Inquilab Logo

سیاست ،جرائم اور عوام

Updated: February 08, 2020, 9:02 AM IST | Editorial | Mumbai

 سیاست کی دُنیا اور جرائم کی دُنیا میں بڑی دوستی ہے۔ دونوں کی گاڑھی چھنتی ہے۔ ہرچند کہ جرم کا ارتکاب چاہے سیاستداں کرے یا عام آدمی، جرم جرم ہوتا ہے ثابت ہوجانے پر جس کی سزا لازمی ہے مگر عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جرم کا مرتکب عام آدمی ہے تو اسے سزا ضرور ملتی ہے مگر سیاستداں سیاسی اثرورسوخ کو بروئے کار لاکر اپنی گردن چھڑانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

 سیاست کی دُنیا اور جرائم کی دُنیا میں بڑی دوستی ہے۔ دونوں کی گاڑھی چھنتی ہے۔ ہرچند کہ جرم کا ارتکاب چاہے سیاستداں کرے یا عام آدمی، جرم جرم ہوتا ہے ثابت ہوجانے پر جس کی سزا لازمی ہے مگر عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جرم کا مرتکب عام آدمی ہے تو اسے سزا ضرور ملتی ہے مگر سیاستداں سیاسی اثرورسوخ کو بروئے کار لاکر اپنی گردن چھڑانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جبکہ اُن کے ذریعہ جرم کا ارتکاب ہوتا ہی اس یقین کے سبب ہے کہ ’’ہمارا کچھ نہیں بگڑے گا۔‘‘ اسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارمس (اے ڈی آر) کا کہنا ہے کہ لوک سبھا کے ۵۳۹؍ اراکین میں ۲۳۳؍ ایسے ہیں جن کے خلاف جرائم کے معاملات چل رہے ہیں ۔ یہ لوک سبھا کی مجموعی تعداد کا ۴۳؍ فیصد ہے۔ ان میں چند ایسے اراکین ہیں جن کے خلاف عائد ہونے والے الزامات کافی سنگین ہیں مثلاً قتل، عصمت دری اور اغوا۔ کے ۵۳۹؍ میں جن ۲۳۳؍ کے خلاف جرائم کے معاملات درج ہیں اُن میں سب سے زیادہ (۱۱۶) بی جے پی کے ہیں ، اس کے بعد کانگریس (۲۹)، جے ڈی یو (۱۳)، ڈی ایم کے (۱۰) اور ترنمول کانگریس (۹) کا نمبر آتا ہے۔ اے ڈی آر ہی کا کہنا ہے کہ جرائم کے الزامات کا سامنا کرنے والے اراکین پارلیمنٹ میں ۲۰۱۴ء کے مقابلے ۲۰۱۹ء میں ۲۴؍ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
  اگر ۲۰۱۴ء کے بجائے ۲۰۰۹ء سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اضافہ ۱۰۹؍ فیصد ہے۔ اس پر کسی کو حیرانی نہیں ہوگی کیونکہ وطن عزیز میں سیاست میں جرائم اور جرائم میں سیاست کی آزمائش کوئی سربمہر راز نہیں ہے۔ ہر خاص و عام اس حقیقت سے واقف ہے بلکہ ہر خاص و عام پر یہ حقیقت بھی آشکار ہے کہ ہماری لوک سبھا کی ایک رُکن ایسی بھی ہے جس کے خلاف دہشت گردی کا الزام ہے۔ چونکہ عوام نے بھی سیاست اور جرائم کی ملی بھگت کو شرف قبولیت بخش دیا ہے اس لئے سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکور نامی یہ رُکن پارلیمنٹ کے ٹکٹ دیئے جانے پرتنقید ضرور ہوئی مگر نہ تو بی جے پی نے اُن کا ٹکٹ واپس لیا نہ ہی رائے دہندگان نے اُنہیں ناکام ہونے دیا۔ آج وہ لوک سبھا میں بیٹھی ہوئی ہیں اور قانون سازی کے عمل کا حصہ ہیں ۔ کیا یہ افسوسناک نہیں ہے؟ کانگریس بھی دودھ کی دھلی نہیں ہے۔ اس کے ٹکٹ پر اِڈوکی (کیرالا) سے کامیاب ہونے والے ڈین کوریاکوس کے خلاف ۲۰۴؍ معاملات درج ہیں ۔ ڈین کوریاکوس پر اقدام قتل، گھر میں بلا اجازت گھسنا (ہاؤس ٹریس پاس)، ڈکیتی اور مجرمانہ طور پر دھمکاناجیسے الزامات ہیں ۔کوریاکوس ۲۰۱۴ء میں سوا تین لاکھ ووٹ ملنے کے باوجود دوئم نمبر پر رہے۔ اُن کے مقابلے ایک آزاد اُمیدوار جیت گیا تھا مگر ۲۰۱۹ ء میں اُن کی مراد پوری ہوگئی۔ 
  یاد رہنا چاہئے کہ ستمبر ۲۰۱۸ء میں سپریم کورٹ نے ہدایت دی تھی کہ اُمیدواروں کے خلاف اگر جرائم کے معاملات درج ہیں تو اُن کی تفصیل اخبارات میں تین مرتبہ شائع کرائی جائے۔ مقصد یہ تھا کہ عوام جان لیں کہ کون سا اُمیدوار کیسا ہے مگر اس پر کتنا عمل ہوا یہ آپ ہم، سب کے علم میں ہے۔ 
 اس پس منظر میں مذکورہ انکشافات کرنے والی غیر سرکاری تنظیم اے ڈی آر کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ’’ جب جرائم میں ’ملوث‘ (کریمنلس) کمان سنبھالتے ہیں تو جمہوری قدروں پر ضرب پڑتی ہے اور جمہوری ادارے بے اثر ہونے لگتے ہیں ۔‘‘ مگر ہر قیمت پر سیاسی طاقت اور اقتدار حاصل کرنے کے جوڑ توڑ میں سر کھپانے والی (سب نہیں مگر اکثر) سیاسی جماعتیں یہ دیکھتی ہیں کہ کون کتنا مالدار، دبنگ اور ان دو خصوصیات کے نتیجے میں الیکشن جیتنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ ایسے ہی لوگوں کو ٹکٹ دیا جاتا ہے۔ اکثر اسی قبیل کے لوگ ’’منی اینڈ مسل پاور‘‘ کی وجہ سے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں ۔ اس میں قصور سیاسی پارٹیوں ہی کا نہیں ، عوام کا بھی ہے۔ وہ سمجھداری سے کام لیں تو جو کچھ برسوں سے ہورہا ہے، کیوں ہو؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK