Inquilab Logo

کورونا سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر پر عمل لازمی

Updated: March 29, 2020, 3:58 PM IST | Jamal Rizvi

اس وقت مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے علاوہ، مقامی انتظامیہ اور عوام تینوں کو اپنی ذمہ داری پوری سنجیدگی کے ساتھ ادا کرنے کی ضرورت ہے، اس مثلث کی کامیابی کا انحصار بڑی حد تک عوام کے اس رویے پر ہے جوایسے سنگین حالات میں حکومتی اقدامات اور انتظامی امور کو موثربنائے گا

Coronavirus Fear - Pic : PTI
کورونا وائرس کا خوف ۔ تصویر : پی ٹی آئی

عالم انسانیت اس وقت جس وبا سے دوچار ہے اس سے بچنے کا واحد راستہ ان احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرنا ہے جو اس وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد کرتی ہیں۔چین سے شروع ہونے والی کورونا نامی اس بیماری پر قابو پانے کیلئے اب تک ایسی کوئی دو ا ایجاد نہیں ہو سکی ہے جس کے استعمال سے اس مرض میں مبتلا مریض کے ٹھیک ہونے کا حتمی دعویٰ کیا جا سکے۔عالمی سطح پر ڈاکٹروں کے ذریعہ مختلف دوائیں تجرباتی طور پر استعمال کی جا رہی ہیں جن میں سے بعض دوائیں مرض کی شدت کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوئی ہیں لیکن یہ مرض جس تیز رفتاری کے ساتھ انسانوں کو نشانہ بنا رہا ہے اس کے مد نظر اس طرح کے تجرباتی علاج کو بہت زیادہ کامیاب نہیں کہا جا سکتا۔ چین، اٹلی، اسپین ، ایران، برطانیہ، امریکہ اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں یہ مرض جس سرعت کے ساتھ پھیلااس کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جن ملکوں کو اپنی سائنس اورمیڈیکل ترقی پر بڑا ناز تھا وہ بھی اس وائرس کے آگے بے بس ہو گئے ہیں۔وطن عزیز میں بھی اس مرض سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے تاہم یہ بات کسی حد تک اطمینان بخش ہے کہ دنیا کے دیگرمتاثرہ ملکوں کی بہ نسبت یہاں اموات کی شرح بہت کم ہے۔اس کے علاوہ کورونا  سے متاثرہ افراد کے علاج کے معاملے میں بھی وطن عزیز کے ڈاکٹروں کی تدابیر بھی بڑی حد تک امید افزا رہی ہیں۔ ان سب تدابیر اور کوششوں کے باوجود اس مرض کے حتمی علاج کیلئے ویکسین بنانے میں خاصی مدت درکار ہے۔جب تک ایسا کوئی حتمی علاج دریافت نہیں ہو جاتا بت تک ان احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ناگزیر ہے جو اس مرض کو پھیلنے سے روک سکیں۔
  کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے میں معاون ایسی احتیاطی تدابیر کے متعلق بار بار متنبہ کیا جارہا ہے۔ میڈیکل شعبہ سے وابستہ افراد کے علاوہ سماجی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے والی تنظیمیں ،مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات  اور حکومت کی جانب سے عوام کو متواتر یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ وہ ان تدابیر پر سختی سے عمل کریں ۔ میڈیا کے ذریعہ وسیع پیمانے پر اس کی تشہیر کی جا رہی ہے اور ملک کے طول و عرض پر حکومتی اور انتظامی سطح پر ایسے اقدامات کئے جا رہے ہیں جو عوام میں اس وبا کے متعلق بیداری پیدا کریں۔ انہی اقدامات میں سے ایک اہم قدم مرکزی حکومت کے ذریعہ ملک گیر سطح پر تین ہفتے کے لاک ڈاؤن کا اعلان ہے۔ حکومت کے اس اعلان کا بنیادی مقصد عوام کے درمیان وہ سماجی دوری بنانا ہے جو اس وائرس کے پھیلاؤ کو روک سکے۔ وزیر اعظم کے ذریعہ اس اعلان سے قبل ایک روزہ جنتا کرفیو کا اعلان بھی کیا گیا تھا اور اس کا مقصد بھی سماجی دوری بنانا تھا۔حکومت، انتظامیہ اور میڈیکل شعبہ کی جانب سے جو اقدامات کئے جارہے ہیں وہ اس وقت تک کارگر نہیں ثابت ہو سکتے جب تک کہ عوام ان اقدامات کے مطالبات پر سختی اور سنجیدگی کے ساتھ عمل نہ کریں۔
 عوام کو یہ بنیادی بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ یہ ایک ایسا مرض ہے جو بہ ظاہر بہت معمولی جسمانی آزار کا باعث بنتا ہے لیکن اگر اسے معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے تو پھر یہ پیغام اجل بھی بن جاتا ہے۔ چین اور اٹلی میں اس مرض سے متاثرہ افراد کی وسیع پیمانے پر ہونے والی اموات کے پیچھے وہاں کے باشندوں کا اس مرض کے متعلق یہ رویہ بھی رہا ہے ۔وطن عزیز میں بھی عوام کا ایک طبقہ اس مرض کے متعلق ایسا ہی رویہ ظاہر کر رہا ہے ۔حکومتی سطح پر اس مرض کی روک تھام کیلئے جو اقدامات کئے جارہے ہیں ان میں عملی سطح پر بعض نقائص کے باوجود یہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچاؤ کیلئے ان تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کریں جو انھیں اس مرض سے محفوظ رکھ سکے۔پوری دنیا اس وقت انتہائی مشکل حالات سے گزر رہی ہے اور ایسے میں اگر عوام کی جانب سے سنجیدگی، بیداری اور حساسیت کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تو حالات مزید ابتر ہو سکتے ہیں۔ 
 ان دنوں وطن عزیز میں جاری لاک ڈاؤن کا مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک کہ عوام خود اپنی جانب سے اس مرض کی روک تھام کے سلسلے میں محتاط اور سنجیدہ رویہ نہ اختیار کریں۔عوام کو کئی سطحوں پر اس احتیاط اور سنجیدگی کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے ۔حکومت کی جانب سے عوام کی روزمرہ زندگی کیلئے ضروری اشیا کی فراہمی کی یقین دہانی کے باوجود اشیائے خور و نوش اور دواکی دکانوں پر بہ یک وقت اتنے لوگ جمع ہورہے ہیں جو اس لاک ڈاؤن کے مقصد ہی کو  ناکام بنا رہے ہیں۔ ان دکانوں پر جمع ہونے والی اس بھیڑ میں اکثر ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو ماسک اور دستانے پہننے میںیقین نہیں رکھتے۔ایسے غیر سنجیدہ لوگ بڑی آسانی سے اس وائرس کا شکار بن سکتے ہیں اور ساتھ ہی دوسروں کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔مختلف شہروں کے مسلم اکثریتی علاقوں میں اس طرح سے عوام کے یکجا ہونے کا مشاہدہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔اس طرز کے ہجوم میں ایسے لوگوں کی خاصی تعداد ہوتی ہے جو حقائق کو دریافت کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کے بجائے افواہوں پر بڑی آسانی سے یقین کر لیتے ہیں ۔ ایسے لوگ نہ صرف ان افواہوں پر خود یقین کرتے ہیں بلکہ اپنے طور پر ان کی تشہیر کرکے حالات کو مزید خراب کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ چونکہ یہ دور سوشل میڈیا کی انتہائی مقبولیت کا دور ہے اور سماج کا ہر طبقہ کسی نہ کسی طور سے اس سے وابستہ ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ جب ایسے ابتر حالات میں اس پلیٹ فارم کا استعمال کیا جائے تو اپنی سماجی ذمہ داریوں کو ملحوظ رکھا جائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے سنگین حالات میں سوشل میڈیا کے استعمال میں احتیاط اور سنجیدگی کو بعض افراد بالائے طاق رکھ دیتے ہیں جس کے سبب پورا معاشرہ مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا کرتا ہے ۔اس ضمن میں نہ صرف عوام بلکہ بعض مقتدر اور ممتاز شخصیات کا طرز عمل بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس وبا کی ہلاکت خیزی کے تئیں بہت زیادہ سنجیدہ نہیں ہیں۔خود وزیر اعظم نے گزشتہ اتوار کو عوام سے تھالی اور تالی بجانے کا جو مطالبہ کیا تھا وہ اس مرض کے متعلق ان کی غیر حساسیت ظاہر کرنے والا اعلان تھا۔ ان کے اس مطالبے کو عملی شکل دینے کیلئے مختلف مقامات پر جس طرح عوام یکجا ہوئے وہ بھی اس مرض کے پھیلاؤ کا ایک سبب بن سکتا ہے۔وزیر اعظم کے اس اعلان نے سماجی دوری کے اس بنیادی مقصد ہی کو  ناکام بنا دیا جو اس مرض کے پھیلاؤ کو روکنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
 اس وقت حکومت، مقامی انتظامیہ اور عوام تینوں کو اپنی ذمہ داری پوری سنجیدگی کے ساتھ ادا کرنے کی ضرورت ہے۔  اس مثلث کی کامیابی کا انحصار بڑی حد تک عوام کے اس رویے پر ہے جوایسے سنگین حالات میں حکومتی اقدامات اور انتظامی امور کو موثربنائے گا۔عوام کو بہر طور ایک ہجوم کی شکل میں یکجا ہونے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے خواہ وہ ان کی ضرورت کی اشیا کی فراہمی کرنے والی دکانیں ہوں یا کوئی اور مقا م ہو۔ اس کے علاوہ اپنے جسم اور لباس کو صاف ستھرا رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر اور علاقہ کی صفائی پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔عوام اپنے کھانے پینے کی عادتوں اور زندگی کے معمول کو اس طرز کا خوگر بنائیں جو اُن کی صحت مندی کو یقینی بنا سکے۔اس کیلئے ضروری ہے کہ سماج کا ہر طبقہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرے اور صفائی ستھرائی کا خیال رکھتے ہوئے ان احتیاطی تدابیر پر عمل کرے  جو اس مرض کو پھیلنے سے روک سکتی ہیں۔
 چونکہ لاک ڈاؤن کے سبب عوام کا بیشتر وقت گھر کے اندر گزررہا ہے لہٰذا درون خانہ گزرنے والے اس وقت کا مثبت اور بہتر استعمال کرنے کیلئے ایسا نظم ترتیب دینے کی ضرورت ہے جو اِن کی خانگی زندگی کو خوشگوار بنائے رکھنے میں معاون ثابت ہو۔عہد حاضر کی انتہائی مصروف ترین زندگی کے سبب گھریلو روابط اور معاملات میں جو پیچیدگی پیدا ہوگئی ہے اسے بھی بڑی حد تک سلجھایا جا سکتا ہے اگراس وقت کا استعمال دانشمندی کے ساتھ کیا جا ئے۔ اس وبا کے سبب انسان کی معاشرتی اور معاشی زندگی جن مسائل سے دوچار ہو رہی ہے ان پر قابو پانا کچھ آسان نہ ہوگا۔ سماجیات اور معاشیات کے ماہرین اس کے متعلق مسلسل اپنی فکر مندی کا اظہار کر رہے ہیں اور یہ سچ بھی ہے کہ اس وبا نے سماجی و معاشی استحکام کو بڑی حد تک متزلزل کر دیا ہے ۔ ان سب مسائل کے باوجود انسان نے امید کا دامن پوری طرح سے نہیں چھوڑا ہے اور یہ تمام مخلوقات کے درمیان اس کے اشرف ہونے کی ایک دلیل بھی ہے۔اس امید کو دوام اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب کہ ایسے مشکل حالات میں دانشمندی سے کام لیا جائے اور ان احتیاطی تدابیر کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہ کیا جائے جو اس وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں کارگر ثابت ہو سکتی ہیں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK