیدا ہوتے ہیں وہ نہ صرف اس ملک کی قومی یکجہتی کی روایت کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ اس سے ہندوستان کی تاریخ اور تہذیب سے متعلق وہ غلط فہمیاں بھی پیدا ہوتی ہیں جو درحقیقت کبھی اس ملک کی تاریخ اور تہذیب کا جزو ہی نہیں رہی ہیں۔مرکزی اور ریاستی ایوانوں میں عوامی نمائندے کی حیثیت سے داخل ہونے والے ان نیتاؤں کے ایسے فضول اور بیہودہ بیانات پر اُن کی بھی جوابدہی طے کرنے کیلئے کچھ ایسے ٹھوس اقدامات درکار ہیں جوانھیں ان کی آئینی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے رہیں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK