Inquilab Logo

وزیراعظم نے ایک بار پھر مایوس کیا

Updated: April 05, 2020, 2:14 PM IST | Qutbuddin Shahid

گزشتہ ۱۶؍ دنوں میں وزیراعظم مودی نے جب تیسری مرتبہ قوم سے خطاب کااعلان کیا تو امید تھی کہ وہ کورونا سے احتیاط اور علاج کے بارے میں کچھ بتائیں گے اور اُن پریشان حال افراد کے درد کا درماں بنیںگے ، لاک ڈاؤن کی وجہ سے جن کے گھروں میں چولہے بجھ گئے ہیں لیکن افسوس کہ ایساکچھ نہیں ہوا

Narendra Modi - Pic : INN
نریندر مودی ۔ تصویر : آئی این این

کسی ملک کا  سربراہ جب قوم سے خطاب کرتا ہے تو فطری طور پر ملک کی نگاہیں کسی بڑے اعلان کی منتظر ہوتی ہیں۔ شدید بحران سے دوچار وطن عزیز بھی اس موقع پر وزیراعظم مودی سے کسی ایسے ہی اہم اعلان کا متمنی تھا جس میں اس کے سوالوں کے جواب ہوتے اور جس میں اس کے مسائل کے حل ہوتے۔اس بحرانی کیفیت میں ہر چہرہ  مایوسی کی ایک تصویر بنا ہوا ہے۔ ایک جانب جہاں کورونا کا قہر جاری ہے اور متاثرین کی تعداد کے لحاظ سے روزانہ نئے ریکارڈ درج ہورہے ہیں وہیںلاک ڈاؤن کی وجہ سے ملک کے ۸۰؍ کروڑ سے زائد افراد کے گھروں میں چولہوں کے سرد پڑنے کی نوبت آگئی ہے۔ ایسے میں ملک کو امید تھی کہ کچھ ’بڑا اعلان‘ ہوگا۔ قوم کے نام اس خطاب میں بتایا جائے گا کہ اس بحران پر قابوپانے کیلئے حکومت نے کیا نظم کیا ہے؟ اس کی منصوبہ بندی کیا ہے؟ اس تعلق سے عوام کو کیا کرنا  ہے؟علاوہ ازیں کورونا سے احتیاط اور علاج سے متعلق  ملک کے ماہرین صحت کی رائے سے آگاہ کیا جائے گا اور بتایا جائے گا کہ ملک کے عوام کی پریشانیوں کو دور کرنے کیلئے حکومت کے آئندہ اقدامات کیا  ہیں؟ لیکن افسوس کہ وزیراعظم کے اس خطاب سے ان  سوالوں میں سے کسی کا بھی جواب نہیں ملا۔ اس کے برعکس انہوں نے ایک بار پھر شعبدہ بازی کے ذریعہ عوام کے ذہنوں کو اصل موضوع سے ہٹانے کی کوشش کی۔
 ایک ایسے وقت میں جب روزانہ ملک بھر میں۵۰۰؍ سے زیادہ کورونا سے متاثر مریضوں کی شناخت ہورہی ہو اور ملک بھر میں اب تک ۹۰؍ سے زائد اموات ہوچکی ہوں۔ اس کی وجہ سے عوام خوف و ہراس میں مبتلا ہوں، اپنے سائے سے بھی فاصلہ بنا کر رکھتے ہوں،  اپنے اپنے گھروں میں محصور ہوجانے پر مجبور ہوں۔ایک بڑا طبقہ اپنوں سے بچھڑکر کہیں دور پھنسا ہوا ہو۔ وہ یا تو بھوکوں مر رہا ہو یا خیرات کے ٹکڑوں پر گز ر بسر کررہا ہو۔ پیروں کی چھالوں کی پروا کئے بغیر ملک کی ایک بڑی آبادی چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بھوکے پیاسے سڑکوں پر گھسٹ رہی ہو..... ایسے میں وزیراعظم نے قوم  کے نام یہ پیغام دیا کہ اس خطرناک بیماری سے لڑنے کیلئے ۵؍ اپریل کو ۹؍ بجے رات میں ۹؍ منٹ کیلئے گھروں کی لائٹ بجھاکر گھر کے باہر دروازے پر جمع ہوں اور دیا جلائیں۔ذرا سوچئے! اس پیغام کا اثر اُن متاثرین پر کیا ہوگا؟ جو کورونا  سے جوجھ رہے ہیں یا لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھوکوں مررہے ہیں؟ بھکتوں کو یقیناً اس پیغام میں بھی کچھ حکمت نظر آرہی ہوگی لیکن یہ تو ایک عام آدمی ہی جانتا ہے کہ وہ کس کرب و اذیت سے دوچار ہے اوراس پیغام سے اسے کتنی مایوسی ہوئی ہے؟ 
 اس خطاب کے بعدکانگریس نے بالکل درست سوال کیا ہے کہ’’دیا تو جل جائے گا لیکن چولہے کا کیا ہوگا؟‘‘کانگریس کے سینئر لیڈرادھیررنجن چودھری نےذرا سخت لہجہ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ’’کوئی بھلے ہی ملک مخالف کہے لیکن میں دِیا اور موم بتی نہیں جلا ؤں گا۔‘‘ ادھیر رنجن چودھری نے ایسا نہ کرنے کا یہ جواز بھی دیا ہے کہ ’’لائٹ بند کرکے کینڈل جلانے اور کورونا کے خلاف لڑائی میں کوئی رشتہ نہیں ہے‘‘.... ایک دوسرے سینئر لیڈر بی کے ہری پرساد نے بھی اس خطاب پر تنقید کرتے ہوئے اسے بکواس قرار دیا۔یہ شاید پہلا موقع ہے جب وزیراعظم کے بھکت اور دن رات ان کا جاپ کرنےوالے بھی ان کی حمایت میں دو چار لفظ کہنے سے قاصر نظرآرہے ہیں۔ شاید ان کے  وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ وزیراعظم  اس  بحرانی کیفیت میں بھی شعبدہ بازی کا سہارا لیںگے۔ سابق وزیر داخلہ اور وزیرمالیات پی چدمبرم نے وزیراعظم کے خطاب پرسنجیدہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’علامتی کام اہم ہیں لیکن آئیڈیاز اور ترکیبوں کیلئے سنجیدہ سوچ بھی اتنی ہی اہم ہے۔‘‘ 
 سچ تو یہ ہےکہ خود حکومت نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ملک میں ۸۰؍ کروڑ سے زائد افراد ایسے ہیں جو روز کنواں کھودنے اور پانی پینے پر مجبور ہیں۔ یہ تمام افراد اس بات کی خوش فہمی پال کر بیٹھے ہیں کہ ۱۴؍ اپریل کے بعد ملک کی سابقہ حالت بحال ہوجائے گی۔ انہیں اس بات کی بھی آس تھی کہ حکومت ان کیلئے بہت فکرمند ہے اور سنجیدگی سے انہیں اس بحران سے باہر نکالنے کیلئے کوشاں ہے لیکن جمعہ کی صبح  ۹؍ بجے وزیراعظم کے خطاب کے بعد ان کی آس پر ’اوس‘ پڑ گئی۔ملک کے انہی پریشان حال افراد کی ترجمانی کرتے ہوئے پی چدمبرم نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’’ڈیئر نریندر مودی ہم ۵؍ اپریل کو دیا جلائیں گے اور آپ کو سنیں گے بھی لیکن اس کے بدلے میں ہماری، وبا سے متاثرہ افراد اور ماہرین اقتصادیات کی باتوں کو بھی تو سنئے۔‘‘ افسوس تو اسی بات کا ہے کہ وزیراعظم صاحب کسی کی سنتے نہیں ہیں، وہ صرف ’من کی بات‘ کرتے ہیں۔ یہ وہی نریندر مودی ہیں جو ماہر اقتصادیات سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کا مذاق اُڑاتے ہوئے انہیں ’مون مون سنگھ‘ کہتے تھے ۔ انہیں شکایت تھی کہ منموہن سنگھ ہر اہم مسئلے پر خاموش یعنی مون رہتے ہیں جبکہ خود ان کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ ۶؍ برسوں میں انہوں نےآج تک ’اکشے کمار‘ کےعلاوہ کسی کے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔ایک ایسے وقت میں جبکہ پوری دنیا ایک بڑے بحران سے گزر رہی ہے اور دنیا کے تمام ممالک سنجیدگی سے سماج میں پھیلی بے چینی کو دور کرنے، صحت عامہ کے مسائل کو حل کرنے اور اقتصادی صورتحال کو سنبھالنے کی سنجیدہ کوشش کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں، ہمارے وزیراعظم تھالی بجوا  رہے ہیں اور لائٹ  جلانے بجھانے کا کھیل کھیلتے نظرآرہے ہیں۔ 
 آخر میں وزیراعظم صاحب سے یہی استدعا ہے کہ آپ ۱۳۰؍ کروڑ عوام کے سربراہ ہیں، جن کا تذکرہ آپ اکثر کرتے ہیں۔ ان کی قیادت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ انہوں نے آپ سے بہت ساری توقعات وابستہ کررکھی ہیں۔ ان کا خیال رکھیں اوران کے درد کا درماں بنیں۔ اب یہ آپ کو بتانا ہے کہ کیا ہمیں آپ سے اس طرح کی امید کرنی چاہئے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK